کورونا وائرس نے پوری دنیا کو مفلوج کردیا ہے۔ امریکا کے بعد یورپ مجموعی طور پر اس وباء سے شدید متاثرہ خطہ بن چکا ہے، اٹلی، سپین، جرمنی، فرانس اور بیلجیئم میں طویل اور سخت ترین لاک ڈاؤن کے باوجود ابھی تک کورونا کے پھیلاؤ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ دنیا بھر میں جب ہر ملک لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہے وہیں سویڈن یورپ کا ایسا ملک ہے جو بغیر لاک ڈاؤن کئے کورونا وائرس کا مقابلہ کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن جیسے سخت اقدامات کئے بغیر بھی سویڈن نے کرونا وائرس کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے سے روک رکھا ہے. سویڈن میں اب تک بارہ ہزار افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اور قریباً بارہ سو اموات ہوچکی ہیں۔ متاثرہ افراد میں نو ہزار سے زائد کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے جبکہ مرنے والوں میں اسی فیصد کی عمریں ساٹھ سال سے نوے سال کے درمیان تھیں۔ مرنے والوں کی اکثریت پہلے سے مختلف بیماریوں کا شکار تھی۔ سویڈن کے ہمسایہ ممالک ناروے اور ڈنمارک کے مقابلے میں شرح اموات زیادہ ہونے کے باوجود سویڈن نے اپنی سرحدیں بند کی ہیں اور نہ ہی ملک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔صرف کالج اور یونیورسٹیوں کو بند کیا گیا ہے البتہ سکول اور ڈے کیئرز کھلے ہیں، شاپنگ مالز، سپر مارکیٹس، دفاتر اور تمام کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں، لوگ روزمرہ کی خریداری معمول کے مطابق کر رہے ہیں۔ بارز، ریسٹورنٹس اور ہوٹلز بھی کھلے ہیں، سرکاری دفاتر میں بھی معمول کا کام جاری ہے۔ حکام کی جانب سے کسی بھی ایونٹ کے لئے پچاس سے ذیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کی گئی ہے، شہریوں کو غیر ضروری سفر سے منع کیا گیا ہے اور سیلف کیئر کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ سوشل ڈسٹینسگ کے حوالے سے سٹورز، مارکیٹس، دفاتر، بس سٹیشن ہر جگہ پر “ڈیڑھ میٹر” فاصلہ رکھنے کے سائن لگا دیئے گئے ہیں جن پر عمل کیا جارہا ہے. ملک میں کہیں بھی ہنگامی صورتحال ہے نہ ہی عام لوگوں میں کسی طرح کی بے چینی ہے۔ لاک ڈاؤن سے انکار کی پالیسی پر سویڈش حکومت کو ملک کے اندر اور باہر دونوں اطراف سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رھا ہے، مگر ساتھ ہی اس اقدام کو عوام کی اکثریت کی حمایت بھی حاصل ہو رہی ہے، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم سٹیفن لوفن کی مقبولیت چند ہفتوں میں پچیس فیصد سے بڑھ کر پچاس فیصد تک پہنچ گئی ہے. سوال یہ ہے کہ وائرس کے شدید خطرات کے باوجود سویڈن میں باقاعدہ لاک ڈاؤن کیوں نہیں کیا جا رہا اور حکومت اور عام شہری اتنے پر اعتماد کیوں ہیں؟ اس کا جواب جاننے کیلئے سویڈن کے سماجی نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔ سویڈن کی کل آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے جس میں سے ایک چوتھائی حصہ دارالحکومت سٹاک ہوم اور اسکے آس پاس آباد ہے۔ بائیس فیصد آبادی پینسٹھ سال یا اس سے زائد عمر کے افراد پر مشتمل ہے جس کی اکثریت اولڈ ہومز میں رہتی ہے اور یہی اصل میں کورونا سے متاثرہ طبقہ ہے۔ سویڈن کی بیس فیصد آبادی سنگل ہاؤس ہولڈ یعنی اکیلے رہنے والے لوگوں کی ہے جن کا میل جول نہایت کم ہے۔ ملک میں کام کرنے والوں میں تقریباً آدھے لوگ پہلے سے ہی گھروں سے کام کرنے کے عادی ہیں، دفاتر یا فیلڈ میں کام کرنیوالے بھی کام کے بعد گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سویڈن کا ہیلتھ کیئر کا نظام دنیا میں بہترین تصور کیا جاتا ہے. سویڈن کی پبلک ہیلتھ ایجنسی صحت سے متعلقہ تمام امور کی زمہ دار ہے۔ ہیلتھ ایجنسی کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر عوام کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرنے کے ساتھ حکومتی اقدامات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔ ہیلتھ اتھارٹیز کی جانب سے کورونا کی وبا سے نمٹنے کیلئے پیشگی انتظامات کئے گئے تھے. عام لوگوں کو انتہائی ایمرجنسی کے علاوہ ہسپتال آنے سے منع کر دیا گیا. ہیلتھ سٹاف کی ممکنہ کمی کا زبردست حل نکالا گیا کہ سکینڈے نیوین ایئرلائن کا تربیت یافتہ فلائٹ سٹاف جو فضائی آپریشن بند ہونے کی وجہ سے فارغ تھا، اسے فوری طور پر سپورٹنگ ہیلتھ سٹاف میں شامل کر لیا گیا اور سویڈش آرمی کی مدد سے ایمرجنسی فیلڈ ہاسپٹلز قائم کئے گئے ہیں۔ سویڈن میں مقامی حکومتوں کا جدید نظام موجود ہے۔ ہر شہر یا بلدیہ کو کمیون کہا جاتا ہے اور تمام کمیونز میں ہیلتھ کا ایک مربوط نظام کام کر رہا ہے. جسکی بدولت شہریوں میں وبا کا خوف بھی باقی ملکوں کی نسبت کم ہے۔ کمزور مخلوط حکومت ہونے کے باوجود اپوزیشن اور میڈیا بھی مکمل لاک ڈاؤن جیسے اقدامات کے خلاف حکومتی پالیسی کے حامی نظر آتے ہیں ۔ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کی سویڈن میں عوام کا حکومت اور صحت سے متعلقہ اداروں پر اعتماد کافی مضبوط ہے. لہذا وبا کے دنوں میں حکام کی جانب سے دی گئی اطلاعات پر مکمل بھروسہ کیا جارہا ہے، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کی سویڈن میں حکومت سیاستدان نہیں، ماہرین چلاتے ہیں۔
