اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قائم ہوئے اکھتر سال ہوگئے. ان گزرے سالوں میں خطے میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں. گاؤں قصبے میں ڈھل گئے، قصبے شہروں میں تبدیل ہوگئے، شہر پھیل کر بڑے شہروں میں شمار ہونے لگے، صنعتیں لگیں، کارخانے چلے، کاروبار بڑھے اور لوگوں کو اپنی زندگیاں بہتر کرنے کے مواقع دستیاب ہوئے لیکن اسی پاکستان میں محب وطن پاکستانیوں کی ایک بستی ” تھرپارکر” نام کی ایسی بھی ہے جہاں کے باشندے تبدیلیوں کے ان رنگوں سے واقف ہی نہ ہو سکے اور اب ان کی نئی نسل بھی منتظر ہے کہ ” کُھلے کوئی در دیوار میں ہوا کے لئے”.
خطہ برصغیر میں موجود صحرائے تھرکا کُل رقبہ ستترہزار مربع میل ہے. جس کا پچھتر فیصد حصہ پڑوسی ملک بھارت میں، راجھستان، گجرات، پنجاب اور ہریانہ، میں ہے اور پچیس فیصد حصہ پاکستان میں، سندھ اور جنوبی پنجاب میں ہے. جنوبی پنجاب (بھاولپور) میں واقع صحرا کو صحرائے چولستان کہا جاتا ہے اور مقامی زبان میں اسے روہی کہتے ہیں جبکہ سندھ میں واقع صحرا کو تھرپارکر کے نام سے جانا جاتا ہے.
اُنیس ہزار مربع میل رقبے پر محیط صحرائے تھرپارکر کراچی سے سوا چھ سو کلومیٹر دور سندھ کے جنوب مشرق میں واقع ہے. جغرافیائی طور پر تھرپارکر دو حصوں میں منقسم ہے، ایک تھر یعنی صحرا اور دوسرا پارکر یعنی پہاڑی. یوں تو یہ دنیا کا سترواں بڑا صحرا ہے مگر اس کی خصوصیت یہ ہے کہ دنیا میں پائے جانے والے تمام صحراؤں میں یہ واحد صحرا ہے جو زرخیز ہے.
تھر پارکر معدنیات کی دولت سے بھی مالامال ہے. یہاں دنیا کے دوسرے سب سے بڑے کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جو اپنی نوعیت میں بہترین درجے کے ہیں. یہاں موجود کارونجھر پہاڑی سلسلے میں گرینائٹ پتھر بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جو تعمیراتی کاموں میں بکثرت استعمال کیا جاتا ہے. علاوہ ازیں اس صحرا میں نایاب نسل کے جانور، پرندے، حشرات الارض اور درخت و پودے بھی پائے جاتے ہیں. یہاں اگنے والی بہت سی نایاب جڑی بوٹیاں مہلک بیماریوں سے بچانے والی دواؤں میں استعمال کی جاتی ہیں.
صحرائے تھر تاریخی اعتبار سے بھی شہرت کا حامل ہے. اس کی مٹی میں داستان عمر ماروی کی خوشبو رچی بسی ہے. ماروی جو تھر کے علاقے ملیر کی رہنے والی تھی اور عمر، عمرکوٹ کا سومرو حکمران. ایک روز کنویں پر پانی بھرتے ہوئے عمر نے حسین و جمیل ماروی کو دیکھا اور دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اسے اٹھا کر اپنی راجدھانی عمرکوٹ لے آیا تاکہ شادی کرکے اسے اپنی ملکہ بناسکے مگر ماروی جس کا دل اپنے وطن کی محبت سے لبریز تھا، اس نے عمر کی محبت قبول نہیں کی اور تخت وتاج کو ٹھکرا دیا. ایک سال تک عمر نے اسے اپنی قید میں رکھا مگر ماروی کے دل سے یہ محبت نہ مٹا سکا بالاخر اس نے ماروی کو آزاد کرکے اپنے وطن جانے کی اجازت دے دی. اس داستان کو سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی نے شاہ جو رسالو میں سر مارئی کے نام سے منظوم کیا ہے. دنیا کی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا ہے جن میں انگریزی، جرمن، فرانسیسی، پنجابی اور اردو شامل ہیں.
تھر میں بھالوا کے مقام پر ماروی کا وہ کنواں آج بھی موجود ہے جہاں سے وہ پانی بھرتی تھی. لوگوں کا ماننا ہے کہ ماروی کے کنویں میں سکہ ڈال کر جو مراد مانگی جائے وہ ضرور پوری ہوتی ہے.
سندھ کے مشہور خاندان سومرو حکمرانوں کی راجدھانی عمرکوٹ کا قلعہ تین کلومیٹر رقبے پر محیط ہے. جسے سب سے پہلے گیارویں صدی عیسویں میں رانا امر سنگھ کی حکومت میں تعمیر کیا گیاتھا. اسی قلعے میں 1542 میں شیرشاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں پناہگزیں ہوا اور روایات کے مطابق یہیں اکبر بادشاہ کی پیدائش ہوئی. سومرو حکمرانوں نے یہاں پانچ سو سال حکومت کی جس کے بعد اقتدار سوڈھوں راجپوتوں کے پاس آگیا اور پھر 1856 میں سرکار انگلشیہ (برطانیہ) نے قبضہ جمالیا. وقت کے طویل دورانیے تک سندھ کا مرکز رہنے والے اس علاقے میں جہاں وطن کی محبت سے سرشار ماروی کا نام زندہ و جاوید ہے وہیں برطانوی راج سے بغاوت کرنے والے سندھ کے جانباز بیٹے کرن سنگھ، لادھو سنگھ اور کئی دوسرے بھی یاد رکھے جائیں گے جنھوں نے وطن کی محبت میں تختہ دار پر لٹکنا تو منظور کیا مگر وطن سے غداری نہ کی. آج عمر کوٹ کا قلعہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے تیزی سے ابتری کا شکار ہوتا جارہا ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تاریخی سرمائے کی حفاظت کے لئے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ ہماری نسلوں کے لئے یہ قصہ پارینہ نہ بن جائے.
کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے تھرپارکر سمندر کا حصہ تھا. موسمی تغیرات اور کارونجر کی پہاڑیوں میں پھٹنے والے آتش فشاں نے رفتہ رفتہ سمندر کو پیچھے دھکیل دیا. تابوت میں آخری کیل بارشوں کی کمی نے ٹھونکی جو بالاخر اس سمندری علاقے کو صحرا میں ڈھال دینے کا باعث بن گئی. تھرپارکر کے مقامی لوگوں میں اس سے متعلق ایک دلچسپ داستان ملتی ہے کہ ایک ہندو عالم (رشی) کی بددعا کے باعث سمندر خشک ہوکر صحرائے تھر میں تبدیل ہوگیا. قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک عبادت گزار رشی کہ جو دس ہزار سال سے اس جگہ دنیا تیاگ کر عبادت میں مشغول تھا، ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کے ورغلانے پر گناہگار ہوا اور اس کی ساری عبادت و تپسیا راندہ قرار دے دی گئی جس کے نتیجے میں اس نے بددعا کی کہ یہ سمندر خشک ہوکر صحرا میں تبدیل ہوجائے.
اس روایت کی حقیقت کیا ہے؟ نہیں معلوم تاہم اس کی صداقت اس حد تک تو ضرور ہے کہ صحرائے تھر میں خشک سالی سب سے بڑا مسئلہ ہے جو وہاں زیادہ تر ڈیرہ جمائے رہتی ہے اور اپنے باسیوں سے موت کا خراج وصول کرتی رہتی ہے. تھر کے لوگوں کی ساری امیدیں بارشوں سے بندھی ہوتی ہیں. آسمان سے برسنے والا پانی جہاں پیاسے صحرا کو سیراب کرتا ہے وہیں اس میں بسنے والوں کو بھی حیات نو کا پیغام سناتا ہے. مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر بارش کا پہلا قطرہ کسی کمہار کے گھر گرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس سال بارشیں کم ہونگی کیونکہ کمہار پانی خرچ کرکے برتن ڈھالتا ہے. اگر پہلا قطرہ کسی بنیے کے گھر پر پڑے تو علامت یہ بتائی جاتی ہے کہ اس سال اناج کی پیداوار کم ہوگی اور اگر بارش کا پہلا قطرہ کسی ماشکی کے گھر پر پڑے پڑے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس سال خوب بارشیں ہونگی کیونکہ ماشکی گھر گھر پانی پہنچا کر انسانوں اور جانوروں سب کو سیراب کرتا ہے.
صحرائے تھر میں بارشوں کے موسم میں جابجا سبزے کی چادر بچھ جاتی ہے. کنویں، تالاب اور جوہڑ پانی سے چھلک اٹھتے ہیں اور تھریوں کے گرمی و خاک سے مرجھائے چہرے وقتی طور پر کھل اٹھتے ہیں.
تھرپارکر کی موجودہ آبادی سترہ لاکھ کے قریب ہے. جس میں 1998 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق 59 فیصد مسلم اور41 فیصد ہندو ہیں. مٹھی، ڈیپلو، چھاچھر اور ننگر پارکر، تھر کے وہ علاقے ہیں جن میں کچھ شہری سہولیات نظر آتی ہیں مگر ان میں فقط چار فیصد لوگ بستے ہیں. پاقی 96 فیصد آبادی گاؤں و دیہات میں غربت و پسماندگی کی حالت میں جی رہی ہے. جن کو نہ صاف پینے کا پانی میسر ہے اور نہ ہی صحت مند غذا. گاؤں کے گاؤں جدید دور کی سہولیات بجلی، ٹیلی فون، پختہ سڑکیں اور آمدورفت کے ذرائع گاڑی و بس وغیرہ کے حامل ہی نہیں ہیں. چند بڑی شاہراؤں کے علاوہ جن میں کیکڑا نامی مخصوص ٹرک چلتے ہیں زیادہ تر لوگ پیدل سفر کرتے ہیں یا پھر باربرداری کے جانور استعمال کرتے ہیں.
غیر معیاری پپنے کے پانی اور ناقص غذا کی بدولت تھرکے باسیوں میں آنکھوں، بالوں، جگر، جلد اور دانتوں کی بیماریاں عام ہیں. یہاں بچوں کی بڑی تعداد خون کی کمی، تپ دق، پولیو، ملیریا اور اسہال جیسی بیماریوں کی زد میں رہتی ہے. معالجوں اور تربیت یافتہ عملے کی کمی اور دواؤں کی قلت کی بدولت ہرسال سینکڑوں بچے ان بیماریوں سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں.
تھرپارکر میں شرح خواندگی 20 فیصد سے بھی کم ہے. عالمی رپورٹ کے مطابق یہاں پانچ لاکھ بچوں میں سے صرف سولہ ہزار بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں. گاؤں دیہات میں زیادہ تر بچے گھر کا بوجھ اٹھانے کے لئے محنت مزدوری کرتے ہیں یا پھر اپنے ارباب اختیاروں کی غلامی کرتے ہیں. ان حاکموں کو یہ گوارا نہیں کہ ان کے محکوم تعلیم حاصل کرکے باشعور ہوجائیں اور ان کی غلامی سے آزاد ہوجائیں. مقام افسوس ہے کہ ان کے اپنے بچے بیرون ملک اعلیٰ اور مہنگی تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر تھر کے غریب بچے معمولی تعلیم کے لئے بھی ترستے ہیں. ستم پر ستم یہ ہے کہ حکومت اور فلاحی اداروں کی جانب سے قائم کیے گئے جو چند اسکول ہیں ان میں تعلیمی سرگرمیوں کے بجائے حاکموں اور وڈیروں کے مویشی بندھے ہوتے ہیں یا پھر ان کی بیٹھک یا اوطاق بنی ہوتی ہے.
ایسا نہیں ہے کہ تھر میں وسائل کی کوئی کمی ہے. پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ قدرت نے اس خطے کو کس قدر نوازا ہے. کوئلے سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف یہاں کے بلکہ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کی زندگی بدلنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے. صحرا میں تپتے سورج کی گرمی کو محفوظ کرکے شمسی توانائی کا حصول بھی کوئی دور کی کوڑی نہیں ہے. حالیہ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ تھر میں زیرزمین پانی کا وسیع ذخیرہ موجود ہے جو تھر کے باسیوں کو درپیش پانی کی کمی کی مشکلات کو آسان کرسکتا ہے. ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ تھر کو مخلص اور درد مند حکمران مل جائیں جو یہاں کے دکھ اور تکلیف کو محسوس کرسکیں اور یہاں کے لوگوں کو اپنا محکوم و غلام نہیں بلکہ انسان کی حیثیت سے دیکھیں. سچ تو یہ ہے کہ یہاں کے حکمرانوں کو ان مظلوموں کی یاد صرف اس وقت آتی ہے جب انتخابات کی بساط بچھنے لگتی ہے تب بڑے بڑے دعوے اور وعد وعید کیے جاتے ہیں، دلاسے دیئے جاتے ہیں، امیدیں بڑھائی جاتی ہیں لیکن وقت نے بتایا کہ حاکموں کی جانب سے کیے گئے وعدوں کے ایفا ہونے کے انتظار میں تھریوں کی کئی نسلیں گزر چکی ہیں.
مقامی سطح پر کام کرنے والی بےشمار فلاحی اور سماجی تنظیمیں تھر میں سرگرم عمل ہونے کی دعویدار ہیں مگر ان میں مخلص تنظیموں کی تعداد آٹے میں نمک کی برابر ہی ہے. عالمی اداروں اور مغربی ممالک کی فلاحی تنظیموں کی جانب سے بھی وقتاَ فوقتاَ تھر کے لئے ممکنہ امداد فراہم کی جاتی رہی ہے مگر افسوس کہ اُس امداد سے تھر کے لوگوں کو کوڑی کا فائدہ نہیں پہنچایا جاتا البتہ امداد کے حصول کی خاطر تھر کے غریب اور مظلوم لوگوں کی بیکسی کی تشہیر جا بجا کی جاتی ہے. ہمارے ذرائع ابلاغ (اخبارات اور ٹی وی چینلز) بھی اس طرح کے عوامی معاملات پر اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتے بلکہ اس کے برعکس وہ حکمرانوں کے روزوشب کا حساب لگانے اور ان کی جی حضوری میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں. گویا تھر کے باسیوں کی مثال ” کولہو کے بیل کو گھر ہی کوس پچاس” سی ہے کہ وہ غیروں سے زیادہ اپنوں کی ستم ظریفی کا شکار ہیں.
44