52

کوٹھا راج

“تو آپ رائٹر ہیں؟ ” سوال ہوا۔
“جی ۔۔۔ ہوں نہیں، تھا۔” میں نے گہری نظر سے دیکھ کر جواب دیا۔
“ہو یا تھے ۔۔۔ کیا فرق پڑتا ہے۔” کاندھے اچکا کر کہا گیا۔
“فرق، فرق تو بہت پڑتا ہے، مگر یہ فرق ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔” میں نے تحمل سے جواب دیا۔
“تو کیا لکھتے تھے آپ؟ وہی پریوں کے دیس کی کہانی یا پھر کسی ادھوری محبت کی فرضی داستاں؟” سوال میں طنز تھا۔
“جی نہیں” ۔ میں نے مختصر جواب دیا۔
“آپ ادیبوں کو اور کچھ بھی آتا ہے کیا، کیونکہ میں نے تو اس کے علاوہ کچھ نہیں نکلتے دیکھا آپ سب کے قلم سے۔” آواز مکمل طنزیہ ہو چکی تھی۔
جی! آتا تو بہت کچھ ہے ۔ مگر جب لکھتے ہیں تو آپ جیسے پریوں کے دیس کی کہانیاں پڑھنے والوں کو پسند نہیں آتا۔ لے دے کر کچھ ادھوری محبت کی افسانوی کہانیاں ہی بچتی ہیں، جن ہر آپ سب چٹخارے لیتے ہیں۔” میں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔
“تو اس کے علاوہ کیا لکھتے ہیں آپ؟ کچھ اور بھی ہے۔” آواز میں غصہ تھا۔
“لکھتا تھا، میں عرض کر چکا ہوں کہ میں نے لکھنا ترک کر دیا ہے۔” میں نے جواب دیا۔
“ہاں، ہاں وہی۔ کیا لکھتے تھے آپ۔ ” سوال میں بیزاریت تھی۔
“سچ”۔ میں نے مختصر سا جواب دیا۔
“”اوہو! تو اب کہانیاں بنانے والے بھی سچ لکھنے لگے۔” آواز تمسخر آمیز ہو چکی تھی۔
“کہانیاں اگر سچ سے زیادہ سچی نہ لگتیں تو شاید کبھی کوئی ان کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔” میں نے مسکرا کر کہا۔
“ممکن ہے، مگر پریوں کے دیس کے محلات میں کیسی سچائی۔” سوال ہوا۔
“یہاں بھی اتنی ہی سچائی ہے جتنی آپ لوگ عدالتوں میں منصفوں کے سامنے مقدس کتابوں کی قسم کھا کر کہتے ہیں یا پھر اخبار کی بڑی بڑی سرخیوں میں حقیقت کے نام پر چھاپا کرتے ہیں۔” میں نے ٹھوس لہجے میں کہا۔
“وہاں سچ ہی کہا جاتا ہے، تبھی انصاف ہوتا ہے۔” جواب سے کھوکھلا پن ظاہر تھا۔
“اچھا! تو کیوں ہر بار عدالت کسی جھونپڑے نما کچے مکان میں رہنے والے ہی کو سزا دیتی ہے اور محل نما عمارتوں میں رہنے والے آزادی کا جشن مناتے ہیں۔” میں نے سوال کیا۔
“جو مجرم ہوتا ہے وہ سزا پاتا ہے۔” کندھے اچکا کر جواب دیا گیا۔
“تو پھر بار بار ایک ہی سیاہ شیشوں والی گاڑی الگ الگ موقعوں پر کیا عدالت کی اندھی دیوی کے آگے بھجن گانے رکتی ہے؟ ” میں نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
“آپ موضوع سے ہٹ رہے ہیں، سوال یہ تھا کہ آپ کیا لکھتے تھے۔” گڑبڑا کر پوچھا گیا ۔
“جی میں سچ لکھتا تھا، جیسا کہ میں عرض کر چکا۔” میں نے اپنا جواب دہرایا۔
“کیسا سچ؟ ” سوال ہوا۔
“معاشرے کا سچ” میں نے مختصر جواب دیا۔
“تو آپ کی نظر میں معاشرہ جھوٹ کہتا ہے؟ ” گہری نظر سے دیکھ کر سوال ہوا۔
“میری نظر میں تو یہ لفظ معاشرہ ہی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔” میں نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔
“کیا بکواس ہے یہ۔” پہلو بدل کر تلخ لہجے میں کہا گیا۔
“سچ اور بکواس ، دونوں ہی ایک چیز کے الگ الگ نام ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ کوئی بااثر آدمی کہے تو سچ اور کوئی ناتواں کہے تو بکواس۔” میں نے قدرے تحمل سے جواب دیا۔
“میرا خیال ہے آپ کا دماغ اپنی جگہ پر نہیں ہے۔” تلخ لہجے میں کہا گیا۔
“میرا تو اپنی جگہ ہے ۔ البتہ امید ہے کہ بقیہ لوگوں کا بھی کبھی آ ہی جائے گا۔ ” میں نے بدستور تحمل سے جواب دیا۔
“آپ کے کہنے کا مقصد ہے ، آپ کے علاوہ سب پاگل ہیں؟” لہجے میں غصہ عیاں تھا۔
“نہیں، ہرگز نہیں۔ میرے کہنے کا مقصد ہے کہ باقی سب کو پاگل بنا دیا گیا ہے۔” میں نے کہا۔
“آپ کس بات کو سچ مانتے ہیں؟” سوال ہوا۔
“وہی جو ہم روز مرہ کی زندگی میں کرتے ہیں ۔ مگر اس کا اعتراف کرنا باعثِ شرم سمجھتے ہیں۔ ” میں نے جواب دیا۔
“دیکھیں ہم ایک شریف اور ایماندار معاشرے کا حصہ ہیں، یہاں یہ الٹی سیدھی خرافات نہیں ہوتیں ۔” آواز کا کھوکھلاپن اس کا جھوٹ صاف ظاہر کر رہا تھا۔
“کیا آپ بتا سکتے ہیں ، ہمارے معاشرے میں کوٹھے کتنے ہیں؟ ” میں نے سوال کیا۔
“یہ کیسا بیہودہ سوال ہے، میں آپ کو کوٹھوں پر جانے والا دکھتا ہوں؟ ” آواز میں اکھڑ پن واضح تھا۔
“جب آدمی کا سچ سامنے آنے لگے تو اس کا لہجہ بدل جاتا ہے۔” میں نے تحمل سے جواب دیا۔
“دیکھیے! آ، آ، آپ مجھ پر اس طرح کا الزام نہیں لگا سکتے، میں ایک شریف اور معزز آدمی ہوں۔” آواز لڑکھڑا چکی تھی۔
“میرے شہر کے شریفوں کو میرے شہر کی طوائفوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔” میں نے بڑبڑانے کے سے انداز میں کہا۔
“یہ آپ میری شخصیت پر کیچڑ اچھالنا چھوڑ کر، اپنی ذات کے بارے میں کیوں نہیں بتاتے۔” موضوع بدلا گیا۔
“کمال ہے ، کبھی آپ مجھے پریوں کے دیس کی رنگارنگ کہانیاں لکھنے والا مصنف کہتے ہیں تو کبھی سیاہ کیچڑ اڑانے والا۔” میں نے مسکرا کر کہا۔
“آپ یہ بتائیں کہ آپ نے لکھنا کیوں چھوڑا؟” جلدی سے سوال ہوا۔
“کیونکہ مجھ سے یہ جھوٹی پریوں والی اور فرضی محبت کی داستان نہیں لکھی جاتی۔” میں نے سادہ سا جواب دیا۔
“تو آپ سے کیا لکھا جاتا ہے؟ ” طنزیہ ہنسی کے ساتھ سوال ہوا۔
“وہ محبت کی داستان جو شروع تو ہوئی ایک خوبصورت اتفاق سے ۔ مگر پھر اس میں موجود وہ مجنوں کسی وحشی درندے کے طرح اپنی لیلیٰ کو نوچ کر کھا گیا اور بھوک مٹنے کے بعد اسے اسی حالت میں چھوڑ کر اپنے گہرے تاریک غار میں آرام کرنے چلا گیا جہاں سے دوبارہ اٹھ کر وہ ایک اور شکار کی تیاری کرے گا۔ ” میں نے جواب دیا۔
“آپ تو بڑا تلخ لکھتے ہیں، مگر یہ تو سراسر غلط ہے، ادب کے خلاف ہے۔” پر مذمت انداز میں کہا گیا۔
“اگر میرا لکھا غلط ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے یہ معاشرہ نہیں ۔ بلکہ غلاظت کا ایک پلندہ ہے۔” میں نے جواب دیا۔
“تو آپ کو لگتا ہے آپ صحیح ہیں اور باقی سب غلط؟ ” سوال ہوا۔
“مجھے کیا لگتا ہے ، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ اگر پڑتا تو شاید آج یہ سب جن کے آنکھ کے ڈھیلے بصارت کے ہوتے ہوۓ تاریک ہیں ۔وہ سب بینا ہوتے۔” میں نے کہا۔
“آپ جانتے بھی ہیں ، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ” لہجے کی تلخی صاف ظاہر تھی۔
” میں نے کہا تھا آپ سے ۔ میں وہی کہتا ہوں جو ہم ہر روز کرتے ہیں ۔ مگر اس کا اقرار باعثِ شرم سمجھتے ہیں۔” میں نے قدرے تحمل سے کہا۔
“مگر آپ جس چیز کو ادب کہتے ہیں ، وہ ادب کہاں ہے، مجھے تو اس میں کہیں دور دور تک ادب نہیں دکھتا۔” لہجہ تیز ہو چکا تھا۔
“آپ کو تو اپنے گناہ بھی نہیں دکھتے ۔ مگر میں نے تو اس پر اعتراض نہیں کیا۔” میں نے مسکرا کر کہا۔
“آپ لکھتے ہیں کہ طوائف ایک اچھی اور صاف دل کی عورت ہے ۔ مگر اس کے پاس جانے والا ہر ایک گنہگار ۔ یہ توآپ سیدھے سیدھے معاشرے کے ایک بدنما داغ کو سفیدی اور خوبصورتی کا نشان کہہ رہے ہیں۔” آواز اونچی سے اونچی ہوتی جا رہی تھی۔
“مجھے اردو سے بس ایک ہی شکوہ ہے کہ اس نے عورت کے لیے تو طوائف جیسے لفظ کو خود میں جگہ دی ۔ مگر اس عیاش مرد کے لیے ایسا کوئی لفظ نہیں رکھا ۔ جو یہاں وہاں منہ مارتا پھرتا ہے۔ ” میں نے ٹھوس لہجے میں کہا۔
“تو آپ کی نظر میں طوائف کی کیا تعریف ہے؟” سوال ہوا۔
” میری نظر میں وہ قابلِ احترام ہے ۔ کیونکہ اگر وہ اپنا جسم ان بھوکے کتوں کو نوچنے نہ دیں ۔ تو شاید کل یہ کتے کسی بھی گھر میں گھس کر اس میں موجود آبروؤں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں۔” میں نے پختہ لہجے میں جواب دیا۔
“تو آپ معاشرے کی ڈھکی چھپی برائیاں سرِ بازار لانا چاہتے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ ہر گنہگار فخریہ بتاتا پھرے کہ اس نے یہ گناہ کیا؟” تلخ لہجے میں سوال ہوا۔
“بالکل نہیں، بلکہ میں چاہتا ہوں ، زمانہ جو کرتا ہے ، وہ تسلیم بھی کرے ۔ رہی بات گناہ کے سرِ بازار اقرار کی ۔ تو یہ آج کل کون نہیں کرتا؟ آج کوئی شخص اگر دھوکے سے کسی کا مال اینٹھ لے تو گاتا پھرتا ہے کہ اس نے کس چالاکی سے یہ اس شخص سے نکالا، کوئی حیوان جب کسی شریف زادی کا جسم بھنبھوڑ کے واپس آتا ہے ۔ تو اپنے دوستوں میں اس کے جسم کے نشیب و فراز کے قصے سناتا ہے ۔ پھر اب آپ کس برائی کو سرِ راہ لانے کی بات کرتے ہیں؟ ” میں نے سوال کیا۔
“تو آپ چاہتے ہیں ہمارے بچے اس سب کو بطورِ ادب پڑھ کر بڑے ہوں؟” سوال ہوا۔
“بچہ اگر اسی معاشرے میں پل بڑھ رہا ہے تو کیا حرج ہے کہ وہ اس معاشرے کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے بڑا ہو؟ ” میں نے سوال کیا۔
“تو آپ نے لکھنا اس لیے چھوڑا کہ آپ یہ سب فحاشی نہیں لکھ پا رہے تھے؟” سوال کیا گیا۔
“اگر معاشرے کی اصلیت فحاشی ہے تو یہ معاشرہ خود میں ہی ایک کوٹھا ہے۔ ” میں نے ٹھوس لہجے میں جواب دیا۔
“کیا آپ نے کبھی عام ادیبوں کی طرح کچھ اچھا لکھنے کی کوشش نہیں کی؟ جیسے محبت کی حسین داستان یا پھر کسی غریب مزدور کے حالات کا بدلنا، کسی شہزادے کے سفر کا احوال وغیرہ۔” سوال کیا گیا۔
“میں کس طرح لکھوں یہ سب جب کہ میں نے ان ہی آنکھوں سے محبت کے نام پر جسم کی گھات لگائے شکاریوں کو دیکھا ہے ۔ جو اپنی بھوک مٹنے پر اس جسم کو سرِ راہ پھینک جاتے ہیں، کس طرح لکھوں کہ وہ غریب دو وقت کی روٹی مشکل سے کھاتا تھا ۔ اس کے حالات کسی رحم دل سیٹھ کی عنایت سے بدلے ۔ جب کہ میں نے ایسے سیٹھوں کی رال اس غریب کی بیٹی کو دیکھ کر ٹپکتے دیکھی ہے، کس طرح کسی کسان کی خوشحالی کا احوال لکھوں ۔ جب میں نے اسے اپنے پورے خاندان کے ساتھ خودکشی کرتے دیکھا ہو، اور کس طرح کہوں کہ شہزادہ اپنی شہزادی کو جادوگر کی قید سے چھڑا آیا اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے ۔ جب کہ میں نے ایسے کئی شہزادوں کو اگلے ہی دن کسی اور کی بانہوں میں سوتے دیکھا ہے۔
یہ معاشرہ اب کسی الف لیلیٰ کے قصے کی طرح پر منظر نہیں۔ بلکہ اپنی ہی نجاست میں ڈوبے کسی سور کی طرح ہانپ رہا ہے۔”

سامنے خاموشی تھی، مکمل خاموشی۔۔۔۔۔

**
سمیر یاسین آپ کی تحریر “کوٹھا راج” کو یہ عدالت فحش اور انتہائی فضول قرار دے کر آپ کو تین سال قید بامشقت کی سزا سناتی ہے۔
ختم شد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں