عِزَّت مآب صدر، منتظمین کرام، مہمانان گرامی ، خواتین و حضرات
السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنے حفظ و امان اور آپ کے وطن عزیز کو تا قیامت قائم و دائم رکھے، آمین–
خواتین و حضرات گرامی!
یہ معروضہ ہم اراکان (رے کھائن) برما (میانمار) کے روہنگیا مسلمانوں کی طرف سے پیش خدمت ہے–
اپنا تعارف
ہم کیا کروائیں؟ بجز اس کے جو آپ سب نے بھی یقیناً پڑھا اور سُنا ہوگا —— اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیمِ حقوق انسانی نے ہمیں
The most persecuted people of the world
کے خطاب سے نوازا ہے —
خِطّہءِ اراکان (جو کبھی آپ کے سابق مشرقی بازو کا پڑوسی تھا) کے باسی، ہم روہنگیا مسلمانوں کا جس طرح ایک طویل عرصے سے برمی بودھ فوجی اور حالیہ آنگ سان سوچی کی نام نہاد جمہوری حکومت کی جانب سے قتل عام اور نسلی صفایا کیا جا رہا ہے؟ وہ بھی دُنیا پر مخفی نہیں رہا، خصوصاً گزشتہ سال ماہ اگست سے پُورے اراکان میں قتل و غارت، خواتین کی بے حرمتی اور مسجدوں، مدرسوں سمیت سیکڑوں بستیوں کو مکینوں سمیت نذر آتش کیا جا رہا ہے ، جس کی خبریں اور تصاویر بھی عالمی ذرائع ابلاغ میں کچھ نہ کچھ آ رہی ہیں —-
اس ظلم کے نتیجے میں دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان سرحد پار کر کے بنگلا دیش میں کس طرح کھلے آسمان تلے شدید بارشوں کے موسم میں بھوک پیاس اور بیماریوں سے لڑ رہے ہیں؟ اس کی خبریں اور تصویریں بھی آپ تک پہنچتی ہونگی؟
خواتین و حضرات ! بے شک یہ ایک اسلامی مسئلہ ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر انسانی مسئلہ، بلکہ المیہ ہے، جو نوع انسانی کو در پیش ہے ——- کیا اسے حل نہیں ہونا چاہیے ؟ دس لاکھ انسان کسی طرح جانیں بچا کر پڑوسی ملک آگئے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ اراکان میں رہ گئے ہیں، کچھ پتا نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں؟ کتنوں کو اب تک ذبح اور نذر آتش کر کے لاشیں سمندر برد کر دی گئی ہونگی یا بے گور کفن پڑی کہیں سڑ رہی ہونگی؟ کتنے لوگ زخموں سے چُور دوا دارو کے بغیر سسک سسک کر موت کا انتظار کر رہے ہونگے؟!
اس لیے کہ اراکان کی حیثیت یوم آزاديِ برما 4 جنوری 1948ء سے ایک ممنوع و محصور علاقے کی ہے، جہاں بیرونی دُنیا سے کوئی انسان اپنے قدم نہیں رکھ سکتا ہے ، ہم نے سُنا ہے کہ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہماری حالت زار زیر بحث آئی تھی اور اس کے کسی رُکن ملک نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ بین الاقوامی مبصرین اور امدادی اداروں کو اراکان تک رسائی دی جائے تاکہ اصل صورت حال کا پتا چلے اور متاثرین کی مدد کی جا سکے — مگر افسوس ہے کہ اس تجویز کو منظور نہیں ہونے دیا گیا اور سختی کے ساتھ اس کی مخالفت کی گئی ، عوامی جمہوریہ چین جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نہایت دیرینہ اور قریبی دوست سمجھا جاتا ہے اس مخالفت اور برمی حکومت کی حمایت میں پیش پیش تھا، مزے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت بھی اس معاملے میں برما اور چین کا پوری طرح ہمنوا رہا—
گویا اس معاملے میں آپ کے دوست اور دُشمن دونوں یکجا اور ہم خیال ہی نہیں ہم آواز بھی ہیں اور ایک دوسرے کے مُعین و مدد گار بھی ۔۔۔۔۔۔لیکن آپ کہاں کھڑے ہیں؟ بھارت تو ظاہر ہے کہ آپ کی نہیں مانے گا، البتہ آپ چین سے دوستی کو بروئے کار لاتے ہوئے اُسے مسئلے کی حقیقت اور سنگینی سے آگاہ کر سکتے ہیں اور قائل بھی کہ یہ کئی ملینز انسانوں کا صرف مستقبل نہیں موت و حیات کا مسئلہ بھی ہے— ظاہر ہے کہ برما نے چین کو جو کچھ یک طرفہ پڑھایا ہوگا کہ یہ ننگے بھوکے لوگ بنگلا دیش سے زیادہ کھانے اور کمانے کے لیے اس کے ملک میں آگھسے ہیں اور اب واپس جانے کے بجائے اُلٹا اس سے لڑ رہےہیں —-چین شاید اسے سچ سمجھ رہا ہے، اُسے کیا ضرورت ہے کہ حقیقت کا کھوج لگائے؟
بہر حال ہم روہنگیا مُسلمانوں کے پاس تو وہ صلاحیت اور قابلیت ہے اور نہ ذرائع اور وسائل کہ ایک حکومت کا مقابلہ کرتے ہوئے دُنیا کو بالخصوص چین جیسی عالمی طاقت کو اپنے موقف سے آگاہ کر سکیں، یوں بھی آج کی دنیا اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے گرد زیادہ گھومتی ہے اور حق کا ساتھ نہیں دیتی خاص طور پر اگر وہ ہماری طرح کمزور اور بے سہارا بھی ہو!
چین کا دوست پاکستان واحد جوہری اسلامی قوت اور اُمّت مُسلمہ کی آنکھ کا تارا یہ کام کر سکتا ہے، نہ صرف ترکی کی طرح ہم مظلوموں کے حق میں تمام بین الاقوامی فورمز پر بھر پور آواز بلند کر سکتا ہے بلکہ چین کو قائل کر کے برما پر بھی دباؤ ڈلوا کر ہم لاکھوں انسانوں کو ہمارے اپنے وطن اراکان میں انسانوں کی طرح زندہ رہنے کا حق دلوا سکتا ہے ،جس قیامت سے ہم گزر رہے ہیں، کس طرح ہماری نسل کُشی کی جا رہی ہے، اس کو یہاں دوھرانا اس لیے بے کار ہے کہ اس سے یہ عریضہ طول تو پکڑ لے گا مگر تفصیلات پھر بھی تمام نہیں ہونگی، ویسے بھی اب تک جو بہت تھوڑا حصہ ہم پر گزرنے والی برمنیت کا عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آیا ہے اصل صورت حال کی وضاحت کے لیے کافی ہے—–
پس، اے برادران و خواہرانِ اسلام و بنی نوعِ انسان!
جس طرح بھی مُمکن ہو ہماری مدد کو پہنچیے، یہ آپ کا اخلاقی اور اسلامی ہی نہیں ، انسانی فریضہ بھی ہے!
خداے ذو الجلالٰ آپ سب کو ہمیشہ اپنے سائے میں شاد، آباد، پائندہ و تابندہ اور منزل مراد کی جانب گامزن رکھے، آمین!
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ —
ہم ہیں آپ کے لاکھوں مظلوم، مجبور، مقہور، بے کس، بے گھر، بےدر، بے وطن روہنگیا مُسلمانانِ اراکان (رے کھائن اسٹیٹ) ( برما) میان مار —
مورخہ : 15 نومبر 2018ء —
45