37

قربانی کا مہینہ اور نئے سوالات!!

کسی بھی معاشرے میں علمی تحقیق کے لئے یا معاشرتی معلومات کے لئےسوال کرنے کی اجازت ہونی چاہے نہ صرف سوال کرنے کی بلکہ دوسروں کی آرا کو سمجھنے اور برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہے۔ اس سوشل میڈیا کے دور میں ہمیں اپنی خدادا صلاحیتوں پہ اتنا بھی بھروسہ نہیں ہونا چاہیئے یا انگریزی میں جیسے assumation کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کی نیت اور علم پہ شک کرنا شروع کر دیں ہمارے ہاں یہ بھی رجحان ہے کہ ہم دین کے متعلق سوالات کو اپنی انا کا مسلہ بھی بنا لیتے. مسلمان ہونے کے ساتھ ہم سب عالم دین بھی بن جاتے ہیں اور ضروت پڑنے پہ نہ صرف فتوے جاری کرتے بلکہ دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج کے درپے ہو جاتے ہیں۔ ہاں!! دین کے متعلق سوالات و جوابات میں احتیاط کا پہلو ملحوظ خاطر رکھنا چاہے۔ میرے خیال میں سوال وجواب ایک صحت مند معاشرے کی پہچان ہے اور یہ ہمیں نئ کھوج سے روشناس کرواتے ہیں۔

میں نے اپنے دوست کی سوشل میڈیا پروفائل پہ کچھ سوالات دیکھے ۔ اور اس سے ملتے جلتے خیالات پہلے بھی دیکھے یا کہیں پڑھے ہیں۔ مثال کے طور پہ وہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ مقروض قوم کی قربانی ہوسکتی ہے یا نہیں.?? اگر گھرکے 5 افراد ہیں جو 10 لاکھ کے مقروض ہیں. رہنمائی کیجئیے
پھر ایک اور سوال دیکھا لوگ سارے جانور اکھٹے ذبح کر کے مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ یہ سوالات قربانی کے مہینہ میں پوچھے گئے ہیں تو عموما” تاثر ملتا جیسے مذہبی عمل کو نشانہ بنایا گیا ہو یا نئ کھوج کی جستجو ہو۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کسی کی نیت پہ شک نہیں کیا جانا چاہیئے اور خیر کا پہلو دیکھنا چاہیئے!! میرا ذاتی خیال یہ ہے سوشل میڈیا کا سوال عام لوگوں سے ہی پوچھا گیا ہے۔ میرے خیال میں بعض سوال مزید سوالات کو بھی جنم دیتے ہیں.
سوال یہ بھی ہونا چاہیئے کہ اس عمل سے لوگوں کا استحصال تو نہیں ہوتا ہے؟۔ کیا قربانی کے عمل سے لوگوں اور ملک کو فائدہ ہو تا ہے یا نقضان کیا یہ مقروض قوم اس عمل سے اپنا قرضہ اور معاشی نظام بہتر کر سکتے ہیں یا نہیں؟ کیا اس عمل سے جانوروں کی تعداد کم ہوتی ہے یا بڑھتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ..

قربانی کا عمل بالکل ایک مذہبی فریضہ ہے اور اس بارے میں دلائل وقت کے علماء بڑے اچھے طریقے سے دے سکتے ہیں۔ میری نظر میں دین کا کوئی بھی عمل حکمت سے عاری نہیں ہوتا۔اور نہ ہی دین زبردستی کرتا ہے۔ جہاں تک میرا ناقص علم ہے دین اسلام پیسے کی گردش کے نظام کو قائم کرتا ہے۔ میں کوئی عالم دین نہیں ہوں اور نہ ہی دینی معاملات پہ زیادہ روشنی ڈالوں گا۔لیکن اپنے خیالات کی روشنی میں اپنے ملک پاکستان کے حوالے سے اس قربانی کےعمل کا معاشرتی اور معاشی پہلو کا جائزہ لوں گا۔

قربانی کا عمل جو جانور پالنے سے لیکر کھال کی خرید وفروخت تک ایک معاشی نظام کو تعمیر کرتا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے کئ صنعتوں کو فروغ ملتا ہے۔ قربانی کے جانور عموما غریب لوگ پالتے ہیں وہ سارا سال جانو ر کی خدمت کرتے ہیں اور پھر عید قربان کے دنوں اپنے جانور بیچ کر اجرت وصول کرتے ہیں جو ان کے سالہا سال معاشی نظام چلانے کے کام آتی ہے۔ اور یوں وہ اگلے سال کے لئے نئے جانور پالنے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسان اپنی فضل کاشت کرتا ہے اور جب فصل تیار ہوتی ہے تو مناسب اجرت پہ بیج کر اپنے معاشی نظام کو سیدھا کر تا ہے اور پھر اگلے سال کی فصل کی تیاری میں مصروف ہو جاتاہے۔ ٹرانسپورٹر سے لیکر قصاب تک اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ دوسری جانب جانوروں کی کھا لوں سے چمڑے کی صعنت کو زبردست فروغ ملتا ہے۔ جو کسی نہ کسی طرح سے ملک کے لئےزرمبادلہ حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ معاشرتی طور پر اگر دیکھا جائے ملک کے بڑے غریب طبقے میں گوشت کی تقسیم ہوتی ہے اور ہزاروں لوگ جو شاید گوشت خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں وہ بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح جانوروں کی کھالیں کچھ خیراتی اداروں کو دی جاتیں ہیں جن کو فروخت کر کے مستحق لوگوں کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں ۔دوسرا سوال کے جواب میں میری رائے یہ ہے لوگ قربانی کے جانور کو ایک صنعت کے طور پہ پالتے ہیں ان جانوروں کی خوراک اور رہن سہن کا خاض خیال رکھتے ہیں۔تاکہ مناسب دام پہ بیچ سکیں۔اور یہ دام صرف قربانی کے دنوں میں ہی مل سکتا ہے۔ میرے خیال میں قربانی کا جانور بازار کے گوشت پہ اثر نہیں ڈالتا ۔ البتہ یہ ممکن ہے یہ قربانی کے دنوں میں گوشت کی قمیت کم ہو جاتی ہے۔ طلب کم ہو نے کی وجہ سے قمیت کم بھی ہوتی ہواور اگر ایسا نہیں بھی ہے تو گوشت کی کھپت ضرور کم ہوتی ہو گی۔قربانی کے اس تمام عمل سے پیسے کی گردش صاحب استطاعت لوگوں سے لیکر عام لوگوں تک ہوتی ہے۔ بزنس ریکاڈر کی رپوٹ کے مطابق 2017 میں 5فی‌صد سے زیادہ قربانی کے جانور فروخت ہوئے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے لوگوں میں قربانی کے جانور پالنے اور خریدنے کا رجحان ہر سال بڑھتا ہے۔آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ قربانی کا عمل جو کہ انفرادی ہے اور سنت ابراہیمی کو یاد رکھنے کا ذریعہ ہے وہاں مجموعی طور پہ حکومت وقت کو ایک معاشی نظام مہیا کرنے کا مواقع فراہم کرتی ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں