پروفیسر ظہور الدین نے جہاں علمی وادبی سطح پر ایک الگ مقام بنایا ہے،وہیں انہوں نے انتظامی امور میں بھی ایک منفرد نام کمایا ہے۔آپ جموں یونیورسٹی کے متعدد اہم عہدوں پر قابل قدر خدمات انجام دے چکے ہیں ۔جن میں ڈین فیکلٹی آف آرٹس،رجسٹرار،کنڑولر آف ایگزامنیشنز،صدر شعبۂ اردو،ڈائریکڑاسپورٹس اور چیف ایڈیڑ جموں یونی ورسٹی نیوز بلیٹن کی ذمہ داریاں شامل ہیں ۔ ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں مسلسل شرکت کرتے رہنے کی وجہ سے حکومتِ ہند کے محکمہ اطلاعات و نشریات نے آپ کو ۱۹۷۵ء کا سب سے بہترین کہانی کار تسلیم کرکے اعزاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ آپ کی علمی و ادبی اور انتظامی خدمات کے اعتراف کے طور پر ملک کے متعدد اکادمیوں اور دوسرے تہذیبی و سماجی اداروں نے آپ کو مقتدر قومی اعزازات سے بھی نوازا ہے۔
جموں خطے سے تعلق رکھنے والے اس نقاد نے اپنے ایم، اے کے دوران ہی چند ایسے مضامین شائع کیے جن سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ موصوف کسی خاص علم کی تلاش میں تھے،پھرانہوں نے اپنی تحقیق میں جس مسئلے کو زیر بحث لایاہے وہ بیسویں صدی کا ادب ہے ، دراصل بیسویں صدی کے طلوع ہونے سے پہلے ہندوستان میں سیاسی، سماجی ، معاشی ، اقتصادی اور ادبی تحریکوں کا ابھرنابنیادی طور پر مغربی علوم کیہی دین ہے ۔ان کا پی ایچ ڈی مقالہ بہ عنوان ’’ بیسویں صدی کے اردو ادب پر انگریزی کے ادبی رجحانات‘‘ ہے، جو کہ ۱۹۷۲ء میں مکمل ہوا اور جموں وکشمیر کلچرل اکیڈمی کی مالی معاونت سے ۱۹۷۸ء میں شائع بھی ہوا ہے ۔اس مقالے میں موصوف نے بیسویں صدی کے ابتدا سے ساتویں دھائی تک جو بھی ادبی رجحانات عالمی سطح پر ابھرے اور ان میں جن رجحانات نے خاص کر اردوادب کو متاثرکیا ہے ، ان ہی رجحانات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ جس سے ان کی محققانہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔
زیر بحث کتاب کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا بخوبی احساس ہوتاہے کہ موصوف نے یہ مقالہ تیار کرنے میں خونِ جگر صرف کیا ہے اور ایسے نکات و اصول بیان کیے ہیں جو دورِحاضرکے طلبہ کے وہم وخیال میں نہیں آتے۔ادب کی غایت، اشاریت، مکعبیت،تاثریت جیسے اہم متفرق موضوعات کا تنقیدی جائزہ بھی لیا گیا ہے اور ہر موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ رومانیت کے حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’لفظ ’’رومانٹک‘‘ سب سے پہلے سترھویں صدی عیسوی کے نصف میں اس ادب کے لئے استعمال کیا گیا جو فرضی موضوعات کا حامل تھا۔کچھ وقت کے بعد اس مفہوم میں تبدیلی رونما ہوئی اور اب اسے قدرتی مناظر کے بیان کے لئے استعمال کیا جانے لگا اور ایک سوسال تک یہ لفظ اسی مفہوم کی ترجمانی کے لئے رہا۔رفتہ رفتہ یہ مفہوم بھی بدلا اور بالآخر اسے جذبے اور وجدان سکی تجدید کے لیے مخصوص کیا گیا ۔‘‘
عبدالحق نعیمی ،بحوالہ دریا بہ دریا جوبہ جو (شمس بری پبلیکشنز سرینگر،۲۰۰۰ء) ص ۳۰۴
ظہور الدین نے مذکورہ کتاب میں صرف متقدمین کی باتوں پر اتفاق ہی نہیں کیا بلکہ اس میں بہت سارے اضافے بھی کیے ہیں جو موصوف کی علمی بصیرت اور تقابلی مطالعے کی ایک اہم دلیل ہے ۔ایسا معیاری کام ریسرچ اسکالر پی۔ایچ۔ڈی کے دوران شازونادر ہی کرتے ہیں۔
جہاں تک موصوف کی علمی کاوشوں کا تعلق ہے اب تک ان کی متعدد تنقیدی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں جن میں ’’تفکرات ‘‘ ’’ محروم کی شاعری ‘‘ ’’ حقیقت نگاری اور اردو ڈراما ‘‘ ’’بیسویں صدی کے اردوادب میں انگریزی کے ادبی رجحانات‘‘ ’’ جدید اردوڈراما ‘‘ ’’تعلیل و تاویل ‘‘ ’’ ترجمہ نگاری کا فن ‘‘ کہانی کا ارتقاء‘‘ ’’ جدید ادبی و تنقیدی نظریات ‘‘ اور تنقیدی مباحث وتجزیے‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اس کے علاوہ انہوں نے مختلف سمیناروں اور رسائل وجرائد کے لیے جو متفرق مضامین لکھے ہیں وہ ان پر مستزاد ہے ۔ ان کی تنقیدی تحریروں کا جائزہ لیتے وقت پہلی بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ موصوف شعر و ادب کی ماہیت ،غرض و غایت اور قدیم و جدید ادبی تصورات و نظریات کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور چونکہ عمدہ تنقید کے لیے تنقید نگار کے اندر منفرد نظراور فکراور اظہار و ترسیل کی غیر معمولی صلاحیت کا ہونا بھی ضروری ہے اور ان کی تنقیدی تحریروں میں یہ ساری خوبیاں اپنی ترقی یافتہ صورتوں میں ملتی ہیں اس کا اندازہ ان کی تحریر’’ جدید ادبی و تنقیدی نظریات ‘‘کے درج ذیل اقتباس سے بخوبی لگاسکتے ہیں :
’’ ترقی پسندی سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں ،جن کے ازالے کے لئے کی گئی کوششوں میں سے چند کا اعادہ یہاں بے جانا ہوگا۔کچھ لوگ ترقی پسندی کو محض بھوک اور پیاس سے وابستہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں……….ترقی پسند تحریک نے جس دور میں جنم لیا وہ ہندوستان میں بھوک اور افلاس کا دور تھا اور اگر کوئی شاعر اس سے متاثر ہوکر اپنے پژ مردہ بھائیوں کے حوالے بڑھانا چاہتا ہے تو کسی کو کوئی اعتراض نہ ہونا چاہئیے۔‘‘
ظہور الدین،جدید ادبی و تنقیدی نظریات(اداأہ فکرِ جدید،دریا گنج،نئی دہلی، ۲۰۰۵) ص ۱۱۶۔۱۱۷
زیر بحث تصنیف ’’ جدید ادبی و تنقیدی نظریات ‘‘ موصوف کی برسوں کی محنت کا ثمر ہے جس میں انہوں نے یورپ اور امریکہ کے نئے ادبی رجحانات سے نہ صرف مستند حوالوں کی مدد سے اردو نواز قارئین کو متعارف کرانے کی کوشش کی ہے بلکہ بڑے معروضی انداز میں ان رجحانات کا جائزہ لیتے ہوئے اردو ادب پر ان کے اثرات کی بھی نشاندہی کی ہے ۔اسی حوالے سے آگے چل کر وہ اپنی ایک اور تصنیف ’’کہانی کا ارتقا‘‘میں یوں رقمطراز ہیں :
’’ناول میں کردار نگاری کے بھی وسیع مواقعے ہوتے ہیں۔ فن کار اپنے کرداروں کو ابھرنے اور اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کرنے کا پورا موقع دیتا ہے۔جس ماحول اور جس طبقے سے کوئی کردار چنا جاتا ہے وہ اپنی خصوصیات یعنی اپنا کردار اسی منظر سے حاصل کرتا ہے۔ اگر کوئی کردار ان پڑھ ہے تو فن کار اسے ٹوٹی پھوٹی اور گنواروں کی طرح کی زبان بولتا ہوا دکھاتا ے………. دوسرے الفاظ میں کسی کردار کو رول دیتے وقت اس کی عمر ،تعلیم، ماحول اور طبقے جس سے اس کا تعلق ہے ،اس کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔اس کی شخصیت کو انھیں حد بندیوں میں ابھارنے اور نکھارنے کی کوشش ناول کو کامیاب بنا سکتی ہے ۔‘‘
ظہور الدین، کہانی کا ارتقاء(انٹرنیشنل اردو پبلیکشنز دریا گنج،نئی دہلی۲۰،۱۹۹۹ء)ص ۱۴۲
ان اقتباسات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پروفیسر ظہور الدین ادب، ادیب ، ادبی اصناف اور ادبی نظریات وتصورات سے متعلق اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار سنجیدہ اور ترسیلی اسلوب میں اس طرح کرتے ہیں کہ ان کی تنقید ادبی تنقید ہی رہتی ہے ، فلسفہ اور علمیت کا اظہار نہیں بنتی جیسی کہ آج اکثر وبیشتر ناقدین کے یہاں دیکھنے میں آتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ظہور الدین ضرورت کے مطابق زبان و ادب سے متعلق، قدیم و جدید تصورات و نظریات اصول اور معلومات سے استفادہ تو کرتے ہیں۔لیکن اپنی زبان، ادب اور ثقافت کے مطابق اپنے تنقیدی شعور کا حصہ بنالینے کے بعد اور جو باتیں ہماری اپنی تہذیبیت اور اخلاقیات کے منافی ہوتی ہیں انہیں وہ بڑی حوصلہ مندی کے ساتھ رد بھی کرتے ہیں اور ان کی تنقید نگاری کے حوالے سے یہ ایک بے حد اہم بات ہے جس سے ان کی تخلیقی قوت ظاہر ہوتی ہے، ورنہ عام طور پر تنقید کے نام پر جو درسی اور تقلیدی نوعیت کی تحریریں سامنے آرہی ہیں ان سے نہ تو ادب کا بھلا ہور ہاہے نہ ہی ادیب اور قاری کا۔ جبکہ پروفیسر ظہور الدین کی تنقیدی تحریریں ادب ، ادیب اور قاری کی تشکیل جدید کے وسیع اور کثیر الجہات امکانات رکھتی ہیں۔پروفیسر ظہور الدین نے اپنی کتاب ’’ تنقیدی مباحث و تجزئے ‘‘میں شامل مضامین میں بے پنا علمیت پر مبنی صرف اور محض اپنی تنقیدی بصیرتوں کا مظاہرہ ہی نہیں کیا ہے بلکہ مستند شخصیات ، نظریات اور اصولوں کے ردِ تشکیل یا تشکیل جدید کے حوالے سے تیکھے اور نوکیلے مباحث کے دشت امکاں میں کھلے سر اور ننگے پاوں داخل ہونے کی کوشش بھی کی ہے ۔زیر بحث کتاب میں شامل ۱۲ مضامین ،صرف مضامین نہیں عرفان و آگہی کے ۱۲ طبقات ہیں جن میں افلاطون اور ارسطو کے نظریات شعر سے لے کر عصری نظریاتی مباحث مثلاً ہئیت پسندی متنیت ،ساختیات،تانیثیت، نوتاریخیت اور نو مارکسنت وغیرہ سے متعلق پروفیسر ظہور الدین کے اپنے خیالات کہیں شعوری کہیں لاشعوری طور پر کبھی وضاحتًاتو کہیں اشارتاًسامنے آئے ہیں ۔ان کی ہر رائے نہ صرف پختہ ہے بلکہ اکثر تلوار کی دھار کی صفت بھی رکھتی ہے ۔ان مضامین میں موجود ظہور الدین صاحب کے حسب ذیل چند فیصلہ کن دانشورانہ فقروں پر غور کیجئے:
’’محسوسات کے فنی اظہار کے لئے آفاقی اصول وضوابط ترتیب دینا قطعاً گمراہ کن ہے۔وہ لوگ جو ان ضوابط کو اپنے اوپر مسلط کررہے ہیں وہ صرف اپنی قوم کو نہایت گمراہ کن نتائج کی طرف بھی دھکیلتے رہتے ہیں ‘‘
ظہورالدین،تنقیدی مباحث و تجزیے(نریندر ناتھ سوزؔ ،۹۲۲،کوچہ روہیلا ،دریا گنج،نئی دہلی،۲۰۰۷)ص۱۰
’’ماضی ایک تنگ و تاریک کوٹھری کی طرح ہے اس میں جو بھی گھستا ہے وہ باہر نکلنے کے سارے راستے بھول جاتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ اس کوٹھری کی دیواروں میں ایسے دروازے یا جھروکے رکھے جائیں جن سے تھوڑی تھوڑی روشنی اندر آتی رہے تاکہ اندر گھسنے والے کو واپسی کا راستہ یاد رہے۔‘‘
ظہورالدین،تنقیدی مباحث و تجزیے(نریندر ناتھ سوزؔ ،۹۲۲،کوچہ روہیلا ،دریا گنج، نئی دہلی،۲۰۰۷)ص۱۴۲
مذکورہ بالا اقتباسات موصوف کے متوازن اور بصیرت مندانہ تنقیدی افکار کا ثبوت تو ہیں ہی لیکن ان کے افکار کے اندر سے ان کے وسیع مطالعہ اور جموں و کشمیر کے علمی ثقافتی اور اخلاقی ورثے کی جو سرگوشیاں نمایاں ہورہی ہیں وہ معاصر تنقید میں ان کا انفراد و امتیاز قائم کرنے میں معاون ثابت ہوئی ہیں ۔اس کے علاوہ اس کتاب میں پروفیسرظہور الدین نے مختلف ادبی و لسانی تصورات،نظریات اور اصطلاحات سے متعلق،اردو میں جاری بحث و مباحثہ کے حوالے سے اپنے طور پر جو نتائج اخذ کئے ہیں ان سے اندازہوتا ہے کہ موصوف ایک سنجیدہ اور ستھرا تجزیاتی شعور رکھنے والے بالغ نظر نقاد ہیں جو کسی بھی ادبی موضوع اور مسلۂ سے متعلق اپنی ایک رائے قائم کر سکتے ہیں۔ مابعد جدیدیت کے حوالے سے ان کا درج ذیل اقتباس ملا خط ہو:
’’مابعد جدید نظریہ جس فکر کو اپنی اساس قدردیتا ہے اسے تشکیل دینے میں کئی نظریات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ان میں ساختیات،پس ساختیات،تانیثیت،نو تاریخیت اور ردتشکیل جیسے نظریات شامل ہیں…….مابعد جدیدیت نے اپنے سے پہلے کے سبھی نظریات ورجحانات سے استفادہ کرکے اپنا منفرد ناک و نقشہ تیار کرنے کی کوشش کی ،خصوصاًاس نے ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں سے استفادہ کرنے کی کوشش کی اور وہ کام نہیں کیا جو ترقی پسندی یا جدیدیت نے اپنے سے پہلے کے نظرئے سے انحراف کرکے کیا تھا۔ اس لئے ہم مابعد جدیدیت کو جدیدیت کے خلاف رد عمل کا نام نہیں دیتے بلکہ اس کی توسیع قرار دیتے ہیں ۔‘‘
ظہورالدین،تنقیدی مباحث و تجزیے(نریندر ناتھ سوزؔ ،۹۲۲،کوچہ روہیلا ،دریا گنج، نئی دہلی،۲۰۰۷)ص۱۶۲
اتنی بات سبھی جانتے ہیں کہ نظریاتی مباحث میں الجھنا اور الجھانا عصری تنقیدی کا خاصہ ہے ۔اب اگر ایسے مباحث سے متعلق پروفیسر ظہورالدین کے تنقیدی رویہ پر غور کریں تو ایک اہم بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ معاملہ نظریہ سازی کا ہو یا نظریہ شکنی کا،موصوف اپنی بات رکھتے ہوئے بے جا خوش فہمی اور تفاخر کا مظاہرہ نہیں کرتے۔اسی طرح ہم عصرناقدین سے اختلافات تو کرتے ہیں کہ اختلاف اور افتراق سے ہی ادب پنپتا ہے،لیکن اس ضمن میں وہ بعض چوٹی کے ناقدین مثلاًشمس الرحمن فاروقی،وارث علوی وغیرہ کی طرح کا لہجہ اختیار کرتے ہیں اور نہ کسی کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ پروفیسر ظہورالدین کی تنقید کی اپنی ایک اہمیت ہے جس کے مخصوص شائستہ ڈانڈے کہیں احتشام حسین تو کہیں وزیر آغا سے اور کہیں محمد حسین سے ملتے ہیں ۔حالانکہ نظریاتی اعتبار سے موصوف ان سب سے الگ اپنی ایک منفرد فکری جہت اور تنقیدی رویہ رکھتے ہیں۔ جس کا مقصد خالص اور اعلیٰ ادب کی تشکیل اور ادب کے حوالے سے کائنات کی تکمیل ہے۔موصوف واضح لفظوں میں یوں کہتے ہیں:
’’ہر فن کار اس کائنات کو مکمل کرنے کی راہ میں قدرت کی معاونت کرتا ہے…….اس لئے ہر دور کی بوطیقاچاہے وہ اپنے سے پہلے دور کی بوطیقاکی تائید یا اس پر اضافے کی شکل میں سامنے آئے یا تردیدوتنیخ کے مراحل سے گزر کر ابھرے اس سفر کو آگے ہی بڑھاتی ہے ۔‘‘
ظہورالدین،تنقیدی مباحث و تجزیے(نریندر ناتھ سوزؔ ،۹۲۲،کوچہ روہیلا ،دریا گنج، نئی دہلی،۲۰۰۷)ص نمبر۲۱
اس کے علاوہ پروفیسر ظہورالدین صاحب کی ایک اور بلند پایہ انگریزی تصنیف ’’DEVELOPMENT OF URDU LANGUAGE AND LITERATURE IN JAMMU REGION‘‘ ریاست میں اردو زبان و ادب کے ارتقا کے حوالے سے ایک انتہائی اہم اور بنیادی کام ہے۔ جس سے استفادہ کئے بغیر نہ صرف جموں بلکہ کشمیر کے آر پار بھی اردو کی لسانی ، سماجی اور ثقافتی جڑوں کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔اس کے ساتھ ساتھ موصوف کی ’’ جدید اردو ڈراما ‘‘ مواد اور موضوع کے اعتبار سے صنف ڈراما پر لکھی گئی ان تمام کتابوں سے بالکل الگ مقام رکھتی ہے، جسکی وجہ سے یہ اردو ڈراما کی تنقید میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتی ہے اور اپنی خصوصیات کی بنیاد پر ایک منفرد مقام بھی رکھتی ہے۔یہ کتاب ان کی ان کاوشوں کا ثمر ہے، جو انہوں نے یورپ کے جدید ادب کے مطالعے سے حاصل کیا ہے۔یہاں تک کہ بیسویں صدی کے آغاز سے جو ادبی تحریکات رونما ہوئیں، ان کا تنقیدی جائزہ انہوں نے اس سے پہلے لیا ہے ۔جس سے ان کے ذہن میں وسعت پیدا ہوگئی۔ان ہی تحریکوں میں ایک تحریک جرمنی میں صنف ڈرامامیں ابھری اور ایک تحریک فرانس میں اسی صنف میں ابھری،جنھوں نے ایپک تھیڑ اور ابیسرڈتھیڑAbsurd Theater کو جنم دیا۔
یورپی ادب کا مطالعہ پروفیسر ظہورالدین کا مشرب رہا ہے۔انہوں نے انگریزی کی وساطت سے جرمنی اور فرانسی ادب کے ڈراموں کا مطالعہ کیا اور ان کی تاریخ و تکنیک پر بھی بغور نظر ڈالی ہے ۔چنانچہ اردوادب بھی باقی دیگر ادبیات کی طرح عالمی سطح پر رونما ہونے والے ادبی رجحانات کا اثر جلد از جلد لیتا ہے جس کی وجہ سے ۱۹۵۰ء کے بعد ہی سے یہاں کے ادیبوں نے یورپی طرز کے ڈرامے لکھنے شروع کیء۔اس طرح ہمیں یہاں بھی ایپک اور لایعنی ڈراما نگاروں کی ایک کھیپ نظر آنے لگی اور کافی مقبولیت بھی حاصل کی۔اسی مواد کو یکجا کرکے پروفیسر ظہور الدین نے یورپ کے ان ڈراموں کا موازنہ اردو کے (اس طرز کے ڈراموں ) کے ساتھ کیا ہے۔زیر بحث کتاب میں انہوں نے ایپک تھیڑ اور لایعنی ڈراما جیسے موضوعات کا مدلل اور مفصل جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے :
’’ ہمیں معلوم ہے کہ لایعنی ڈراما زندگی کی نا معقولیت و بے معنویت کو اجا گر کر نے کی کوشش کرتا ہے ۔لیکن یہ کام اس وقت تک سرانجام نہیں دیا جاسکتا کہ جب تک ان تمام تصنیفات کا بھرم نہ توڑ دیا جائے کہ جو انسان زندگی کو معنویت عطا کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً کھڑتارہتا ہے، ان تصنیفات کا تعلق مذہب سے بھی ہوسکتا ہے اور اخلاق، فلسفہ ، روایت، قانون اور تاریخ سے بھی یعنی ان کا تعلق ان تمام تصنیفات سے ہو سکتا ہے اسے اپنے ماضی سے بطور ورثہ ملے ہیں ۔‘‘
ظہورالدین،جدید اردوڈراما(ادارہ فکرِ جدید،دریا گنج نئی دہلی، ۱۹۸۷ء)ص۳۳۰
غرض پروفیسر ظہور الدین اردو دنیا میں ایک ایسا نام ہے جس سے اردو زبان و ادب کا ہر طالب علم بخوبی واقف ہے۔ان کا شمار نہ صرف ریاست کے صفِ اول کے نقادوں میں ہوتا ہے، بلکہ وہ ایک معتبر شاعر،افسانہ نگار ،ڈرامانویس اور محقق بھی ہیں۔