ہر بڑی ہار کے بعد بچپن سے ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ ہار جیت تو کھیل کا حصّہ ہوتی ہے.کسی ایک ٹیم کو تو جیتنا ہی ہوتا ہے، جو اچّھا کھیلے گا وہ جیتے گا، چلیں کوئی بات نہیں اگلی دفعہ انشاءاللہ ہم ضرور جیتیں گے وغیرہ۔ دیکھیے صاحب! یہ تمام باتیں طفل تسلّیوں کے طور پر تو ٹھیک معلوم ہوتی ہیں لیکن سچّی بات یہ ہے کہ ہار کا جو دُکھ ہے وہ ایسا کوہِ گِراں ہے جو اُٹھائے نہیں اُٹھتا. ایسا تِیر ہے جو جگر کے پار نہیں، جگر میں پیوست رہتا ہے، ایسا زخم ہے جو اِندمالی کے انتظار میں رِستا رہتا ہے۔ مگر کیا کیجیے، انسان تو نام ہی اُس مخلوق کا ہے جس کی زندگی کی بساط کے ہر خانے کو جبر و قدر کی کشمکش سے آراستہ کیا گیا ہے۔ تو بس لازم ہے کہ سیمی فائنل کی اِس ہار کو بھی ہم گردشِ دوراں گردانتے ہوئے ایک بار پھر “تُم جیتو یا ہارو سُنو، ہمیں تم سے پیار ہے” گُنگناتے رہیں۔
لیکن اس ہار میں کچھ الگ ہے. یہ ہار پچھلی تقریباً ہر ہار سے مختلف معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم چاہے وہ تجربہ کار قیادت میں نوجوان کھلاڑیوں کی 92 کی ٹیم ہو یا مضبوط اور شہرت یافتہ 96 اور 99 کی ٹیم ہو، ہماری ٹیم ہمیشہ اپنی سیماب صِفتی کے لیے تو مشہور رہی لیکن کسی ٹورنامنٹ میں اِس مرتبہ کی طرح قابلِ اعتماد، ٹھہراؤ کی حامل اور مستقل مزاجی کے لیے نہیں جانی گئی۔ ہمیشہ ہی ایسا ہوا کہ ہم نے ٹیم کی صلاحیتوں کے بجائے نوافل، داتا دربار پر بریانی کی دیگ، یا مسکینوں کو کھانے کھلانے کی مَنّتوں کے عوض جیت حاصل کی۔ لیکن اِس مرتبہ ماسوائے ہندوستان کے خلاف پہلے میچ کے جس میں ہار کا مکمّل یقین ہونے کے باوجود ہر شخص نہیں نہیں ہم ضرور جیتیں گے جیسے جملے کہہ کر دوسروں سے زیادہ خود کو یقین دلاتا رہا، ٹیم نے نہایت شاندار اور قابلِ پیش گوئی انداز سے تمام گروپ میچز میں فتح کو اپنا مقدّر کیا۔ شاید یہی مستقل مزاجی ہے جس نے سیمی فائنل کی ہار کے دُکھ میں حیرت شامل کرکے اِسے صدمہ بنا دیا۔
یہ ہار اس حوالے سے بھی مختلف ہے کہ ماضی کے برعکس اِس مرتبہ اِس ٹیم سے کسی کو شکایت نہیں ہے۔ سب نے دیکھ لیا کہ کِس طرح بابر اعظم نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے ٹیم اور عوام دونوں کو دشتِ گماں سے نکال کر یقین کے نخلستاں میں لا کھڑا کِیا۔ پاکستانی کرکٹ مدّاحوں کے لیے یہ بات بھی کسی معجزہ سے کم نہیں کہ اِس مرتبہ پوری ٹیم تو دُور، کوئی ایک کھِلاڑی بھی ایسا نہیں مل پارہا جس پر ہمیشہ کی طرح پورے ٹورنامنٹ میں بُری پرفارمنس کا ملبہ ڈالتے ہوئے دشنام طرازی کا ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا جائے۔ بلّے بازوں سے لے کر گیند بازوں تک، تقریباً سب نے ہی ہر جیت میں اپنا حصّہ ڈالا حتٰی کہ آصف علی اور حارث رؤف جیسے کھلاڑی جنہیں ٹورنامنٹ سے پہلے غلط سیلیکشن گردانا جارہا تھا وہ بھی اچانک ہیرو بن کر سامنے آئے۔
جی ہاں، ایک حسن علی ہے جس کو پہلے میچ سے ہی ٹیم کی ایک کمزور کڑی کہا گیا اور سیمی فائنل میں ہار کی ذمّہ داری اُس کے سَر ڈال کر خود کو تسلّی دی جاسکتی ہے لیکن پہلے سیمی فائنل میں انگلینڈ کے قابلِ اعتبارڈیتھ باؤلر کِرس جارڈن یا 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں انگلینڈ کے مایہ ناز آل راؤنڈر بین اسٹوک کے اُن اوورز کو دیکھیں جنہوں نے انگلینڈ کے لیے جیتی ہوئی بازی کو شِکستِ فاش میں تبدیل کردیا تو یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ ایسا بُرا وقت کِسی بھی بڑے کھِلاڑی پر آسکتا ہے۔ اِس کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہوئے پہلے میچ کے بعد وِننگ کمبی نیشن کو توڑ کر حسن علی کو ڈراپ کر دینا چاہیے تھا تو ایسے صاحبِ اِدراک کی مُریدی اختیار کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کرنا کیا ہے؟ اِس غم کو غلط کیسے کِیا جائے؟ سب سے پہلے تو یہ شکر ادا کِیا جائے کہ اِس مرتبہ ہمیں ایسی پاکستانی ٹیم دیکھنے کو مِلی جو پے در پے اچھی پرفارمنس دینے کے قابل نظر آئی۔ اگلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ایک سال بعد پھر آنے والا ہے۔ اگر ٹیم کمبی نیشن اسی طرح مضبوط رہا تو ہم اِس سے بہتر پرفارم کر پائیں گے۔ پھرہار کے دُکھ سے بڑے اُس دُکھ کو سمجھا جائے جو ہم پاکستانی عوام کو اُس وقت لاحق ہوجاتا ہے جب ہمیں شِکست کا الزام دَھرنے کے لیے کوئی سَر نہ مِل پائے۔ اِس دُکھ کو بھی نعمتِ ایزدی تصّور کرتے ہوئے شُکر کے کلمات ادا کیے جائیں۔ اس کے علاوہ، ٹی وی پربراجمان سابق کھلاڑیوں اور نام نہاد ایکسپرٹس، جو مکھّی کی طرح پورے صاف جسم کو چھوڑ کر صرف زخم پر بیٹھنے کے خواہاں ہوتے ہیں، بالکل نہ سُنا جائے۔ اِس مشکل وقت میں بھارتی نیوز چینل اور کرکٹ تجزیہ کاروں کو تو بالکل بھی سُننے کی جسارت نہ کی جائے۔ اور اگر ان تمام چیزوں سے افاقہ نہ ہو تو انڈیا کے خلاف پہلے میچ کی جھلکیاں دِن میں دو بار ضرور دیکھی جائیں۔
