(ہر جابر و ظالم اور اُس کا جُرم قابلِ نفرت ہے)
میرے لبُوں کا شور محھے ستاتا ہے کہ میں بولوں، فریاد کروں، آوازہ خلق بنوں، دل کی بھڑاس نکالوں۔ یہاں تک کہ وہ سب کچھ اُگل دوں کہ جس کی کِھسک میرے دل میں ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ ہر عام و خاص میری اِس صدا کا منارہ شور بن جائے اور مجھے سُکون ملے کہ میری صدا کا کوئی تو پیامبر تھا کہ وہ ہر چُپ بیٹھی مخلوق کےلئے پیغام رساں بن گیا۔
لیکن!
میرے لبوں کو جھکڑا ہے اُن زنحیروں نے جو میرے اِرد گرد حصار لئے رقص کر رہی ہیں۔ اُن کا شور مجھے حواسہ باختہ کرنے کا پورا ذریعہ ہے۔ میرا مخالف ہر لمحہ میری بربادی کا مُنتظر ہے۔ وہ ذرا سی بھی چھوٹ کا قائل نہیں۔ اِک ذرا سی آہ جو بُلند ہوئی، پل بھر میں خنجر کی تیز دھار سے میرے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
اس لئے کہ!
وہ طاقت کو حرفِ آخر سمجھتا ہے۔ میری بے زبان کہانی کے ہر لفظ کو جھوٹ کہتا ہے۔ بغاوت کے ہر صفحے پر میرا نام اس قدر جلی حروف سے لکھتا ہے کہ گویا میرا وجود ہی باغیانہ سوچ کی تعبیر ہے۔
پھر بھی!
میری باغیانہ سوچ کی ہر پرچھائی پُکار پُکار کر کہتی ہے کہ ہاں! ہاں! تم ظالم ہو۔ تمہاری ظلمت نے میری رگ رگ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے۔ میرے لبُوں پر لگی بندش بھی تم کو کانٹے کی طرح چُبھتی ہے۔
جفا جو ہوا تو!
وفا سے دور ہوجائو گے۔ میرے محلے کی ہر گلی تمہیں اجنبی لگے گی۔ میرے وطن کا ہر کونا ننگِ عارثابت ہوگا۔ بھڑکی جو میری حمیت تو سرچُھپانے کی جاہ نہ ملے گی۔ تاریخ کے ہر صفحے پر تمہارا ذکر تو ہوگا پر عِبرت کے طور پر۔ لوگ تمہیں یاد تو کریں گے لیکن لعن طعن کرنے کےلئے۔
سوچ ذرا!
ہم میں قومی غیرت کا جنون ہے۔ ہم میں وطن کی محبت کا سُرور ہے۔ ہم میں طوفان اور آندھی سے بِڑنے کا فنون ہے۔ میرا وطن میراعشق ہے، چاہ ہے، غرور ہے۔ ہم نے دریا کی مخالف سمت کو اپنی منزل کے طور پر اِنتخاب کیا ہے۔ تیری طرح کئی آئے پھر چلتے بنے۔ میرا تو کچھ نہ بگڑا پھر تیرا سب کچھ گیا۔ تیری چالبازیوں سے میری تاریخ کا ہر دریچہ کُھلتا گیا۔ لیکن ہائے رے تیری قسمت! کہ تیرا ہر عمل ظلمتِ شب کا استعارہ بن گیا۔
اب بھی باز آ!
کہ تیرے ظلم میں وہ طاقت نہ رہی۔ تو کھوکھلا ہوچکا ہے کہ تیری ہیبت نہ رہی۔ تو کمزور، نحیف اور ناتواں ہوچکا ہے کہ تیری جرأت نہ رہی۔ سرکش بھی بنا تو، بدفطرت بھی تری خاصیت تھی۔ طاغوت بھی بنا تو، سازش تری جاذبیت تھی۔ ظالم بھی بنا تو، ظُلمت تری بولہبیت تھی۔ قاتل و فاجر بھی بنا تو، ذات تری یزیدیت تھی۔ پھر بھی تو مصروفِ عمل ہے کہ مخلوقِ خدا کو زِک پہنچے۔؟؟
اے ظالمِ ابدُالابد!
اب بھی ہوش میں آجا۔ تیرا ولولہ عارضی، تیرا دبدبہ لمحہ بھر کا، تیری طاقت محتاجِ ہتھیار و سپاہ، تیرا رعب کھوکھلا، تیری دُنیا عیش و آرام کے باوجود ہر وقت خوف و ہراس کی باندی، تیری عاقبت نجات و جزاء سے پرے۔ پھر بھی اِتراتا ہے کہ تو طاقت کا بے تاج بادشاہ ہے۔ سنبھل قبل اس کے کہ تیری ہر ادا کا حساب و کتاب ہو۔
34