خیالوں کے اس شہر میں
دل کی اس پکڈنڈی پر
تیرا ننگے پاؤں یوں ٹہلنا
تیرے سفید دوپٹے کا کچھ یوں
کندھے سے لہراتے ہوئے
میرے احساسوں کو یوں چھو جانا
میرے بے جان جسم میں جان آگئی
نا امید آنکھوں میں چمک آگئی
تو آگے آگے چلتا رہا
تم کو پانے کی خاطر
میں پیچھے پیچھے لپکتا رہا
تو تیز ہوا کا چھونکا تھا
تو آنکھوں سے اوچھل ہوتا گیا
میں چلتے چلتے روتا گیا
آنکھ کھلی تو خواب نکلا
مڑ کر دیکھاپہلو میں
وہ محو تھا سہانے سپنوں میں
تبسم تھا اس کے ہونٹوںپر
جوانی پر عروج تھا خوب
خوشبو تھی جیسے پھول ہو وہ
یہ دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا
خوشی سے اک آنسو ٹپکا
میرا خواب تو بس اک خواب نکلا
میری حقیقت بہت خوبصورت ہے
17