انسانی تاریخ وبائی امراض کی آزمائشوں سے بھری پڑی ہے. انفلوئنزا، ٹی بی، چیچک، طاعون، کوڑھ، ہیضہ، ملیریا، خسرہ، پیلا بخار، یرقان، ڈینگی، زیکا، سارس، ایبولا اور ایچ آئی وی یا ایڈز جیسی وبائی بیماریاں کروڑوں افراد کی ہلاکت کا سبب بن چکی ہیں. بیماریوں کو پھیلانے کا سبب پیتھوجینک بیکٹیریا ہوتے ہیں جو انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پودوں تک میں بیماریاں پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں. ہم انسانوں کی اس ان دیکھے دشمن سے لڑائی بہت پرانی ہے. گو کہ اب ویکسین کی ایجاد اور اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کی بدولت بہت سی وبائی بیماریوں پر قابو پالیا گیا ہے مگر انہیں جڑ سے ختم نہیں کیا جاسکا ہے. ملیریا ہی کی مثال لیجیے جو ہزاروں سالوں سے انسانی جانوں کا دشمن ہے. گرچہ اب اس بیماری کی شرح اموات میں کمی آگئی ہے مگر اس کے باوجود ہر سال بڑی تعداد میں لوگ اس بیماری میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2018 میں چار لاکھ تین ہزار لوگ اس بیماری سے موت کا شکار ہوئے. دور حاضر میں ایک بار پھر بنی نوع انسانوں کو ایک ایسی ہی ہلاکت انگیز وبا کا سامنا ہے جو کرونا وائرس یا کووڈ 19 کے نام سے جانی جاتی ہے.
کرونا کی یہ وبا دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی اور چند ماہ کے اندر اندر تمام دنیا میں پھیل گئی. اب تک اس وبا سے دنیا بھر میں ایک لاکھ اٹھائیس ہزار لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد بیس لاکھ ہے. اس بڑھتی ہوئی تشویش ناک تعداد کے پیش نظر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اسے عالمی وبا قرار دیا ہے. تیز بخار، خشک کھانسی اور سانس لینے میں دشواری اس مرض کی ابتدائی علامات بتائی جاتیں ہیں. دنیا بھر میں ماہرین طب اس مرض کی ویکسین دریافت کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تاہم ابھی تک مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوپائی ہے مگر امید افزا بات یہ ہے کہ چند حفاظتی اقدامات اپنا کر اس کو بڑے پیمانے پر پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے. ان حفاظتی اقدامات میں سب سے اہم صحت مند غذا لینا تاکہ قوت مدافعت مہمیز یعنیٰ بڑھائی جاسکے، صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا، خاص کر ہاتھوں کو بار بار دھونا ، گھروں میں رہنا اور لوگوں سے وقتی دوری یا فاصلہ اختیار کرنا ہے.
جن مریضوں میں یہ مرض شدت اختیار کرلیتا ہے انہیں دوسروں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے جسے مریض کو قرنطینہ کرنا کہا جاتا ہے. قدیم زمانے سے ہی طبیبوں اور حکیموں نے اس بات سے واقفیت حاصل کرلی تھی کہ کسی بھی وبائی مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فاصلہ اختیار کرنا کتنا اہم ہے. اسی وجہ سے مریضوں کو صحت مندوں سے دور رکھا جاتا تھا. خاص طور پر ایسے مریضوں کو جو کسی لاعلاج یا چھوت کی بیماری میں مبتلا ہوں. فرانس کے میوزیم میں تین ہزار سال پرانے پیپرس کے کاغذ پر لکھی ایک مصری حکومتی تحریر رکھی ہے جس میں لکھا ہے کہ مصر میں آنے والی مسافروں کی ایک کشتی کو ساحل پر اترنے کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی کیونکہ ان مسافروں سے شہر میں بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہے.
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں آنے والی عالمی وباؤں کی فہرست کچھ یوں ہے.:
1. طاعون ایتھنز. ہمارے پاس وبا کا سب سے پرانا نوشتہ (ریکارڈ) 430 قبل مسیح میں ایتھنز اور اسپارٹا کے درمیان ہونے والی پیلوپونیسی کی جنگ کے تیسرے سال ایتھنز میں پھوٹنے والی طاعون کی وبا کا ہے جس میں حاکم شہر پریکلیز سمیت شہر کی دو تہائی آبادی (ایک لاکھ افراد) ختم ہوگئی تھی.
2. طاعون انتھونائن (165ء . 180ء) پارتھیا کی جنگ سے واپسی پر سپاہیوں کے ذریعے رومی سلطنت میں پھیلنے والی چیچک کی وبا نے پچاس لاکھ سے ایک کروڑ لوگوں کی جان لے لی.
3. طاعون سائپرین (250ء . 266ء) شمالی افریقہ سے یورپ تک پھیلنے والی چیچک کی وبا میں دس لاکھ لوگ جان کی بازی ہار گئے.
4. طاعون جسٹینیئن (541ء . 542ء) چوہوں سے پھیلنے والی طاعون کی یہ وبا مصر سے شروع ہوئی اور وسط ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی یورپ تک پھیل گئی. اس میں مرنے والوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے دس کروڑ تھی. یورپ کی چالیس سے پچاس فیصد آبادی اس وبا میں ختم ہوگئی تھی.
5. طاعون سیاہ یا بلیک ڈیتھ (1346ء . 1353ء) طاعون کی یہ وبا وسط ایشیا اور مشرقی ایشیا سے شاہراہ ریشم کے ذریعے میڈیٹیریئن کے علاقے میں پہنچی اور پھر وہاں سے پورے یورپ میں پھیل گئی. اسے انسانی تاریخ کی بدترین وبا قرار دیا جاتا ہے جس نے بیس کروڑ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا.یورپ میں اس کے اثرات سب سے زیادہ پڑے جس نے یہاں کی ساٹھ فیصد آبادی کو ختم کردیا.
6. کوکوزٹلی وبا (1545ء . 1548ء) سالمونیلا بیکٹیریا سے پھیلنے والے امراض کی اس وبا نے میکسیکو میں ڈیڑھ کروڑ افراد کو موت سے ہمکنار کیا. اس وبا میں مرنے والوں کی بڑی تعداد ازٹک باشندوں کی تھی جن کی اسی (80) فیصد آبادی اس وبا کی نظر ہوگئی.
7. طاعون ایرانی (1772ء . 1773ء) طاعون کی یہ وبا بغداد سے شروع ہوئی اور بصرہ، بحرین، ممبئی اور ایران کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے برطانیہ اور اسپین تک پھیل گئی. اس میں مرنے والوں کی تعداد بیس لاکھ سے زائد تھی.
8. ہیضہ یا کالرا (1816ء . 1975ء) انڈیا سے شروع ہوئی ڈیڑھ سو سال تک دنیا میں سات مرتبہ پھیلنے والی اس وبا میں اب تک پچاس کروڑ سے زائد لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں. افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا اور ہیٹی میں اب بھی بڑی تعداد میں لوگ اس مرض کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.
9. ہسپانوی انفلوئنزا (1918ء . 1920ء) عالمی سطح پر پھیلنے والی انفلوئنزا کی یہ وبا دس کروڑ افراد کی موت کا باعث بنی.
10. ایشیائی فلو اور ہانگ کانگ فلو (1957ء . 1969ء) پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی اس وبا میں اسی لاکھ لوگ ہلاک ہوئے.
11. ایڈز یا ایچ آئی وی (1920ء . تاحال) اس مرض کی شروعات کانگو افریقہ سے ہوئی مگر 1980 میں کیلی فورنیا (امریکہ) میں ایک شخص کو لاحق ہونے پر دنیا اس سے واقف ہوئی.اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے یہ تیزی سے دنیا میں پھیل گئی. اب تک اس بیماری میں تین کروڑ بیس لاکھ لوگ جان سے جاچکے ہیں.
دلچسپ بات یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو درپیش مشکلات و آفات کو سائنسی توجیہات کے ساتھ ساتھ مذہبی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے. دنیا کے تمام ہی مذاہب میں نافرمانی اور سرکشی کرنے والوں کو عذاب خدا سے ڈرایا گیا ہے. کبھی یہ عذاب فطرت کی تباہ کاریوں کی صورت میں سامنے آتا ہے تو کبھی جسمانی تکالیف و بیماریوں کی صورت میں. عذاب کا تصورصرف موجودہ مذاہب میں ہی نہیں ہے بلکہ قدیم مذاہب میں بھی یہ تصور ملتا ہے. ہمارے پاس قدیم ترین تاریخ سومیر (عراق یا میسوپوٹیمیا) کی ہے جہاں سیلاب عظیم کی صورت میں دیوتاؤں کی جانب سے انسانوں کو ان کی نافرمانی کی سزا دی گئی. جس میں ایک دیوتاؤں کے فرمانبردار نیک بندے اتناپشتم کے علاوہ سب ہلاک ہوگئے.
قدیم یونانی قصوں میں پنڈورا کے صندوق کا قصہ ملتا ہے جو افلاس، غربت اور بیماریوں سے بھرا ہوا تھا. پنڈورا نے زیوس دیوتا کی نافرمانی کرنے پر اسے انسانوں پر الٹ دیا تھا. نتیجے میں تمام انسان جان لیوا بیماریوں، دکھوں اور غموں کے عذاب کا شکار ہوگئے . یہ عذاب اس وقت تک نہ ٹلا جب تک انسانوں کے نمائندہ پرومیتھیئیس نے زیوس دیوتا سے معافی نہیں مانگ لی.
ہندو مذہب میں بھی انسانوں کو لاحق بیماریوں کو دیوی دیوتاؤں کی ناراضگی سے جوڑا جاتا ہے. خاص کر چیچک کی بیماری کو کالی ماتا کا قہر و غضب کہا جاتا ہے. گھر میں کسی کو چیچک نکلنے پر، جسے ماتا کا آنا کہا جاتا ہے، استغفاری بھجن پڑھے جاتے ہیں اور دیوی کی خوشنودی کے لیے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں.
یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں بھی انسانوں کی سرکشی اور نافرمانی پر عذااب نازل ہونے کا ذکر بارہا بیان کیا گیا ہے. جیسے طوفان نوح، قوم لوط پر آسمان سے پتھروں کے برسنے کا عذاب، قوم عاد و ثمود پر آندھی اور تیز ہواؤں کا عذاب، مصر پر طاعون کا عذاب، پانی کے سرخ اور زہرآلود ہونے کا عذاب، ٹڈیوں کے حملے کا عذاب، فرعون مصر کو دریا میں غرق کرنے کا عذاب اور خانہ کعبہ پر حملہ کرنے والے بادشاہ ابراہہ اور اس کی فوج پر ابابیل کا کنکریاں پھینک کر بھس بنادینے کا عذاب وغیرہ. راسخ العقیدہ افراد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عذاب انسانوں کے لیے پیغام ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے وہ نصیحت حاصل کریں اور خدا کے احکام کو مسترد کرکے سرکشی اور بغاوت کی راہ سے دور رہیں.