21

پاکستان کتنا دور، کتنا پاس

اگر کسی کو یہ جاننا ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں اردو کی تعلیم و تدریس اور ادبی سرگرمیوں کی نوعیت کیسی ہے یا وہاں کون کون سے لوگ اور تنظیمیں اردو کے فروغ میں حصہ لے رہی ہیں تو اس کے لئے ایک ہی نام سامنے آتا ہے اور وہ ہے پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرام الدین کا۔ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اردو کی بستیوں کو منظر عام پر لانے اور انہیں متعارف کرانے کا جو عظیم کام انہوں نے شروع کیا ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ واقعی محب اردو ہیں جنہیں اس زبان سے عشق ہے۔ انہوں نے اردو کو نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے میں اہم کرادر ادا کیا ہے اور اس میں آنے والی مشکلات کو اس طرح سے دور کیا ہے کہ اب اردو بھی دوسری زبانوں کی طرح کمپیوٹر کے جدید تقاضوں پر پورا اتر رہی ہے۔ ان ایک اور کارنامہ دنیا بھر سے اردو زبان سیکھنے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے آن لائن تدریس ہے۔ اردو زبان سیکھنے کی خواہش رکھنے والے گھر بیٹھے اردو سیکھ سکتے ہیں خصوصاََ برصغیر سے تعلق رکھنے والے جو اردو بولتے ہیں لیکن اب وہ دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں اور اپنے بچوں کو اردو زبان سکھانا چاہتے ہیں، وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین اس وقت جواہر لال نہرو یونیوسٹی دہلی کے شعبہ اردو میں تعلیم و تدریس کے فرائض سرانجام دیے رہے ہیں۔ وہ ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے چئیر مین ہیں جس کے تحت دنیا بھر میں اردو زبان کے لئے ہونے والے ادبی کاموں اور اہل قلم کے مابین رابطے کا بھی ذریعہ ہیں۔ مہجری ادب کی جانب انہی کی توجہ مبذول ہوئی اور اس حوالے سے وہ بہت عظیم کام کررہے ہیں۔ خواجہ سے متعارف ہوئے تو کئی سال ہوچکے ہیں لیکن ان سے بالمشافہ ملاقات کی سعادت دو سال قبل برلن جرمنی میں ہوئی جب وہاں مقیم معروف افسانہ نگار، شاعر اور کالم نگار جناب سرور غزالی نے ہمیں اپنی ادبی تنظیم بزم ادب برلن کے زیراہتمام ہونے والے پرگرام میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ یہ ایک یاد گار موقع تھا جس میں تفصیلی ملاقاتیں بھی ہوئیں اور ہم نے مختلف ادبی تقریبات میں اکٹھے شرکت بھی کی۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں شعبہ عربی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رضوان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ فرینکفرٹ میں مقیم اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی جناب سید اقبال حیدر، انجمن اردو برلن کے صدر اور معروف ادیب، شاعر اور دانشور جناب عارف نقوی، سویڈن سے معروف شاعر جناب جمیل احسن اور ہمارے میزبان بزم ادب برلن کے جنرل سیکریٹری جناب سرور غزالی کی موجودگی نے ان ملاقاتوں کو ہمیشہ کے لئے یاد گار بنا دیا۔
پروفیسر خواجہ اکرام الدین بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں اور حال ہی میں ان کی ایک نئی کتاب ”مشاہدات“ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس میں ان کے مختلف ممالک کے سفرنامے شامل ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں پاکستان، ترکی، جاپان، امریکہ، ایران، فن لینڈ، جرمنی، سوئٹزرلیند، ڈنمارک، اسپین، برطانیہ، ماریشیس، فرانس، افغانستان، متحدہ عرب امارات اور ازبکستان میں اپنے دوروں کا احوال بہت خوبصورتی اور دلچسپی سے بیان کیا ہے۔ ان تمام ممالک میں ان کے سفر کا مقصد اردو ادب کی سرگرمیوں میں حصہ لینا تھا ۔ اس وجہ سے ان کی یہ کتاب نہ صرف دلچسپ سفرناموں پر مشتمل ہے بلکہ وہاں کی ادبی سرگرمیوں خصوصاََ اردو کی صورت حال سے بھی آگاہی کا سبب ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ پروفیسر خواجہ اکرام الدین کی شخصیت کا عالمی سطح پر اعتراف اور ان کی مقبولیت کا درخشاں ثبوت ہے۔ انہیں جو شخص بھی ملتا ہے، ان کے اعلیٰ اخلاق کی بدولت ان کا مداح ہوجاتا ہے۔ مشاہدے کی صلاحیت، حالات پر گہری نظر اور اپنے سفر سے نتائج اخذ کرنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ ان کا انداز تحریر بہت دلچسپ اور شگفتہ ہے کہ قاری پڑھے چلا جاتا ہے۔اردو میں لاتعداد سفر نامے لکھے گئے او مستقبل میں لکھے جائیں گے لیکن خواجہ اکرام الدین کی کتاب،مشاہدات انفرادیت لئے ہوئے ہیں اور اس کی یہ خوبی برقرار رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے محض سفر نامہ نہیں لکھا بلکہ اس میں میزبان ملک کے سماج، ادب، مسائل اور حالات کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ قابل عمل تجاویز بھی دی ہیں۔
”پاکستان کتنا دور کتنا پاس“ کے عنوان سے انہوں نے اپنی کتاب مشاہدات میں اپنے فیصل آباد، لاہور اور پشاور کے یاد گار دوروں کا تذکرہ بہت دلچسپی اور خوبصورتی سے کیا ہے۔ انہیں ہمیں بغور پڑھنا چاہیے تاکہ ہمیں یہ علم ہوسکے کہ ہماری اپنی زبان سے تعلق رکھنے والے ہمسایہ ملک سے جب پاکستان آتے ہیں تو انہیں پاکستان کیسا لگتا ہے اور وہ کیا سوچتے ہیں۔ موجود ہ دور میں تو دونوں ممالک میں رابطے ختم ہیں اور آنا جانا ممکن نہیں لیکن جب یہ سہولت تھی، تب بھی آسان نہ تھا۔ پاکستان آنے کے لئے ویزا اور دیگر مشکلات کا تذکرہ انہوں نے بہت حقیقت پسندی سے کیا ہے اور ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ایسی رکاوٹوں سے عام شہری ہی پریشان ہوتے ہیں اور جنہوں نے در اندازی کرنا ہوتی ہے ان کے لئے دوسرے راستے ہیں۔ انہوں نے دونوں حکومتوں کو بہت اچھا مشورہ دیا کہ ایک دوسرے کے شہریوں کے ساتھ ہتک آمیز رویہ نہیں اپنا نا چاہیے اور اور رابطے آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کی تجویز سے مکمل اتفاق ہے مگر موجودہ حالات میں تو رابطے بھی ممکن نہیں۔ انہوں نے اپنے دورہ پاکستان میں فیصل آباد، لاہور اور پشاور کی ادبی سرگرمیوں اور اپنے وفد کی شاندار پذیرائی اور مہمان نوازی کا خوب ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لاہور کی تاریخی عمارتوں کے سیاحت کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے لیکن ساتھ ہی ان عمارتوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو توجہ دینے کی اپیل کی ہے۔ ان کا یہ مشاہدہ بالکل درست ہے اور بحیثیت مجموعی پاکستان میں تاریخی ورثے کی دیکھ بھال کی طرف وہ توجہ نہیں دی جاتی جس کی ضرورت ہے۔ بہرحال پروفیسر خواجہ اکرام الدین کی نئی کتاب دنیا بھر میں محبان اردو کے درمیان نہ صرف رابطے کا باعث ہوگی بلکہ اردو ادب میں ایک منفرد اور خوبصورت اضافہ ہوگی جس کا ہر شخص کو مطالعہ کرنا چاہیے۔
٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں