آپ کی مرضی ہرگز نہیں چلے گی۔ آپ ذمہ دار کل نہیں ہیں۔ آپ کے وظائف اور فرائض متعین ہوچکے ہیں۔ معاشرتی تشکیل کو مکمل کرنے اور ساخت کو بچانے کا جو فرض آپ کا تھا وہی فرض دیگر لوگوں میں بھی تقسیم ہوچکا ہے۔ اِس برابری کی تقسیم کو ہم عمل ردِ عمل، حمایت یا مخالفت، مثبت یا منفی جیسی تشریحات سے شناخت دے سکتے ہیں۔ کیا ہم بھول رہے ہیں کہ معاشرتی ارتقاء میں شعورِ اجتماع کا بڑا ہاتھ تھا۔ لوگ باشعور ہو تبھی تو سماج کی تشکیل کا سلسلہ وار مرحلہ شُروع ہوا۔ جیسی جیسی ترقی دیکھنے کو ملی ویسی ویسی ہی ذمہ داریوں کا پاٹ ہوا۔
آپ مُدرس ہیں اور آپ کو کام سونپا گیا کہ آپ وہی کریں گے جس سے انسانیت کو دیگر جانداروں سے نمایاں شناخت ملے۔ گویا آپ کو ذمّہ داری دی گئی کہ آپ انسان کو حیوان ناطق کی خصلت سے نکال کرکے انسانِ ناطق کا کھول پہنائیں گے۔ آپ کو بتایا گیا کہ آپ انسانیت کے اندر چُھپے ہوئے اُن گوشوں کو کھینچ نکالیں گے کہ جن کی اہمیت معاشرتی بقاء کےلئے ضرور بہ ضرور رہتی ہے۔ اِس تمام تر ملازمت یا ذمہ داری کی ادائیگی کا بدلہ آپ کو “رُوحانی باپ” کے درجے پر فائز کرکے دیا گیا۔ لیکن اِس تمام تر صورت حال میں آپ کو قطعاً آزاد نہیں رکھا گیا کہ جی! میں اُستاد ہوں تو میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ میری مرضی کا احاطہ کسی کی زندگی حاصل کرنے تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر بالفرض آپ اپنے فرائض سے تجاوز کر لیں گے تو ایسے بھی افراد ہوں گے کہ جو آوازِ حق بننے کا فریضہ بخوبی انجام دیں گے۔ بلکہ نقارہ خلق بننے کی پوری قوت لے کر آپ کے مدِ مُقابل کھڑے ہوں گے کہ بالآخر جمہور کے سامنے آپ کا احتساب ہوکر ہی رہے گا۔ یہ معاشرے کی وہ حقیقت ہے جس کو نظرانداز کرنا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔
آپ مُعاشرے کے کرتا دھرتا ہیں۔ اپنی خدمات سے لوگوں کو گرویدہ بنالیا۔ لوگوں نے آپ کی متاثر کن شخصیت سے زندگی کے مختلف اجزاء مستعار لے رکھے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی آجاتا ہے کہ آپ معاشرتی سانس کی اشد ضرورت بن جاتے ہیں۔ اب یہاں دو صورتوں میں آپ کی شخصیت متعین ہوجائے گی:
اول: یہ کہ لوگوں کی توقعات اور بھروسہ آپ کو بابِ سیاست تک لے کر جائے گا اور آپ ریاست کے اہم ترین سیاستدان کی شناخت رکھیں گے۔ ہر عام و خاص کو آپ کی فکر لگی رہے گی۔ لوگوں کی خواہشات اور تمناؤں کو آپ کی شخصیت جِلا بخشے گی۔ یہ آپ کی سماجی زندگی کا اہم ترین رُکن ہوگا۔ یاد رہے کہ اس قدر مقام و مرتبہ ملنے کے باوجود اب بھی آپ مواخذہ سے مُبرّا نہیں ہیں۔
دوم: یہ کہ آپ سماج کے اُن اداروں کے روحِ رواں ہیں جہاں طور و طریقے وضع ہوتے ہیں، جہاں زندگی کی ہر باریکی کو گہرے مطالعہ کے ذریعے منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔عجب نہیں کہ وہ زندگی اجمالاً بھی ہوگی اور تفصیلاً بھی۔خاص طور پر جمہوری اور ترقی یافتہ معاشروں میں مختلف قسم کے ادارے اِس نوع کی بنیادی مثالیں ہیں۔ آپ کی ذمہ داری، فرض اور مقام کے علاوہ ایک اور اہم چیز بھی ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے جواب دہ بھی ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ بڑے عہدے کے مالک بن گئے اور آپ احتساب و مواخذہ سے بری بھی ہوگئے۔ لوگوں کے طنز و مزاح اور تیر و نشتر ہمیشہ آپ کی تاک میں رہیں گے۔ خُلاصی اسی صورت ملے گی جب تک کہ آپ کی شخصیت کا انسانی پہلو اپنے مقام پر براجمان رہے گا۔ جس دن محسوس ہوگا کہ آپ اپنے مقام و مرتبہ سے ہٹ کر اور انسانیت کے خول سے باہر نکل کر کوئی حرکت کر بیٹھے ہیں جس کی معافی تلافی فی الحال معاشرے کی لغت میں موجود نہیں، وہ دن آپ کی شخصیت کا زوال پذیر پہلو ہوگا۔ پھر لوگوں کے غم و غصہ کا واحد علاج ہی یہی ہوگا کہ آپ اپنے سماجی مقام سے اُتر جائیں۔
لہٰذا اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ معاشرتی نُمو اور اِرتقاء کو پروان چڑھانے کےلئے عمل کے ساتھ ساتھ اِحتساب کا عنصر بھی لازمی ہے۔ جبکہ کسی کی اچھائی، کامل خُلوص اور قابلیت و لیاقت کی ستائش بھی از بس ضروری ہے تاکہ معاشرتی جُمود کو تحرک ملے اور لوگوں کو اپنے فرض کا بھرپور اِحساس ہو۔
اِس تحریر کے ذریعے یہ بتلانا مقصود تھا کہ آپ جاگیں اور آپ کا جاگنا معاشرے کےلئے سود مند ہی سود مند ہے۔ جس دن آپ جاگ گئے اُس دن آپ کو پتہ چلے گا کہ اصل میں آپ کیا ہیں اور اب تک کیا تھے اور کہاں تھے۔!!