29

نخلستان: ماہِ صیام کا سایہ

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ۔
(سورۃ البقرۃ آیت ۳۸۱)
رمضان اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے اور روزہ رکھنا اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے۔ عربی لفظ صوم کا مطلب پرہیز کرنا ہے۔ اس مہینے میں اللہ نے روزہ رکھنا لازمی قرار دیا ہے اور راتوں کو تراویح کی نمازوں کو سنتوں میں شامل کیا گیاہے۔ روزہ رکھنے کا مطلب طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک کھانے، پینے، سگریٹ پینے اور ازدواجی مسرتوں سے پرہیز کرنا ہے۔
رسولِ پرنورؐ نے فرمایا: ’جنت کے ایک دروازے کا نام الریان ہے اور جو لوگ روزہ رکھتے ہیں قیامت کے دن اس کے ذریعے جنت میں داخل ہونگے اور ان کے علاوہ کوئی اور اس کے ذریعے جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری)
رمضان کے مہینے میں رسولِ خدا ؐدوسرے مہینوں کے مقابلے زیادہ عبادتوں میں مشعول رہتے تھے۔ آپؐ اپنے دن خدا کو یاد کرتے ہوئے، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے، علم حاصل کرتے ہوئے اور دوسروں کی تائید و نصرت کرتے ہوئے ان کی تربیت میں مصروف رہتے۔ آپؐ عجز و نیاز سے راتوں کو خدا سے مدد، سہارے،فتح اور رہنمائی کے طلبگار رہتے۔
رسولؐ نے فرمایا: ’اگر کوئی رمضان کے مہینے میں اعمالِ صالحہ سے اللہ کے قریب ہوگیا اس کا ثواب دوسرے مہینوں میں فرض ادا کرنے کے برابرکا ہوگا اور جس نے اس مہینے میں ایک فرض ادا کیا اس کا ثواب اسے دوسرے مہینوں کے مقابلے ستر لازمی فرائض انجام دینے کا ملے گا۔‘ (صحیح ترمذی)
اس حدیثِ مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ روزہ رکھنے کی بڑی فضیلتیں ہیں۔ جب اللہ اپنی مرضی کے مطابق کسی عمل کا اجر دیتا ہے تو اس کی جزا لا محدود ہے۔
رسولؐ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ’۔ روزے کے علاوہ ابن آدم کے سب اعمال اس کے لئے ہیں، روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کا اجر و ثواب دیتا ہوں۔‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
رمضان ہر سال ہمیں اللہ کی عبادت کی تربیت دیتا ہے۔ ہمارے مرجھائے ہوئے دل اور دنیوی زندگی میں مُغرق ذہن کو تازگی بخشتا ہے۔ رمضان کا مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خدا نے ہمیں اس کی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ روزے سے نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے اور ہمیں خود غرضی، لالچ، کاہلی، اور دیگر نقائص کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ صبر و تحمل کا مہینہ ہے جس میں ہم خالی پیٹ رہنے کا تجربہ کرتے ہیں۔ اس سے غربت کے ستائے اور بھوکے لوگوں کے لئے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ روزہ ہمیں آرام و آسائش کی چاہت پر روک تھام لگانے کا درس دیتا ہے۔ روزے کے دوران جن مشکلات سے ہم گذرتے ہیں، ان کو خوشی خوشی برداشت کرنا ہے اور شکایت بھی نہیں کرنی ہے۔ تراویح کے بعد اگر تھکان محسوس ہو اس کو بھی برداشت کرنا ہے۔
روزہ کسی کو سزا دینے یا کسی پربوجھ ڈالنے کے لئے نہیں ہے۔ اس کا مصرف اعتدال سکھانا ہے اور انسان میں روحانی نظم و ضبط پیدا کرنا ہے تاکہ انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں بے لگام گھوڑے کی طرح راستے سے بہک نہ جائے اور اپنے مالک کی نافرمانی کرنے لگے۔ اللہ کا سچا خادم ہونے کے لئے، انسان کا فرض ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق اپنے اخلاق اور روحانی تربیت کی ترجمانی کرے۔ روزہ اس کے اخلاقی اور روحانی تابعداری کے لئے ناگزیر ہے۔
رسولؐنے فرمایا، ”جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے، رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور شیطان کو زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے۔‘ (صحیح مسلم)
رسولؐ نے ارشاد کیا: ’روزہ ایک ڈھال ہے جو برے اعمال اور جہنم کی آگ سے نجات دلاتا ہے۔ روزے کے دوران بیوی کے ساتھ جنسی تعلقات اور جھگڑا کرنے سے پرہیز کرنا ہے۔ اور اگر کوئی جھگڑا کرنا چاہے یا تو تو میں میں کرے، اسے کہنا چاہئے ’میں روزے سے ہوں۔‘ روزے دار کے لئے دو مسرتیں ہیں: ’ایک جب وہ افطاری کرتا ہے اور دوسرا جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا پھر اسے اپنے روزے رکھنے کی خوشی ہوگی۔‘ (صحیح بخاری)
اس مہینے میں باغی شیاطین کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے تاکہ اس مہینے میں انہیں فساد پھیلانے سے روکا جائے۔ گیارہ مہینوں تک انسان شیطان کے مکر و فریب کی اطاعت کرتا رہا جو انہیں غلط کاموں کی طرف راغب کرتا رہا۔ اس طرح برے کام میں مبتلا رہنا انسان کی فطرت میں شامل ہوتا رہا۔ اب اس بابرکت مہینے میں اس کا سایہ ضرور محسوس ہوتا ہوگا۔ لیکن رمضان ہماری روح کی تاریکی کو دورکرنے کے لئے آتا ہے اور اس مبارک مہینے میں ہم جن جذبات اور اسباق سے ہمکنار ہوتے ہیں وہ پورے سال ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔
مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ متقی بن جائیں اور خداکی موجودگی کا احساس سدا ان کے ساتھ ہو اور اپنے رب کے ساتھ ان کا رشتہ مضبوط تر ہوجائے۔ رمضان کا اصل مقصد اور امتحان یہی ہے کہ اس متبرک مہینے میں ہم نے جو سیکھا وہ ہمارے ساتھ رہے۔
رسولؐ نے ارشاد کیا کہ: ’وہ بندہ جو ایک دن کے لئے اللہ کے راستے میں روزہ رکھتا ہے، اس دن کی وجہ سے خدا اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے دور کردے گا اور یہ فاصلے ستر سالوں کے فاصلے کے مدِ مقابل ہوگا۔ (صحیح مسلم)
روزہ رکھنا پرہیزگاروں اور خدا سے ڈرنے والوں کا راستہ ہے۔ روزہ خوراک اور خون کی نالیوں کو تنگ کر دیتا ہے۔ انہیں شیطان کی نالی بھی کہتے ہیں، چنانچہ روزہ وسوسوں کو بھی کم کردیتا ہے۔ مزید روزہ نفسانی خواہشات، منفی خیالات اورنافرمانی کی تمنا کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔
روزہ سے صحت بحال رہتی ہے۔ یہ جسم سے غلاظت کو دور کرتا ہے، پیٹ کو راحت پہنچاتا ہے، خون کو صاف کرتا ہے، دل کی دھڑکنوں کو آرام پہنچاتا ہے، روح کو روشن کرتا ہے اور اسے عرفان کی نئی منزل عطا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کردار میں نظم و ضبط بھی پیدا ہوتا ہے۔ جب ایک شخص روزہ رکھتا ہے، اس کی روح میں عاجزی و انکساری پیدا ہوتی ہے اور اس کی نفسانی خواہشات دور ہوتی ہیں۔ روزہ کی بڑی فضیلتیں ہیں کیونکہ اس کے ذریعے ایک مسلمان اللہ کی فرمانبرداری کر تاہے اور اس کے حکم کی تعمیل کر تاہے۔
رمضان کا روزہ صرف جسمانی نہیں۔ عابد کو اشیائے خوردونوش سے پرہیز کرنے کے ساتھ ساتھ پورے جسم وجان سے روزے کی اطاعت کرنی ہے۔ یہ نفس کا بھی روزہ ہے جہاں انسان تمام نفسانی خواہشات سے مبرہ ہوتا ہے۔ یہ دماغ کا روزہ ہے اور بندہ غلط سوچ سے دور رہتا ہے۔ اس کی توجہ کا مرکز صرف اللہ اور اپنے رب کی خوشی پانے میں ہوتی ہے۔ یہ ہاتھوں کا بھی روزہ ہے۔ جو چیز ہماری نہیں،ہم اس کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ روزہ چوری جیسی بری بلا سے دور رہنے کی تربیت دیتا ہے۔ یہ ناک کا بھی روزہ ہے جہاں غیر قانونی اشیاء کو سونگھنے کی پابندی ہے۔ یہ پیروں کا روزہ ہے کیونکہ ہمارے قدم ایسی ناپاک جگہوں کی طرف نہیں جاتے جہاں گناہ کی دلدل ہمارے جسم و روح کو آلودہ کرے۔ آنکھوں کا بھی روزہ ہے تاکہ حرام چیزوں کی طرف نظریں نہ جائیں۔ سورۃ النور کی آیات ۰۳تا ۱۳ میں رب العالمین فرماتا ہے:
ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لئے بہت پاکیزہ ہے، بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔
اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں۔
شرمناک اور فحشات چیزوں سے روبرو ہوتے ہوئے روزہ دار اپنی نظریں جھکا لیتا ہے۔ زبان کے روزے سے مراد جھوٹ بولنے، چغلی کرنے، کسی کی عزت مٹی میں ملانے، کسی کے بارے میں برا کہنے، دوسروں سے بد سلوکی کرنے، ان کو بدعا دینے، غیر مہذب گفتگو میں شامل ہونے، گالی دینے یا جھوٹی گواہی دینے کی طرف اشارہ ہے۔ روزہ ان تمام برائیوں سے ایک مسلمان کو دور رکھتا ہے۔ رسولِ خدا ؐنے تائید کی کہ ’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہتے ہیں۔‘
رسولِ پرنورؐ کا ارشاد ہے:’جو جھوٹی بات اور غلط اعمال کو ترک نہیں کرتا، اللہ کوا س کے کھانے اور پینے کے ترک کرنے کی ضرورت نہیں۔ (یعنی خدا اس کے روزے کو قبول نہیں کرتا) (صحیح بخاری)
کانوں کے روزے سے مراد سطحی گفتگو کی طرف دھیان نہ دینا ہے، بے کار باتیں، گانے کے بول اور ناشائستہ اور فحش کلمات کی ممانعت ہے۔ رمضان کے مہینے میں قرآن کی آیات کو سننے سے ایمان کی برکت، رہنمائی کا زیور اور رحمت کے پھل ملتے ہیں۔ اس سے دل میں حکمت، قربت، صبر و شکر اور قناعت کے جذبات بیدار ہوتے ہیں۔ یہ خطرناک، گمراہ کن اور غلاظت آمیز تفکرات سے تحفظ کا راستہ ہے۔
دل کے روزے کا مطلب دل کا دنیا اور دنیاوی چیزوں سے اجتناب کرنا ہے تاکہ غلط ارادے، غلط ایقان، شیطانی تجاویز اور غیر اخلاقی افکار کو دل سے خارج کیا جاسکے۔
رسولؐ نے فرمایا:’بدن میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست ہوگا تو سارا بدن درست ہوگا اور جہاں وہ بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔‘ (صحیح بخاری)
روزہ مومن کے دل کو غرور و تکبر سے پاک کرتا ہے کیونکہ ایسی چیزوں سے کنارہ کشی نہ کرنے سے روزہ ٹوٹتا ہے۔ تکبر میں انسان خود کو بے عیب مانتا ہے اور خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ اس خود بینی کا علاج اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر غور کرنا ہے۔ ہم سے ہزاروں گناہ اور غلط کام سرزد ہوئے ہیں اور ان غلطیوں کو کرنے کے بعد ہم انہیں بھول بھی گئے لیکن خدا کو ان کا پورا علم ہے۔ اللہ سورۃ النساء آیت ۴۵ میں فرماتا ہے:
’کیا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دیا ہے؟‘
جب مومن کا دل روزہ رکھتا ہے، وہ حسد سے دور رہتا ہے کیونکہ بغض نیک اعمال کو کم کرتا ہے اور اللہ کی طرف نازل ہونے والی ترقی کو روکتا ہے۔
غرض کہ رمضان میں جسم کے تمام اجزاء کاروزہ ہوتا ہے۔ یہ بابرکت مہینہ ہر اعتبار سے بندے میں تغیر پیدا کرتا ہے اور اس کے تما م اعضاء کو پاک و صاف ہونے کا سنہراموقع ملتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں