پاکستان میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں ۔ پاکستان کے تمام میڈیا چینلز امیدواروں کے حلقوں کی فوٹیج دکھا کر ان کی ناکس کارکردگی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ کچھ دنوں سے ہم اس دردناک غلط فہمی کا سامنا کررہے ہیں۔ جس میں امیدواروں کی حلقوں میں کارکردگی کے حوالے سے عوامی ستح پر سوالات کیے جارہے ہیں اور ہمارا میڈیا اس تشہیر میں مصروفِ عمل ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ عام عوام کو ان کے منتخب کردہ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کا حلقوں میں کردار، فرائض اور دائرہِ اختیار کی وضاحت کر دی جائے۔
جمہوری نظام سے بے اعتباری کی بنیادی وجہ وہ امید ہے جہ عوام اپنے منتخب کردہ حکام سے لگاتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد عام عوام کی اپنے منتخب امیدواروں سے امید اور حکام کی اصل ذمہ داریوں کو واضح کرنا ہے۔
آئیے شروعات کرتے ہیں اس وضاحت کے ساتھ کہ سڑکیں بنانا یا ان کی مرمت کروانا، عوامی پارکوں یا تفریح گاہوں کو ٹھیک کروانا ، اپنے حلقوں میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا یا سرکاری محکموں میں بھرتی کروانا۔
جی ہاں! مجھے احساس ہے کہ یہ بات آپ کے لیےانتہائی حیرت انگیز ثابت ہوگی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ان منتخب کردہ ایم این اے اور ایم پی اے اراکین کے دائرہ اختیار میں یہ (کام کرا دیں) نہیں آتا۔
ایم این اے قومی اسمبلی کا رکن ہوتا ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی فی الحال 342 اراکین پر مشتمل ہے۔ ان ارکان میں سے ہر ایک وفاقی سطح پر اپنے حلقہ کا منتخب نمائندہ ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ان سے قانون سازی، نگرانی اور ثالثی کردار کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ایم این اے کا بنیادی کردار قانون سازی کا ہے۔ ان کا کام ایسے بل اسمبلی میں پیش کرنا ہے جنہیں مخصوص حکومتی مسائل اور پالیسیوں کو حل کر نے کے بعد ملک کے قوانین یا آئین کا حصہ بنایا جاسکے۔
اس عمل کا اصل مقصد یہ ہے کہ حلقے کا منتخب نمائندہ اس کے حلقے کے مؤقف پر مبنی پالیسی پر ووٹ ڈالے۔ اس طرح جب بھی پالیسی اور قوانین منظور کیے جاتے ہیں ان پر پاکستانی عوام کی جانب سے منظوری کی مہر یہ منتخب ارکانِ اسمبلی ووٹ ڈال کر لگاتے ہیں۔
منتخب حکام یا اراکین سنجیدگی سے عوام کو درپیش مسائل پر بات چیت کا سلسلہ عوامی سطح پر جاری رکھتا ہے ۔ بیروکریسی اور سرکاری وزراء سے جوابات کا مطالبہ کرتا ہے اور نئی پالیسیاں تیار کرتا ہے اور اس کو پارلمنٹ کے سامنے بل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
خاص طور پر حزبِ اختلاف کے ارکان قومی اسمبلی اہمیت کے حامل ہیں اور جس کے تہت وہ حکومت کی کارکردگی پر مزاحمت یا اضافی نگرانی کے مُجاز ہیں ۔
عام عوام یہ بات نہیں جانتی کی، میڈیا اس بارے میں بات نہیں کرتا ۔ کیونکہ اس سنجیدہ اور بیزار کُن موضوع سے کسی کو دلچسپی نہیں ۔ لیکن درحقیقت یہ وہ کام ہے جو ایم این اے کی حقیقی ذمہ داری ہے۔
مختصر یہ کہ ایم این اے حلقوں اور انتظامیہ کے درمیان ایک پُل کی ماند ہے۔ ایم این اے کا کردار اس کے حلقوں اور ضلع، صوبائی اور یہاں تک کہ وفاقی منتظمین کے درمیان متضاد ہونے پر ثالثی کا ہے۔
اسی طرح ، صوبائی اسمبلی کے ایم پی اے رکن کا دائرہ اختیار صوبائی سطح تک ہے۔ ان کی اضافی ذمہ داری صوبائی مالی فنڈز کی نگرانی کرنا ہے جو کہ قومی کمیشن ایوارڈ کے ذریعے آتی ہے۔یہ ذمہ داری نگرانی کے فرائض کی توسیع ہے جو ایم این اے کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ایم این اے اور ایم پی اے دونوں پارلمانی کارروائیوں کے دوران سوالات کرنے اور ان کے جوابات طلب کرنے اور احکامات پر اپنا نقطہء نظر بیان کرنے کے مُجاز ہیں۔
کسی حد تک عوام کی غلط فہمی کے ذمہ دار یہ ایم این اے اور ایم پی اے بھی ہیں جو انتخابات کے دوران ایسے مسائل کو حل کرنے کے وعدے کرتے ہیں جو ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام میں کسی بھی سطح پر اس جمہوری نظام کے حوالے سے تعلیم نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے عام عوام غلط فہمی کا شکار ہے۔ مثال کے طورپر صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کا کام ازخود نوٹس لینا نہیں ہے یا سڑک، عمارات بنوانا یاپھر نئے پلوں کی تعمیر کا حکم دینا ہرگز نہیں ہے۔ اس کا کام ایک ایسی پالیسی ایجنڈا کو لے کر آنا ہے جس کے نفاذ سے صوبے میں مجموعی طور پر بہتری میں مدد ملے۔
لہٰذا، ایم این اے اور ایم پی اے صرف قانون سازی کر سکتے ہیں۔ اور وہ ایک بہتر پالیسی بنانے سے زیادہ عوام کا کوئی وعدہ نہیں کر سکتے ۔