نیٹ فلکس پر ایک سیریل دیکھنےمیں محو تھا کہ اچانک فون پر گھنٹی بجتی ہے – پاکستان سے فون ہے اللہ خیر کرے – جب بھی پاکستان سے فون آتا ہے ڈر سا لگ جاتا ہے – انجانا سا خوف ہوتا ہے. جواب دینے کے ساتھ ہی دل سے دعا نکلتی ہے، اللہ خیریت کرے – فون کو کان کے ساتھ لگاتے ہی ہمشیرہ کی آواز سنائی دیتی ہے. سلام دعا کے بعد پوچھا کہ خیریت ہے ؟
پاکستان سے فون آئے تو اکثر کسی وجہ سے ہی فون کیا جاتا ہے – ہاں خیریت ہی ہے بس بتانا تھا کہ * فوت ہوگئی ہیں – اللہ خیر ! وہ کیسے؟
” بس ڈاکٹر کی غفلت کی وجہ سے معمولی بیماری جو کہ پنسلین سے ٹھیک ہو سکتی تھی ڈاکٹر نے آپریشن کر دیا . بعد میں انفیکشن پورے جسم میں پھیل گیا اور آج اس کی موت ہوگئی “-
بہت افسوس ناک خبر تھی مرحومہ کی عمر زیادہ نہ تھی-
زیادہ دھچکا اس لیے بھی لگا کہ جب بھی ہم پاکستان جاتے تو وہ محترمہ ملنے ضرور آتی اور اکثر آتی رہتی. بچے بھی اس کے ساتھ کافی گھل مل جاتے –
بحرحال فون پر ہمشیرہ کو خدا حافظ کہہ کر جب اپنے گھر والوں کو بتانے کے لیے ادھر دیکھا تو سب اپنے اپنے موبائل فون میں مگن دنیا جہاں سے بے خبر بیٹھے غیر حقیقی دنیا میں گم تھے – چند لمحےپہلے میں بھی اسی کیفیت میں نیٹ فلکس پر سیریل دیکھ رہا تھا- میں بھی اسی غفلت میں گم تھا بحرحال اپنے بیوی بچوں کو بلایا تو ایک سے زیادہ بار بلانا پڑا کیونکہ وہ اپنی اپنی غیر حقیقی دنیا میں مصروف تھے- تقریباً ہر گھر اور ہر فرد ،اس موبائل والے موذی مرض کا مریض ہوچکا ہے- کوئی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتا نہ کوئی ایک دوسرے سے نظریں ملاتا ہے -دنیا اس میں مصروف ارد گرد کے ماحول سے بے خبر رواں دواں ہے- کبھی تو ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گھر میں جو مہمان آیا ہوا ہے وہ اپنے موبائل میں مصروف ہے. میزبان اس کو دیکھ کر خاموش بیٹھا ہے-
میرے سب گھر والوں کو بھی مرحومہ کے بارے میں سن کربہت دکھ ہوا – فطری سی بات ہے کہ * کے دنیا سے چلے جانے کا دکھ ہوا کیونکہ سب اس کو جانتے تھے- ماحول غمگین سا ہوگیا-
زندگی کتنی محدود ہے – خواب کی طرح گزر جاتی ہےاور ہم ہیں کہ ان خوبصورت لمحو ں اور یادوں کو اس غیرحقیقی اور مصنوعی زندگی میں ضائع کر رہے ہیں – جب سے انسان نے ترقی کی ہے اور انٹر نیٹ کا انقلاب آیا ہے تو جہاں فاصلے کم ہوۓ ہیں وہاں پر انسانوں کو ایک دوسرے سے بہت دور کر دیا ہے – جو پہلے گھر ہوتے تھے اب وہ صرف مکان بن کر رہ گئے ہیں- ہر کوئی اپنے اپنے خول میں بند ہے-زندگی جوکہ بلبلے کی مانند ہے. واقعی انسان اپنے آپ کو اس بلبلے میں قید کر چکا ہے- ہر فرد کے پاس ایک موبائل ہے جس کو ہر وقت گھور رہا ہے- زندگی کے خوبصورتی کو وہ نظرانداز کر رہاہے – زندگی جینے کے بجاۓ زندگی گزار رہا ہے- تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ سماجی صحت کے ساتھ ساتھ انفرادی صحت پر بہت منفی اثر پڑھ رہا ہے جیسا کہ بچوں کی دور کی نظر بہت کمزور ہو رہی ہےاوراسکے کے علاوہ کمردرد، سردرد، لکھنے اور پڑھنے میں دشواری وغیرہ وغیرہ-
گلی محلے میں ہر کوئی موبائل چہرے کے سامنے رکھے زندہ لاشوں کی طرح چل رہے ہیں-انسانیت بڑی عجیب و غریب پگڈنڈی پر رواں دواں ہے- ایک دوسرےکے پاس رہ کر بھی بہت دور ہو چکے ہیں ہم – ایک ہی مکان میں رہ کر اجنبیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں – وہ رونقیں، وہ قہقہے، ان موبائل فون کی وجہ سے خاموشی میں بدل گئی ہیں-
اس انفرادی تنہائی پسندی کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے جیساکہ خود نمائی ،غلط اور جھوٹی معلومات کی تشہیر، مذہبی اور سیاسی نفرت پھیلانا وغیرہ وغیرہ –
ان ایجادات کے منفی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ بہت سے مثبت پہلو بھی ہیں جو کہ کسی تعارف کے محتاج نہیں مگر ہم کو ان منفی پہلوؤں کو ذہن میں رکھ اپنی نوجوان نسل کو آگے لے کر چلنا ہوگا- ان منفی اثرات کو دور کرنے کے لیے ہم کو نۓ قوائد و ضوابط بنانے ہونگے- ہر گھر میں والدین کو ایک حد مقرر کرنی ہوگی کہ بچہ دن میں کتنا وقت انٹرنیٹ پر صرف کر سکتا ہے یہ صرف بچوں تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اپنے رویوں سے بھی دکھانا ہوگا- اس نئے دور کے نئے مسائل کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ میرا بیٹا ارمان خان جو نو برس کا ہے،کہنے لگا! پاپا باہر برف باری ہو رہی ہے. میں نے موبائل کو جیب میں ڈالا اور ارمان خان کے ساتھ باہر برف میں جاکر سنو مین بنانا شروع کر دیا. ایک دوسرے پر برف کے گولے پھینکتے ہوئے زندگی کو قہقوں میں بدل کر اسی موبائل کے کیمرے سے زندگی کے ایک خوبصورت لمحے کو قید کر لیا.
