فروری 1957 میں چین کے صوبے ‘ گوئیشو ‘ میں فلو کی ایک وبا پھوٹ پڑی ، جس کا سبب جنگلی بطخوں سے پھیلنے والا ایک وائرس تھا. چونکہ وائرس اٌس زمانے کیلئے بالکل نیا تھا، اس لئے لوگوں کا مدافعتی نظام وائرس کے خلاف زیادہ مزاحمت نہ کر پایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے فلو نے چین کے دیگر شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چین سے نکل کر یہ وائرس ہانگ کانگ، سنگاپور، جاپان اور تائیوان سمیت پورے مشرقی اور جنوبی ایشیا میں پھیل گیا۔ بعدازاں برٹش بحریہ کے سپاہیوں اور بحری سفر کے ذریعے مسافروں نے یہ فلو برطانوی اور امریکی بندرگاہوں اور شہروں تک پہنچا دیا۔ امریکہ اور یورپ سمیت بڑے پیمانے پر دٌنیا کو متاثر کرنے والی اِس وبا کو ایشین فلو کا نام دیا گیا۔ 1918 کے عالمگیر سپینش فلو کے بعد ایشین فلو ایسا خطرناک ترین وائرس تھا جو بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کیلئے یکساں جان لیوا ثابت ہوا۔ ایشین فلو کے باعث ایک سال کے دوران دُنیا بھر میں پانچ کروڑ افراد متاثر ہوئے، جبکہ اِس وبا کے نتیجے میں 20 لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ صرف امریکہ میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ برطانیہ میں نوّے لاکھ افراد اس وائرس کا شکار ہوئے اور 15 ہزار سے زیادہ ہلاک ہوئے۔ فلو کے مرکز سے نزدیک ہونے کے سبب انڈیا اور پاکستان میں پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ اس وائرس کا نشانہ بنے اور اٌن میں سے ہزاروں افراد اِس فلو سے متاثر ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے۔
پاکستان میں کراچی ایشین فلو سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ یہ فلو پہلے بخار پھر نمونیا میں بدل جاتا تھا۔ کراچی کی نصف سے زیادہ آبادی فلو کی اِس بیماری میں مبتلا ہوگئی تھی۔ ہنگامی حالات کے پیش نظر کراچی میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، اور وبا پر قابو پانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ ایشین فلو کی وبا کے دوران صحت عامہ کی ناکافی سہولیات کے باعث اموات نہایت تیزی سے بڑھیں۔ عام لوگوں کو بے بسی سے مرتا دیکھ کر کراچی کا انتیس سالہ ایک غریب نوجوان تڑپ اُٹھا۔ اُسکے پاس میڈیکل کی بنیادی تربیت تھی مگر وسائل نہیں تھے، پھر بھی اُس نے اٌدھار پر ٹینٹ پکڑ کر کراچی میں ایک میڈیکل کیمپ قائم کیا اور فلو سے متاثرہ مریضوں کا علاج معالجہ شروع کردیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں مریضوں کی مدد کرنے پر نوجوان کی کوششوں کو سراہا جانے لگا تو اُس نے کیمپ کے باہر ایک باکس رکھ دیا، جس میں لوگوں نے اپنی حیثیت کے مطابق پیسے ڈالنا شروع کردیئے۔ فلو کی وبا ختم ہونے تک اُس نوجوان کے پاس امداد کی صورت میں دو لاکھ روپے جمع ہوچکے تھے۔ اِس رقم سے اُس نے ایک پرانی وین خرید کر اسے ایمبولینس میں تبدیل کیا اور انہی پیسوں سے ایک کمرے کا مستقل دفتر بھی قائم کر لیا۔ اُس نوجوان کا نام ‘عبدالستار ایدھی’ تھا، اور ایشین فلو کی وبا کے دوران ایک کمرے کے اُس دفتر سے پاکستان میں ‘ایدھی فاؤنڈیشن’ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
اُسکے بعد عبدالستار ایدھی نے باقی زندگی فلاحی کاموں کیلئے وقف کردی اور پوری قوم کے آگے اپنی جھولی کو پھیلا دیا۔ ملک کے ہر کونے سے لوگوں نے ایدھی فاونڈیشن کی مدد کی اور اِس طرح ایدھی نے رضاکارانہ ایمبولینس کا دُنیا میں سب سے بڑا نیٹ ورک قائم کر ڈالا۔ تب سے اب تک ایدھی فاونڈیشن کی بے مثال فلاحی خدمات سب کے سامنے ہیں۔
کورونا وائرس کے موجودہ بحران میں یہ بہترین موقع تھا کہ حکومت کوئی بھی نئی کورونا ریلیف فورس قائم کرنے کے چکر میں وسائل کو برباد کرنے کی بجائے ایدھی فاونڈیشن جیسے اداروں کو استعمال کرتی، اُنہیں جدید خطوط پر استوار کرنے میں مدد دیتی، کورونا سے بچاؤ اور علاج کیلئے درکار جدید طبی آلات اور حفاظتی سامان کو ڈیوٹی فری قرار دیکر ایدھی فاونڈیشن کی تنظیم اور کارکنان کو ملک بھر میں ہیلتھ سروسز کے موجودہ نظام کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا۔ اس طرح تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہوتا اور ملک بھر میں موجود ایدھی کے رضاکاران کو حکومتی مشینری کی مدد اور سرکاری سرپرستی بھی میسر آجاتی۔ صوبائی حکومتوں کی مدد سے ایسا میکنزم بہت آسانی سے بنایا جا سکتا ہے جس کے تحت کورونا کی صورتحال میں فلاحی اداروں کو مناسب وسائل اور فوری طور پر مختصر تربیت دے کر وبا کے خلاف جنگ میں زیادہ موثر انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نادرا اور شہری حکومتوں کی مدد سے ہر علاقے میں یونین کونسل کی سطح پر موجود پولیو ورکرز کے ذریعے آبادی کی میپنگ اور رسک گروپس بنائے جا سکتے ہیں۔ اس سے وائرس کے پھیلاؤ کے رجحان کو جاننے، مریضوں کو شناخت کرنے اور کورونا ٹیسٹنگ کیلئے ترجیحی لسٹیں مرتب کرنے کے عمل میں مدد مل سکتی ہے۔ ایدھی، الخدمت، سیلانی اور دیگر فلاحی تنظیموں کے لوگ، اُنکے دفاتر اور ڈسپنسریاں تقریباً ہر علاقے میں موجود ہیں، جن کو ایمرجنسی ریسپانس اور سپورٹ سروسز کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایدھی کے شیلٹر ہومز کو بآسانی قرنطینہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایدھی ایمبولینسیںز کو موبائل ہیلتھ یونٹس بناکر ضروری طبی امداد، متاثرین کی گھروں سے منتقلی، حفاظتی سامان کی فراہمی سمیت مستحقین کیلئے راشن کی ترسیل جیسے کام بھی نہایت منظم انداز میں سر انجام دیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح سالہا سال سے کام کرنے والے ان فلاحی اداروں کو حکومت کا اعتماد حاصل ہوگا اور حکومتی اداروں کے ساتھ ملکر کام کرنے کا موقع بھی مل پائے گا۔ اس عمل سے حکومتی اقدامات کو عوامی سطح پر پزیرائی حاصل ہوگی اور اپنی نیک نامی سے یہ ادارے کورونا فنڈز اکٹھے کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ بہرصورت حکومت کو نہ صرف مفت افرادی قوت میسر آئے گی بلکہ لاک ڈاؤن کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر وبا کا مقابلہ کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ کورونا وائرس تو جلد یا بدیر چلا جائے گا، مگر ایسے اقدامات سے ملک میں موجود فلاحی اداروں کو جو توانائی مل سکتی ہے وہ انکے لئے آئندہ کسی بھی ہیلتھ ایمرجنسی کی صورت میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کیلئے کافی ہوگی۔
موجودہ ایدھی نیٹ ورک تریسٹھ سال پہلے وبا کے دنوں میں ریاست کو دیا گیا ایدھی کا وہ قرض ہے جو ابھی تک واجب الادا ہے۔ مگر ریاست چونکہ اُنہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کر چکی ہے، تو اب ایدھی فاونڈیشن کی اعانت کرنے کی بجائے اُسی سے ایک کروڑ لینے میں کوئی عار نہیں سمجھتی۔ اچھا ہوا ایدھی صاحب کورونا سے پہلے ہی چلے گئے، وگرنہ ریاست آج ایدھی صاحب سے یہ امداد کس منہ سے لیتی؟