بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی، سویڈن کا دورہ کر رہے تھے اور 15 اپریل 2018 سویڈن کے دارلحکومت اسٹاک ہوم کے مرکز میں کشمیری عوام سے یکجہتی کا مظاہرہ اور مودی کی آمد پر احتجاج رکارڈ کرایا گیا۔ ٹھیک 7 دن بعد 22 اپریل 2018 کو یہی چہرے بھارتی گانوں اور دھنوں پر رقص کرتے نظر آئے۔ کیا یہ منافقت نہیں ؟
اس تحریر کو لکھنے کی جُرت اس لیے کر رہا ہوں کہ گزشتہ برس جس بات کو نظر انداز کیا تھا وہ آج پھر پورے اہتمام کے ساتھ دہرائی گئی۔ ثقافتی نظیموں کے سایہ میں ہم اپنے بچوں کی کیا تربیت کر رہے ہیں۔
یوم پاکستان پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے۔ 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا گانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ وہ مطالبہ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ یہ ہے اس دن کو منانے کا اصل پس منظراور جب اسی دن یعنی یوم پاکستان کو اسٹاک ہوم میں منایا جاتا ہے تو قائد ملت اور شاعر مشرق کی شبیہ انتہائی غیر مناسب جگہ پر رکھ کر اس کے سامنے ایسے نغموں پر رقص کیا جاتا ہے جو کسی بھی زاویے سے مناسب نہیں۔
یوں تو اس تقریب میں ان نوجوانوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے تمام گانوں پر بات کی جا سکتی ہے لیکن یہاں اصلاح کرنا مقصود ہے تو میں ایک گانے پر بات کروں گا۔ جس مشہور ہندوستانی گانوں پر کچھ نوجوانوں نے بہت ہی بہترین انداز میں رقص کیا وہ ہندوستان پر حکومت کرنے والے آٹھویں صدی ہجری کے مسلم حکمران علاؤ الدین خلجی کے راجستھان کے قلعہ چتوڑ پر حملے سے متعلق ایک فلم میں فلمایا گیا تھا، جس میں کہانی نویس نے علاؤ الدین خلجی کو ایک وحشی اور ظالم حکم ران کے طور پر دکھایا ہے جو کہ چتوڑ پر حملہ وہاں کے راجہ رتن سین کی دوسری رانی پدماوتی کی خوب صورتی کا سن کر اس کو پانے کے لیے کرتا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ جناب امیر خسرو جو کہ علاؤ الدین خلجی کے ساتھ اس لشکر میں شامل تھے جو کہ چتوڑ کا قلعہ فتح کرنے گیا تھا اور جنھوں نے چتوڑ پر حملے کی پوری داستان کو اپنی تصنیف خزائن الفتوح میں بیان کیا ہے، وہ چتوڑ پر حملے کی ایسی کوئی وجہ نہیں لکھتے۔ علاؤ الدین خلجی کا چتوڑ پر حملہ صرف اور صرف میواڑ کو دہلی سلطنت کا باج گزار بنانے کے لیے تھا۔ اس کے پیچھے کسی رانی کو پانے کا کوئی خواب یا مقصد کسی ہم عصر مورخ نے کبھی بیان نہیں کیا۔
ایک بات یہاں واضح کرنا بے حد ضروری ہے کہ فن اور موسیقی کی کوئی زبان، سرحد اور ملک نہیں ہوتا۔ ضرور سنیئے بھارتی گانے مگر ایک گزارش ہے کہ موقع مناسبت کا خیال رکھیں۔ ہر ذی شعور انسان اس بات سے متفق ہوگا کہ خطے میں خوشحالی دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہونے میں ہی ہے ۔
لیکن اس مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنے قومی دن کے موقع پر ملی نغموں کے بجائے بھارتی فلموں کے گانے پر رقص کریں اور انتظامیہ سمیت سرکاری یا غیر سرکاری حکام یوم پاکستان کی تقریب میں بھارتی گانوں سے خوب محظوظ ہوں۔
اس تحریر کا مقصد تنقید ہرگز نہیں ہے، بلکہ نادانستہ طو رپر اگر یہ کام ہوا ہے یا ہورہا ہے تو اس کی اصلاح کرنا ہے۔کیونکہ یک طرفہ تعلق چاہے دوستی کا ہو یامحبت کا ،کمزور ہی ہوتا ہے۔ یہ دوستی کا رشتہ جب مضبوط ہوسکتا ہے جب آپ کے فنکاروں کو بھارت کے قومی دنوں میں بھی ایسا موقع دیا جائے ۔
تحریر کےآخر میں جوش ملیح آبادی صاحب کا ایک واقعہ سوچا آپ کی نظرکرتا چلوں۔
حضرت جوش ملیح آبادی ایک مشاعرے میں شریک تھے ۔ مشاعرے کی ابتداء میں ہی ایک نوجوان شاعر نے مائیک پر قبضہ کر لیا اور اپنا غیر موزوں کلام جو خاصا طویل بھی تھا ، سُنانا شروع کردیا ۔اکثر شعراء آدابِ محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے لیکن جوش صاحب پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر باآواز بلند بے پناہ داد سے نواز رہے تھے۔گوپی ناتھ امن نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: قبلہ، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟
جوش صاحب نے اِس سوال کا نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ صرف ایک لفظ میں جواب دیا ’’ مُنافقت”‘‘