76

ہنسی مذاق کرنا اعلیٰ ذہنیت کی نشانی ہے!

کلاس میں بچے اسی استاد کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو ہنستے ہنساتے سبق پڑھاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق مذاق وہ اہم آلہ ہے جو انسان کو چیزوں پر غور وخوص کرنے کی دعوت دیتاہے اوریہ یادداشت کے لئے بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ جن باتوں سے خوشی محسوس ہوتی ہیں وہ زیادہ دیر تک یاد رہتی ہیں۔ مذاق میں ایک دانشمندانہ لطافت ہے جس کے لئے اعلیٰ ادراکی بلندی درکار ہے۔ مزاح کے لئے عقل کے گھوڑے دوڑانے پڑتے ہیں۔یہ تفہیم اور ذہانت کی عمدہ نشانی فراہم کرتی ہے۔مزاح کو سمجھنے کے لئے عقل و شعور پر زور دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ سطعی معنی کو نظر انداز کرتے ہوئے گہرائی میں جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو بات ظاہر نہیں اسے تلاش کرنی پڑتی ہے۔
مذاق سے لطف اندوز ہونے میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔ جوانسان اعلیٰ دانشمندی کا مالک ہے وہ آسانی سے ایک کڑی کو دوسری کڑی سے جوڑ پاتا ہے۔ بات کو کامیابی سے ایک مطلب سے دوسرے مطلب تک لے جا کر حیرانی کا عالم پیدا کرتا ہے۔ مذاق کرنا بھی ایک فن ہے۔ مذاق کے لئے زبان پر مضبوط گرفت ہونا ایک اہم شرط ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ اپنی روزمرہ زندگی میں مزاح کا عنصر تلاش کرنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔ جبکہ نوجوانوں میں یہ صلاحیت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ زندگی کے پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنے کے تجربات بڑوں کے لئے راحت کا سامان تلاش کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ مرد مذاق کرتے وقت اپنی قوت تخلیق کا زیادہ استعمال کرتے ہیں جبکہ خواتین حالات پر قابو پانے کی کوشش میں مزاحیہ پہلو کا سہارا لیتے ہیں۔ مردوں کے مقابلے خواتین معاشرے میں ہنسی مذاق کازیادہ استعمال کرتی ہیں۔ بہر کیف اپنے روزمزہ حالات میں خوشی تلاش کرنے میں نفسیاتی تسکین ملتی ہے۔ دماغ مثبت چیزوں کی طرف راغب ہوتا ہے۔ ہم خود کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ پاتے ہیں۔ ہمارے جذبات زیادہ مستحکم رہتے ہیں۔ لوگوں سے ملاقات کرتے وقت ہنسی مذاق سے اچھی صحبت رہتی ہے اور دوسروں سے گھلنے ملنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ مزاح و مذاق صحت مند رشتوں کی بنیاد تعمیر کرتا ہے۔ اس طرح تناؤپاس نہیں آتا۔ مایوسی اور منفی سوچ کا علاج لطیفوں اور چٹکلوں سے کیا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک خوشحال زندگی میں ہنسی مذاق کا ہونا ضروری ہے۔
یوں بھی دنیا میں کتنے غم ہیں۔ ان دنوں کرونا وائرس نے پوری دنیا کو پریشان کردیا ہے۔ سارا کاروبار بند ہے۔ انسان گھر میں بند دیواروں سے باتیں کرنے لگا ہے۔ اس غیر معمولی اور تناؤ کن صورتِ حال میں گھر کے افراد کے درمیان تو تو میں میں کا ہونا عام بات ہے۔ بچے سارا وقت شور مچارہے ہیں۔ ان کو مصروف رکھنے کی کوشش میں والدین کا برا حال ہورہا ہے۔ ان تمام باتوں سے آدمی پریشان ہو رہا ہے۔ لیکن دکھ اور تکلیف میں ہنسی مذاق کو ملایا جائے تو زندگی میں رونق آجاتی ہے۔
تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ ہر چیز میں مزاح کا پہلو تلاش کرنے سے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے۔ بدلتے ماحول اور حالات کا سامنا کرنے کی قوت تیزتر ہوجاتی ہے۔ خردمند لوگ ماضی کی معلومات کو بروئے کار لاتے ہوئے نئے نتائج اخذ کرپاتے ہیں۔ نئی منزل تک پہنچنے میں وہ بہترین طریقہ اپناتے ہیں۔ اس سے ان کی ذہنی پختگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور وہ الگ الگ ذاویے سے اپنا راستہ تلاش کرلیتے ہیں۔
پیشہ وارانہ ماحول میں حالات سے تناؤ کو دور کرنے کے لئے مالک اکثر ہنسی مذاق سے بات چیت کا رخ بدل ڈالتے ہیں۔ جو الفاظ سے کھیلنا جانتا ہے وہ اس فن سے دلوں کو جیت لیتا ہے۔ تناؤ کن ماحول سے نجات پاتا ہے۔ معاشرے میں پشیمانی سے بھی بچ جاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے جن لوگوں نے ایسے گھروں میں پرورش پائی ہے جہاں انہیں کھل کر ہنسنے سے روکا جاتاتھا وہ بڑے ہوکر سنجیدگی کی قید سے باہر نہیں نکل پاتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر افسردگی میں پھنس جاتے ہیں۔
اردو ادب میں طنز و مزاح ایک مقبول صنف ہے جو ہنسی مذاق کی آڑ میں گہرے معنی کی طرف اشارہ کرتاہے۔ کئی شعراء کی بزلہ سنجی بھی مشہور ہے جن میں مجازؔ اور اقبال ؔقابل ذکر ہیں۔ ایسے مایہ ناز شعراء اپنے کلام کے عمیق معنی کی بدولت زندہ جاوید ہوگئے۔ قفل بندی کے دنوں میں کیوں نہ ان معروف ادیب اور شعراء کی صحبت سے فیض اٹھایا جائے! مسکرانا سنت ہے اور ایک صدقہ بھی۔ آخر اسی طرح زندگی کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں