جنوبی ایشیاء میں برصغیر تہذیب و تمدن کے لحاظ سے بہت قدیم ہے. یہ بہت سی ثقافتوں اور قوموں کی سرزمین ہے اس کا نام دریائے سندھ یعنی انڈس ریور کی وجہ سے انڈیا (ہندوستان) رکھا گیا. جنوبی ایشیاء یعنی برصغیر میںاسلامی فتح کے وقت مختلف خاندان حکمراں تھے. یہ سارا علاقہ کئی کئی حکومتوں میں منقسم تھا- یہ حکمران آپس میں مصروفِ جنگ رہتے تھے جس کی وجہ سے یہاں سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہتی تھیں جس کے باعث بدامنی اور انتشار کی فضاء رہتی تھی. عرب تاجر قدیم زمانے سے بغرضِ تجارت یہاں آتے تھے انہیں کے ذریعے اسلام کا پیغام یہاں تک پہنچا. محمد بن قاسم کے حملہ کے بعد یہاں باقاعدہ اشاعت اسلام کا سلسلہ شروع ہوا. سنہ712ء میںمحمد بن قاسم نے راجہ داہر کو شکت دی. اسلامی فتوحات کے بعد بزرگان دین کی اس خطہ میںآمد کا آغاز ہوا.
مسلم تہذیب ایک بلند پایہ تہذیب تھی اس لیے اس نے اس خطہ کی پسماندہ تہذیب کو نہ صرف جھنجھوڑ کے رکھ دیا بلکہ اس میں اہم مثبت تبدیلیاں بھی رہنما کیں. مسلمانوں نے مرکزی بدامنی کو نا پید کر دیا. مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے بیرونی دنیا سے جنوبی ایشیاء کے تعلقات استوار ہوئے. مسلم سلاطین کی سرپرستی میںمعاشرتی، ثقافتی، اور فنی الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی نے ترقی حاصل کی. اسلامی توحید اور مساوات کےاثرات اس قدر غالب تھے کہ ہندومت میںایسے بھگت پیدا ہونے لگے جنہوں نے بت پرستی سے نفرت کا اظہار کیا اس طرح ہندومت میں اصلاحی تحریکیں شروع ہو گئیں. مسلم معاشرے کے اخلاقی معیار کو بلند کرنے اور مسلم معاشرے کو ہر قسم کی الائشوں اور غلط افکار سے پاک کرنے میں نامور صوفیہ ومشائخ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں.
مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند پر ایک ہزار برس تک انتہائی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی. سولہویں صدی میںانگریز بغرض تجارت برصغیر میں داخل ہوئے ابتداء میں انہوں نے شاہی درباروں سے وابستگی اختیار کی اور رفتہ رفتہ ایک جمعیت یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں منظم ہوتے چلے گئے. شہنشاہ جہانگیر کی جازت پر سلطنت میں تجارتی مرکز قائم ہوا. مغل بادشاہوں اور ان کے نوابوں، ناظموں کی فیاضانہ پالیسیوں کے باعث بنگال میں دو قوتیں پیدا ہوئیں. ایک انگریزوں کی اور دوسری ہندوں کی. ان دونوں کے اتحاد اور سازباز کے برعکس مسلمان تفرقے اور کم ہمتی کا شکار ہوئے جس سے اسلامی حکومت کا شیرازہ بکھر گیا. بنگال، بہار، اڑیسہ میں انگریز سلطنت قائم ہوگئی اور خوشحالی نے ان میںملک گیری کے عزائم پیدا کردیے. ہندو اسلامی حکومت کے ہمیشہ سے خلاف تھے وہ حکومت میں اعلیٰ محکموں اور عہدوں کے حصول میں کامیاب ہوچکے تھے لیکن اندر ہی اندر اسلامی حکومت کے مخالف رہے. وہ اس انتظار میں تھے کہ کب موقع ملے اور وہ فائدہ حاصل کرسکیں لہذا بنگال میں نواب سراج الدولہ کے خلاف سازش میں برطانوی اقتدار کے قیام کے لیے انگریزوں کے ساتھ شامل ہوگئے. میر جعفر جو سالار تھا غدار نکلا، اور اس نے مسلمانوں کے اعتماد کو مجروح کیا جس کے نتیجہ میں 22 جون سنہ1757ء کو پلاسی کے میدان میں مسلمانوں کو میر جعفر جیسے غداروں اور ہندو انگریز اتحاد کے نیتجہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا.