اپنے مقام سے کوچ کر کے کہیں اور بس جانا ہجرت کہلاتا ہے اور اس کو اختیار کرنے والے مہاجر کہلاتے ہیں. مہاجر ایک ایسی شناخت ہے جو کسی ایک علاقے یا قوم سے منسوب نہیں ہے. مہاجر صرف ان اُردو بولنے والے لوگوں کی شناخت نہیں ہے، جیسا کہ لوگ عام طور پر پاکستان میں سمجھتے ہیں کہ جو انیس سو سینتالیس (1947) میں تقسیم ہندوستان کے وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے اور بعد ازاں انیس سو اکھتر(1971) میں بنگلہ دیش(مشرقی پاکستان)سے ہجرت کر کے پاکستان آئے.
تاریخ انسانی پر نظر ڈالیں تو ہجرت نسل انسانی کا وہ عمل ہے جس کو ہر دور میں اپنایا گیا. علم آثار قدیمہ اور جدید سائنسی آلات کی بدولت آج ہم بخوبی واقف ہیں کہ زمین پر چونتیس ملین سال پہلے آنے والے آخری یخ بستہ برفانی دور(آئس ایج) میں اسی ہجرت کے عمل نے ہی نسل انسانی کو مٹ جانے سے بچائے رکھاکہ جب زمین کا شمالی حصہ برف سے مکمل ڈھک گیا تو سخت ٹھنڈک کے باعث جہاں بہت سے انسانوں اور جانوروں نے جانیں گنوائیں وہیں بہت سے ایسے پیڑ پودے بھی معدوم ہوگئے جو غذائی ضروریات پوری کرنے کے کام آتے تھے. تب باقی بچ جانے والے انسانوں نے مقدم جانا کہ ان کی بَقا جنوب کی جانب ہجرت کر جانے میں ہی ہے.
ہجرت مستقل بنیادوں پر بھی کی جاتی ہے اور عارضی بھی. انفرادی بھی کی جاتی ہے اور اجتماعی بھی. اختیاری بھی کی جاتی ہے اور جبراً و قہراً بھی. موسموں کی تبدیلی، غذائی قلت و قحط، ناگہانی آفات جیسے سیلاب و زلزلہ اور جنگ و جدل جیسے عوامل عام طور پر ہجرت کا سبب بنتے ہیں. علاوہ ازیں مذہبی بنیادوں پر کی جانے والی ہجرت بھی تاریخ انسانی کا حصہ رہی ہے جو نہ صرف مذاہب کے پیروکاروں کی جان بچانے کا ذریعہ بنی بلکہ مذاہب کے پنپنے میں بھی کارآمد قرار پائی. مثال کے طور پر چودہ سو قبل مسیح میں بنی اسرائیل کی مصر سے کنعان کی جانب ہجرت، دوسری صدی قبل مسیح میں بدھ مذہب کے پیروکاروں کی ہندوستان سے سری لنکا کی جانب ہجرت اور ساتویں صدی عیسویں میں مسلمانوں کی مکٌےسے مدینے کی جانب ہجرت اس بات کا کامل ثبوت ہے کہ ہجرت نے انہیں دوام بخشا.
ہجرت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ روشن خیالی کے دور میں جبری و قہری ہجرت کرنے والوں کی تعداد پھر بھی زیادہ ہے. افغانستان، عراق، شام اور صومالیہ کے رہنے والوں کو جنگ کی آگ میں جھونک کر اپنے ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے تو میانمار کے روہنگا مسلمانوں اور پاکستان (کوئٹے) کے ہزارہ مسلمانوں کو ان کے عقیدوں کی خاطر ہجرت کا بار جبری اٹھانا پڑ رہا ہے.
اقوام متحدہ کے دوہزار پندرہ (2015) کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق: آج دنیا میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ریاست ہائے امریکہ میں آباد ہے. جن کی تعدادسیتالیس ملین بتائی جاتی ہے جبکہ یورپ میں تین ملین کے لگ بھگ مہاجرین بستے ہیں جن میں سے ڈھائی ملین غیر یورپی ممالک کے مہاجرین ہیں.
یہاں تاریخ کی اُس عظیم ہجرت کا ذکر بھی قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جس نے دنیا کی سیاست کو ایک نیا رخ بخشا. یہ ہجرت آریائی قبیلوں کی تھی جو دو ہزار سے پندرہ سو قبلِ مسیح میں وسط ایشیا سے یورپ اور جنوبی و مغربی ایشیا کی جانب کی گئی.
جنوبی ایشیا میں وادی سندھ کی جانب آنے والے آریاؤں کے حالات جاننے کا سب سے بڑا ذریعہ ان کا ویدک ادب ہے جو پندرہ سو سے ہزار قبلِ مسیح کے دوران لکھا گیا. اسی سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرف آنے والے آریائی قبائل وقفے وقفے سے درٌہ خیبر اور درٌہ بولان کے راستے یہاں پہنچے. یہاں ان کا سامنا دراوڑی قوم سے ہوا. جنھیں بہ زور جنگی ہتھیار شکست دیکرآریاؤں نے اپنا غلام بنا لیا اور ان کے تمام علاقے پر قابض ہوگئے.
دراوڑی اپنی سرزمین کو کس نام سے پکارتے تھے، ان کی تحریر اب تک پڑھی نہ جاسکنے کے سبب یہ بات صیغہ راز میں ہی ہے البتہ ویدک ادب کے مطابق: آریائوں نے فتح کے بعد اس علاقے کو دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کی مناسبت سے “سپت سندھو” یعنیٰ سات دریاؤں کی زمین کا نام دیا. جو سندھ کے نام سے آج بھی باقی ہے.
پانچ سوسال تک وادی سندھ میں قیام کرنے کے بعد آبادی میں اضافہ اور غذائی کمی کی بدولت کچھ آریائی قبیلے یہاں سے ہجرت کرکے شمال کی جانب دریائے گنگا و جمنا کی طرف بڑھ گئے. وہاں انہوں نے اپنی ایک مستحکم ریاست قائم کی جسے “آریہ ورت” یعنیٰ آریاؤں کی زمین کہا گیا.
جنوبی ایشیا کے اس خطے کو تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا اعزاز بھی حاصل ہے جو انیس سو سینتالیس (1947) میں تقسیم ہندوستان (قیامِ بھارت و پاکستان) کے وقت کی گئی.اقوام متحدہ کی تنظیم یو این ایچ سی آر کے مطابق: اس تقسیم کے واقعے میں دونوں طرف سے پندرہ ملین سے زائد افراد نے ہجرت کی. بھارت سے ہجرت کرنے والوں میں پنجابی اور اُردو بولنے والے مسلمان شامل تھے جبکہ پاکستان سے پنجابی بولنے والے سکھوں اور سندھی بولنے والے ہندوؤں نے ہجرت کی. پاکستان کی جانب ہجرت کرنے والوں میں اُردو بولنے والوں کی بڑی تعداد نے کراچی کا رخ کیا. اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انیس سو اکیاون (1951ء) میں کراچی کی کُل آبادی،گیارہ لاکھ میں سے پچپن فیصد اُردو بولنے والے مہاجرین تھے. انیس سو ستاون (1957ء) میں ڈاکٹر ایچ ٹی سورلے کی مرتب کردہ کثیر المعلومات گزیٹیئر سندھ میں درج ہے کہ “کراچی اُن ہندوستانی مہاجرین کی اکثریت کی منزلِ مقصود رہا جو شہری زندگی کے عادی تھے”.
قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی چار لاکھ نفوس پر مشتمل تھی.جس میں بڑی تعداد ہندوؤں کی تھی.ان کے علاوہ پارسی، یہودی اور عیسائی بھی قلیل تعداد میں یہاں آباد تھے. تقسیمِ ہند کے بعد ہندوؤں کی بڑی تعداد بھارت ہجرت کرگئی اور بھارت سے چھ لاکھ مسلمان ہجرت کرکے کراچی آگئے. کراچی پاکستان کا دارالحکومت اور بندرگاہ ہونے کے سبب تجارتی مرکز بن گیا جس کی وجہ سے ملک کے بقیہ علاقوں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ روزگار کے لیے کراچی کا رخ کرنے لگے. آج کراچی کی آبادی درج شدہ، سولہ ملین کے قریب ہے جس میں سب سے بڑی تعداد اُردو بولنے والوں کی ہے. علاوہ ازیں کراچی میں ملک کے دوسرے حصوں سے آنے والوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی مہاجرین بھی اچھی خاصی تعداد میں آباد ہیں جن میں افغانی،بنگالی،تاجک، ازبک، ترک، برمی، روہنگا، نائجیریائی، یوگنڈائی اور ایغور(چینی مسلم) شامل ہیں.
کراچی نے مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی سے ایک کثیرالآبادی شہر بننے تک کا سفر یوں کیا کہ سندھ کے ساحلی علاقے میں لیاری ندی کے قریب مچھیروں کی بیس پچیس جھونپڑیاں تھیں جس کا نام ڈربو تھا. بستی کے قریب میٹھے پانی کا ایک تالاب تھا جسے بستی کے مکین “کولاچی جو کن” کہتے تھے. یہی لفظ آگے چل کر پہلے “کولاچی جو گوٹھ” پھر “کولاچی” اور بالآخر “کراچی” میں تبدیل ہوگیا. ڈربو کی بستی کے قریب ہی حب ندی کے کنارے کھڑک بندر نامی ایک بندرگاہ تھی جہاں سے بحرین اور مسقط تک تجارت ہوتی تھی. کھڑک بندر میں تاجروں کی ایک چھوٹی سی آبادی تھی جو بندرگاہ کے، ندی سے بہہ کر آنے والی مٹی سے خراب ہونے کے بعد ڈربو کی جانب ہجرت کرگئی. صاحبِ ثروت ہونے کی وجہ سے نووارد تاجروں نے سترہ سو انتیس (1729ء) میں حفاظت کے لیے بستی کے گرد فصیل تعمیر کروائی اور بستی میں داخل ہونے کے لیے دودروازے بنوائے. جو دروازہ سمندر (بحیرہ عرب) کی جانب کھلتا تھا اس کا نام “کھارادر” اور جو دروازہ لیاری ندی کی جانب تھا اس کا نام “میٹھا در” رکھا گیا. اٹھارہ سو ساٹھ (1860ء) میں برطانوی راج میں فصیلِ شہر اور دروازوں کو ڈھا دیا گیا. گو کہ کراچی میں آج یہ دروازے تو موجود نہیں مگر کھارادر اور میٹھادر کے علاقے اب بھی موجود ہیں اور تاجر برادری کے حوالے سے ہی شہرت رکھتے ہیں.
تاریخی پسِ منظر میں دیکھیں تو پاکستان میں بسنے والی زِیادہ تر قومیں وقت کے کسی نہ کسی دورانیے میں مہاجرین ہی رہی ہیں.یہاں کے قدیم باشندے ہونے کا فخردراوڑی نسل کے لوگوں کو ہے جن کی باقیات بلوچستان اور جنوبی ہندوستان میں آج بھی پائی جاتی ہیں. لیکن مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ دراوڑی بھی وادی سندھ کے اصیل باشندے نہیں تھے بلکہ وہ بحیرہ روم کے مشرقی ساحل سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے. گو کہ یہاں ان کی آمد کے وقت کا تعیٌن نہیں کیا جاسکا ہے مگر موہنجودڑو سے ان کے حاصل ہونے والے ڈھانچے ان کی ہیئیت کی غمازی کرتے ہیں کہ ان کے قد چھوٹے اور سر بڑے تھے، رنگ سیاہ،ناک چپٹی،بال گھونگریالے اور ہونٹ لٹکے ہوئے تھے.
دراوڑیوں کو زیر کرنے والے آریائی قبائل تھے. وادی سندھ میں ان کے طویل تسلط کو چھٹی صدی قبلِ مسیح میں ایران کے ہخامنشی بادشاہ داریوش نے ختم کیااور پورے علاقے کو اپنی سلطنت میں تین صوبوں کے طور پرشامل کرلیا. ایرانی اقتداردو سو سال قائم رہنے کے بعد تین سو ستائیس (327) قبلِ مسیح میں یونانی بادشاہ الیکژنڈر (سکندر) کے ہاتھوں میں چلا گیا. یونانی حکومت کم و بیش سوسال چلی جس کے بعد برصغیر پر یکے بعد دیگرے موری، باختری، ساکا یا سیتھیئن، پارتھی،کشان،ہن،عرب،ترک،افغان،مغل اور انگریز حکومت کرتے رہے.
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان غیر ملکی فاتحین نے خطے میں مختلف النسل انسانوں کو بسانے میں خوب کردار ادا کیا. ہخامنشی بادشاہ داریوش کے دور میں خیبرپختونخواہ کے علاقے دریائے کنہار اور باجوڑ کے علاقے میں ایرانی نژاد اَسپاسی قوم نے اپنی بستی بسائی. اسلام قبول کرنے کے بعد یہ اسپاسی یوسف زئی کہلائے. یونانیوں کا تو وطیرہ تھا کہ وہ جہاں بھی فاتح کی حیثیت سے جاتے مقامی عورتوں سے شادی کرکے اپنی نسل وہاں چھوڑ جاتے تھے. پاکستان میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں یونانی خدوخال(نیلی آنکھیں اور سنہرے بال) کےلوگوں کی موجودگی اس بات کی گواہی دیتی ہے. اسی طرح پنجاب میں بسےداہا اور موگا قبائل اور سندھ کے جاٹ اپنا تعلق ساکائی یا سیتھیئن نسل سے جوڑتے ہیں. جنوبی ایشیا کی مخلوط النسل آبادی میں مسلمان فاتحین کے دور میں بھی بے حد اضافہ ہوا. محمود غزنوی سے لیکر مغل حکمرانوں تک کے دور میں بادشاہ کے مصاحبوں و حکومتی اراکین کے ساتھ ساتھ علماء و فضلا، صوفیاء اور شعراء کی بڑی تعداد نے یہاں ہجرت کی اور پھر یہیں کے ہورہے. مشہور صوفی بزرگ ابوالحسن علی عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش کا شمار بھی ان مہاجرین میں ہوتا ہے جو غزنی (افغانستان) سے ہجرت کرکے لاہور آئے اور یہیں بس گئے.
