ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ قلوپطرہ کے دادا کی طبیعت خراب ہوگئی۔ اسے فلو ہو گیا تھا۔ دو ایک روز میں جب اس کی کھانسی کم ہونے کی بجائے بڑھنے لگی تو قلو پطرہ اسے ڈاکٹر کے پاس لیکر گئی۔
ڈاکٹر نے اسے آنٹی بائیوٹک لکھ دیا اور خوب آرام و احتیاط کرنے کو کہا۔ ساتھ میں اس کے خون اور تھوک کا تجزیہ کرنے کے لیے نمونے بھی لیے۔
قلوپطرہ کو اندازہ نہ تھا کہ ڈاکٹر کیوں اس قدر جتن کررہا ہے اور معمولی سی کھانسی بخار کو کیوں اس قدر اہمیت دے رہا ہے۔
دنیا اُس وقت کورونا وبا سے صرف اتنی واقفیت رکھتی تھی کہ چین پر اس وائرس کی مصیبت آئی ہوئی ہے۔
چار دن بعد جب ٹیسٹ رپورٹ آئی تو ڈاکٹر کا شک درست نکلا. تھامس پر کورونا وائرس کا حملہ ہوا تھا اور اسے سخت احتیاط کی ضرورت تھی۔ قلوپطرہ بہت پریشان ہوگئ۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر گھر میں بند الگ تھلگ رہنے کا مشورہ دیا اور یہ بھی کہا کہ قلوپطرہ سمیت کوئی بھی تھامس سے ملنے نہ جائے۔ یہ بڑی عجیب و غریب پابندی تھی۔ عام طور پر بیماریوں میں انسان اسپتال میں رہتا ہے تو وہاں اس کے عزیز واقارب اس سے ملنے آتے ہیں جس سے انسان کی ڈھارس بندھتی ہے۔ مگر یہ عجیب و غریب بیماری تھی کہ اس میں قید تنہائی کی سزا مل رہی تھی۔ تھامس کے ساتھ اس کے پاس پڑوس اور محلے کے کئی ایک بوڑھے کورونا مرض کا شکار ہو چکے تھے۔
جب وبا ایک دم پھیلنا شروع ہوئی تو عوام اور حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ وبا تیزی سے یوں پھیل رہی تھی کہ ہر ایک فرد تین مذید افراد میں یہ مرض پھیلانے کا باعث بننے لگا۔ اس بیماری کے اثرات سب سے زیادہ ضعیف اور ایسے افراد میں نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔ جن میں بیماری سے دفاع کا نظام کمزور تھا۔ لومبارڈی سمیت کمپانین کا علاقہ کورونا مرض کا گڑھ بن چکا تھا۔
اس رات تھامس نے اپنی پوتی کو فون کیا:
” قلو مجھے سانس لینے میں سخت تکلیف ہورہی ہے” تھامس نے بری طرح کھانستے ہوئے اپنا جملہ مکمل کیا۔۔۔۔
” تھامس تم پریشان مت ہو میں ایمبولینس بلاتی ہوں اور پھر تمہاری طرف آتی ہوں” قلو پطرہ بولی۔
” نن ۔۔۔نہیں تم ۔۔تم مت آو۔۔۔” تھامس اس سے آگے نہ بول سکا۔
قلو پطرہ نے ایمبولینس کو فون کیا اور دادا کی بگڑتی صورتحال کا بتانے لگی۔
تمام نام پتہ لیکر، ایمبولینس کے عملے نے قلو پطرہ سے کہا کہ وہ اپنے فلیٹ کے نیچے آکر ان کا انتظار کرے اور اگر اس کے دادا کے گھر کی چابی اس کے پاس ہو تو لیتی آئے۔
قلو پطرہ چاہتے ہوئے بھی دادا کے گھر نہ جا سکی۔
وہ گرم کوٹ پہن کر باہر نکلنے لگی تو ہوان دروازے کے سامنے اس کا راستہ روکے کھڑا تھا۔
” تم اس وقت کہاں جارہی ہو۔”؟ اس نے نیند بھرے لہجے میں قلو پطرہ سے سوال کیا۔
” وہ وہ دادا کی طبیعت بہت خراب ہے اور مجھے اسے اسپتال لے جانا ہے۔” قلو پطرہ ایک طرف ہو کر نکلنے کی کوشش کر نے لگی۔ مگر ہوان اسے باہر جانے دینے سے روکتے ہوئے پھر بولا۔۔۔۔۔
“مم مگر تم تھامس کے پاس کیسے جاسکتی ہو۔ یہ مرض بہت جلدی ایک سے دوسرے کو لگ جاتا ہے۔ تم ایمبولنس بلاو۔”
” ہاں وہی کر رہی ہوں۔ تم مجھے جانے دو” قلو پطرہ تیزی سے بولی اور پھر روہانسی آواز میں دھیرے سے بڑبڑائی “آہ میرے پیارے تھامس میں تمہاری اس مشکل گھڑی میں تمہارا سر سہلانے سے بھی قاصر ہوں”۔
اور پھر ہوان کو مخاطب کر کے بولی: “میں ایمبولینس کے ڈاکٹر سے مل کر اسے تھامس کی چابی دوں گی اور وہ لوگ تھامس کو لیکر جائیں گے”۔ اتنا کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔
ایمبولینس والوں نے چابی لیکر قلوپطرہ کو واپس جانے کا کہہ دیا۔ وہ خود ہی تھامس کو اسپتال لے جانا چاہتے تھے۔
قلو پطرہ واپس اپنے فلیٹ چلی آئی اور کھانے کے کمرے سے تھامس کے گھر کو ٹکٹی باندھے دیکھنے لگی۔
ایمبولینس ذرا سا چل کر تھامس کے گھر کے سامنے رک گئی تھی اور اس کا مستعد عملہ گھر میں داخل ہو چکا تھا۔
قلوپطرہ کھڑکی سے لگی دیکھتی رہی چند منٹوں بعد ہی ایمبولینس کے عملے کے دو افراد تھامس کو پکڑ کر دروازے تک لے آئے تھے اور وہ اسے ایک پہیوں والی کرسی پر بٹھا رہے تھے۔ پھر وہ لوگ اسے ایمبولینس میں بٹھا کر ابتدائی طبی امداد دیکر اسپتال روانہ ہوگئے۔ اسپتال میں تھامس کی حالت مذید خراب ہوئی تو اسے اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں داخل ہونا پڑا۔ تھامس کے پھیپھڑے تیزی سے متاثر ہوتے ہوئے، سانس لینے کے عمل کو چھوڑ رہے تھے۔
اسپتال سے ایک نرس روز فون پر قلوپطرہ کو تھامس کی طبیعت کی آگاہی دیتی اور قلوپطرہ کو سختی سے منع کرتی کہ وہ اسپتال نہ آئے۔
اطالیہ میں روز بروز کورونا کی وبا میں مبتلا افراد کا اضافہ ہورہا تھا۔ اسکول بند کر دیئے گئے تھے اور ایسے میں ایک دن ہوان نے قلوپطرہ کو یہ خبر سنا کر اس کے اوسان خطا کر دیئے۔کہ وہ ،ہوان، سوئل واپس جانا چاہتا ہے۔ وہ اپنے وطن میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتا تھا۔ پھر یہ کہ اس کے اطالیہ کے کاغذات بھی ابھی پوری طرح مکمل نہ ہوئے تھے. ہوان کو پاس پڑوس کے لوگ مشکوک نظروں سے بھی دیکھتے تھے۔ اطالیہ پوری طرح سے وبائی مرض میں جکڑا جا چکا تھا اور وبا کے پھیلنے سے لوگوں میں افواہیں بھی پھیل رہی تھیں۔ لوگوں میں یہ چہ میگوئیاں ہورہی تھیں کہ یہ وبا چینی سیاحوں کی وجہ سے اطالیہ میں پھوٹ پڑی ہے. ان سب حالات کے پیش نظر ہوان سمجھتا تھا کہ اس کا اس وقت سوئل چلے جانا ہی بہتر ہے۔
ہوان کے چلے جانے سے قلوپطرہ بالکل تنہا رہ گئی تھی۔ اس کا دادا بدستور اسپتال میں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں مقید تھا۔ کبھی وہ خود اسپتال فون کرتی کبھی اسے اسپتال سے فون کرکے اطلاع دی جاتی کہ اس کا دادا اب بھی زندہ تو ہے مگر زندگی اور موت کی سرحد پرجنگ آزمائی کا شکارہے۔
لومباڈی، کمپانین اور میلان سمیت جنوبی اطالیہ کے تمام علاقے آفت زدہ قرار دیئے جاچکے تھے۔ اسپتال مریضوں سے پٹے پڑے تھے۔ ان میں مریضوں کو رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ یہاں وبا سے تقریبا” ساٹھ سے ستر فیصد افراد متاثر ہو چکے تھے. شرح اموات آٹھ فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ علاقے میں کہرام مچا تھا۔
لوگوں کو دوسری جنگ عظیم کا دور دورہ یاد آگیا تھا۔
قلوپطرہ اپنے دونوں چھوٹے بچوں کے ساتھ بے حد پریشان تھی۔
ایک دن صبح ہی صبح قلوپطرہ کے سابقہ دوست نے اسے فون کیا وہ بچوں کی خیریت جاننا چاہتا تھا۔ اس نے لومبارڈی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بچوں کو ببریا لے جانے کی خواہش ظاہر کی جسے قلوپطرہ نے بخوشی مان لیا۔
فون بند کر کے اس نے بچوں کی آیا سے کہا کہ وہ بچوں کو تیار کردے. ان کا سامان باندھے اور خود بھی بچوں کے ساتھ مائیکل کے یہاں چلی جائے۔ کم از کم دو ہفتے بچے اور وہ وہیں رہیں گے اور باقی کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ چند گھنٹوں بعد ہی مائیکل بچوں کو لینے آگیا۔ قلوپطرہ بچوں اور آیا کو نیچے چھوڑنے آئی۔ بچے خوشی خوشی مائیکل سے مل رہے تھے اور آیا انہیں گاڑی میں بٹھانے لگی تھی۔ مائیکل نے ہوان کو موجود نہ پا کر قلوپطرہ کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دے ڈالی۔
قلوپطرہ نے صرف پر نم آنکھوں سے مائیکل کو دیکھا اور بولی کچھ نہیں۔ چلتے وقت جب مائیکل نے اس سے دوبارہ سا تھ چلنے کی درخواست کی تو وہ بولی:
” تم جانتے ہو میں تھامس کو اس جان کنی کی حالت میں چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔ تم جاو بچوں کا بہت خیال رکھنا۔”
” میں نے میونخ کے ایک اسپتال میں گرینڈ پا کے علاج معالجے کی بات کی ہے۔” مائیکل بولا ” اگر تم چاہو تو میں انہیں فوری طور پر ایک طبی ہیلی کاپٹر کے ذریعہ میونخ منتقل کروا سکتا ہوں۔ اخراجات کی تم پرواہ مت کرو”۔
” نہیں یہ بات نہیں۔ تھامس کی طبیعت کچھ سدھرے تب ہی ایسا سوچا جا سکتا ہے۔ اس پر عمل تب ہی ہوگا جب تھامس ایسا کرنے پر رضامند بھی ہو”۔ قلوپطرہ کی آواز گلو کیر ہوگئی۔ مائیکل اسے دلاسہ دیتا رہا اور پھر وہ بچوں کو لیکر روانہ ہوگیا۔
قلوپطرہ اوپر اپنے فلیٹ میں چلی آئی۔ اس کا دل بہت اداس ہورہا تھا. بچوں کے چلنے جانے سے وہ خود کو بالکل تنہا محسوس کررہی تھی۔
اس نے گھبرا کر ہوان کو فون لگایا۔ گھنٹی بجتی رہی۔ کئی بار فون کرنے کے باوجود وہ صرف گھنٹی بجنے کی آواز سن سن کر مذید الجھ گئ۔
اسے اچانک محسوس ہوا کہ اس کے کانوں میں فون نہیں بلکہ اس کے اپنے محلے کے چرچ کی گھنٹیوں کے بجنے کی آوازیں آرہی ہیں۔
وہ اٹھ کر کھڑی کے پاس آگئی۔ سچ مچ چرچ کی گھنٹی بج رہی تھی۔ چرچ کی گھنٹی کا یوں بجنا پھر کسی موت کا سوگ منانے کی علامت تھا۔ نیچے کفن دفن کرنے والی ایک گاڑی ٹھیک وہیں کھڑی تھی جہاں چند گھنٹے قبل مائیکل نے اپنی کار کھڑی کی تھی۔
قلوپطرہ نے ایک موم بتی تلاش کی اور ماچس سمیت اسے لیکر نیچے اتر آئی۔۔۔۔۔۔
اس نے چرچ کی طرف جاتے ہوئے میت گاڑی پر نگاہ ڈالی۔ کفن دفن کا عملہ کسی کی لاش کو گاڑی میں ڈالا رہا تھا۔ دونوں افراد ایک خلائی مخلوق کو پہنائے جانے والے لباس میں ملبوس تھے۔ ان کے سر اور چہرے بھی کسی ہیلمٹ اور اس کے ماسک سے ڈھکے ہوئے تھے۔ قلوپطرہ کو داخلی دروازے پر دیکھ کر دونوں افراد نے صرف ہاتھ کے اشارے سے اسے قریب آنے سے روک کر وہاں سے فوری طور پر جانے کا کہا. قلوپطرہ جان نہ سکی کہ کس کی موت ہوئی تھی۔
وہ بوجھل قدموں سے چل کر چرچ تک آئی۔ چرچ کا دروازہ مقفل تھا مگر گھنٹی بدستور بج رہی تھی۔ وہاں پر کئی لوگ تھوڑا فاصلہ رکھتے ہوئے چرچ کی سیڑھیوں پر موم بتی جلا کر رکھتے جاریے تھے۔ قلوپطرہ بھی قطار میں لگ کر انتظار کر نے لگی. گو اس کے آگے صرف تین ہی فرد کھڑے تھے مگر سماجی دوری کا بھوت انہیں ایک دوسرے سے قریب آنے سے روک رہا تھا اور معانقہ جو ایسے موقع پر کیا جاتا تھا۔۔۔۔۔قصہ پارنیہ بن چکا تھا۔
