تبصرہ : شبانہ نوید ، ڈھاکہ بنگلہ دیش
میں اپنے بھائی بندھو کی کتابیں پڑھتی ہوں تب اس پر اپنا اسمارٹ تبصرہ بھی دیتی ہوں۔تبصرے سے دو فائدے ہوتے ہیں. ایک تو میں نے کیا سمجھا اور کتنا سمجھا کسی کتاب کی روح کو ،دوسرے غلط ہوتی ہوں تو سر عام نہیں لیکن بھائی بندھو،،میسنجر میں آکر درست کر دیتے ہیں تب کیا ہوتا ہے بند عقل کے تالے کھل جاتے ہیں۔
میں نے سرور بھائی کی کتاب “شب ہجراں” پڑھ لی۔بولڈ ہے بیوٹی فل ہے۔کہانی کے کردار جس ماحول میں پنپ رہے ہیں جو حالات اور وقت کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں سچائی سے اسے لکھا جائے تب لکھاری اپنے کرداروں سے انصاف کر پاتا ہے ۔
سرور بھائی کی “شب ہجراں” ہم سب کی کہانی ہے .ہم سب جو مہاجر بن کر بنگلہ دیش آ ئے پھر ادھر ادھر بکھر گئے۔سرور بھائی نے بہت مہارت سے کہانی کے تانے بانے کو بنا ہے .لگتا ہی نہیں کوئی ناول پڑھ رہی ہوں. سارے حالات آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔
سرور بھائی نے بہت مختصر عرصہ گزارا بنگلہ دیش کے شہر پاکسی میں۔پا کسی انکی جائے پیدائش ہے اور سرورق کی تصویر پاکسی کےHarding bridge کی ہے۔ عمر کا سب سے سنہرا دور ہوتا ہے بچپن کا جہاں ہر طرف آ لہ دین کے چراغ کی جلتی بجھتی روشنیاں نظر آ تی ہیں،پریوں کا راج رہتا ہے، سچے موتی جیسے دوست ہوتے ہیں،صاف ،شفاف ذہن ہوتا ہے،آسمان سے وسیع دل ۔ وہ برج ذہن سے نہیں نکلا وہ سنہرا دور پاؤں میں بیڑی ڈال کر وہیں کھڑا رہا. سرور بھائی بہت آ گے نکل گئے لیکن یادوں سے آ گے نہیں نکل پائے۔ وشال ندی پر بنا برج ان کے ذہن میں محفوظ تھا۔سرورق کے رنگ بھی کافی حساس ہیں. مجھے یہ بند یاد آ گیا:
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
عشق میں پختگی آ نے سے پہلے ہی ہجر کا کٹھن دور شروع ہو گیا ۔شب ہجراں،صرف ناول نہیں ایک دستاویز کی حیثیت بھی ہے ۔نصف صدی پر پھیلی وہ تلخ ،دلدوز حقیقت ہے جسے لوگ بھول چکے ہیں اور کچھ یاد رکھنا نہیں چاہتے ہیں۔اس ہجرت کے سفر میں نسلیں برباد ہوگئیں۔
یہ ملک جو کبھی سرور بھائی کا تھا، وہی دیار غیر ٹہرا۔اسکی آ ب و ہوا،دلکش نظارے،ندی،برج،ریل ٹڑیک،اچھے برے انسان، وہ گلیاں ،گلیوں سے مڑتے موڑ ،وہ درختوں کے سلسلے سب ان کے ذہن میں لمحوں میں گزرے واقعات کی طرح تازہ ہیں،محفوظ ہیں۔محبوبہ بے وفا ہو تو دل دکھتا ہے. نہیں پانے کی کسک،کھونے کا دکھ لیکن محبت کے گھڑے کو قطرہ قطرہ کر کے بھرا جاتا ہے وہ خالی کہاں ہوتا ہے.
اس ناول کی خاص بات یہ ہے اس کے بہت سے کردار میرے جانے پہچانے ہیں. احمد صاحب کو ہی لے لیجئے میں انہیں جانتی ہوں یہ کھٹمنڈو سے آ نے والی ہر پرواز کا انتظار کرتے اور آنے والوں کی ہر طرح سے مدد کرتے یہ انکا معمول تھا۔
ایک کردار ہے فہیم صاحب کا تھوڑے سے فرق سے میں انہیں بھی جانتی ہوں بہت اچھے سے۔ شب ہجراں کے بیان کردہ کرداروں کی طرح ہمیں ہر موڑ پر ایسے لوگ ملتے ہیں. ایسی ہی انکی زندگی ہوتی ہے عام سی سادہ سی،جس میں خوابوں کے تصادم ہوتے ہیں،ملک بدری ہوتی ہے،محبت کا جنون ہوتا ہے،کچھ کر دکھانے کا عزم۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ کہانی لکھی سرور بھائی نے اور کردار میرے جانے پہچانے .زندگی اور حقیقت سے جڑی کہانیاں ایسی ہوتی ہیں۔اس کہانی میں، میں بھی کہیں نا کہیں موجود ہوں
غیر متحرک ،کسی سادہ پنوں میں چھپی ،اسی درد ،کرب خواب کے ساتھ۔بہت شاندار ناول۔ہر کردار متحرک( سوائے میرے) سانسیں لیتا ہوا۔
سلطانہ ،عظیم اپنے ماضی کے کھنڈروں میں کچھ دمکتے کہکشاؤں کے ساتھ اترے اور چمکتی یادوں کو سمیٹ کر چلے گئے۔کچھ سلطانہ ،عظیم ایسے بھی ہیں جن کے پاس نا ماضی کی خوشگوار یا دیں ہیں،نا تابناک حال، تو بھلا مستقبل کیا ہوگا ۔
اب کتاب پڑھنے کی روایت ختم ہوتی جارہی ہے ۔عام لوگ نہیں پڑھتے ہیں اور خاص لوگ خود پرستی کے شکار ہیں ۔میں نے تو اپنے بچوں کو کتاب کی لت لگا دی۔میں تو یہی کہوں گی کتاب پڑھا کریں. عادت ڈالیں پڑھنے کی. اسکے بے شمار فوائد ہیں نقصان ایک بھی نہیں۔
وہ لوگ ضرور” شب ہجراں” پڑھیں جو کبھی اس دھرتی کے باسی تھے( بنگلہ دیش) ارے بھئی یہ تو آپ سب کی کہانی ہے.اپ اپنی چاپ سنیں گے اس کتاب میں اور حیران ہوں گے کہ یہ کیسے۔ وہی جھلملاتے ستارے،وہی چمکتا چاند،اماوس کی راتیں،سمندر کی طرح جھاگ اڑاتی ندی،سنہرے جوٹ کی خوشبو،لہلہاتے دھان کھیت،چاندی کی طرح چمکتی،بل کھاتی،تڑپتی مچھلیاں،بھینی بھینی بھات کی اشتہا انگیز خوشبو۔کتاب بھی پڑھیں ماضی کے جھروکے میں جھانک بھی لیں۔بچپن میں بائسکوپ دیکھا ہے؟ شب ہجراں بائسکوپ ہے۔ہر تصویر کے ساتھ مکمل کہانی بائسکوپ والے کی زبانی( سرور بھائی بائسکوپ والے)
آخر میں ایک سوال جو اس کتاب میں بھی ہے ۔مذہب ،ملت ،زبان کے نام پر لوگوں کو تقسیم کیا جاتا ہے،سرحدیں بنائی جاتی ہیں، الیکٹڑک وائر لگائے جاتے ہیں، صحراؤں کی طرح تپتی کٹھن زندگی دی جاتی ہے۔لاکھوں لوگ مرتے ہیں ،بچھڑتے ہیں ،نسل کی نسل تباہ ہوجاتی ہےاور ایسے لوگوں کو باشعوراور دانش ور کہا جاتا ہے ۔
تالیاں۔۔۔۔۔بجائیں کوئی بات نہیں۔