38

Be victor not a victom

معاشرہ اس وقت تک پروان نہیں چڑھ سکتا جب تک انصاف قائم نہ ہو ۔۔۔۔حق داروں کو انکا حق ،ظالم کو سزا اور مظلوم کو انصاف نہ ملے۔۔۔ہر چیز کو روز محشر پر ڈال کر اپنے آپ کو اذیت دینا اور اپنے لیے آواز بلند نہ کرنا بھی ظلم ہے۔۔۔زندگی میں ہر انسان کہیں نہ کہیں ظالم ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا روز محشر ہم سب کا حساب ہوگا پھر تو کسی کہ حصے کچھ نہیں آنے والا ۔۔۔۔جب تک مظلوم ظالم کا ظلم سہتا رہے گا نہ تو حالات بدلیں گے نہ زندگی۔۔۔اس لیے اپنے حصے کا دیا جلائیں۔جو جسکا حق ہے اسے دیں اور معاشرے کا یہی حق ہے اس میں انصاف ، ایمانداری اور نیک نیتی کو پروان چڑھایا جائے۔۔۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ آپ پر ظلم کرے نہ آپکو یہ حق حاصل کہ آپ مظلوم بنیں اور خود پر ظلم کریں اللہ پاک کہ ہاں تو پھر سب مجرم ٹھہرے۔۔۔ اس لیے اپنے حصے کا دیا جلائیں معاشرے میں اپنی طرف سے ایک وکٹر یا فاتح کی کہانی پیدا کریں نہ کہ مظلوم کی اس لڑی کو مل کر توڑیں تاکہ معاشرہ سنورے نہ کہ بگڑے ۔۔لیکن افسوس ہم نے کبھی مظلومیت کو ختم کرنے کی تربیت ہی نہیں دی ہم غلط عقائد و نظریات پر چلتے آرہے ہیں جو ہمارا ناقص اور فقدان علم کا نتیجہ ہے ۔۔۔ معاشرتی برائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ عزتیں غیر محفوظ ہوتی جارہی ہیں ۔ حقداروں کا حق کھایا جارہا ہے کھانے والاسوچتا ہے وہ اپنی جگہ درست ہے دینے والا روز آخرت پر ڈال دیتا ہے یہ کیوں نہیں سوچتا کہ وہ خود کیا کررہا ہے وہ زیادہ ظالم قرار پائیگا کیونکہ وہ اپنی اس تکلیف کو منتقل کررہا ہے ۔یہاں بھی یہی وراثتی سلسلہ ہے جو ایک نسل در نسل چلتا رہے گا لیکن کسی ایک کو تو قدم اٹھانا پڑے گا۔ اگر چور چوری کرتا رہے کبھی پکڑا نہ جائے تو وارداتیں بڑھتی جائیں گی ۔چور ہی پیدا ہونگے اسے پکڑ لیا جائے سزا دی جائے تو اس میں کمی آجائے گی لیکن ایسا کہاں ہوتا ہے ۔ایک زانی کو عبرت ناک موت دی جائے دوسرے کے لیے کہانی بن گئی لیکن یہاں نہ سزا ملتی نہ عبرت مجرم بڑھتے جارہے ہیں ۔ ایک عورت کے ساتھ اگر ظلم ہوا ہے دوسری عورت چاہے ہر عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو اور ہوتا بھی ایسا ہے ایک کی غلطی کسی معصوم کو بھگتنی پڑتی یہ پھر تو لڑی سے لڑی ملتی جائے گی معاشرتی برائیاں روز بہ روز جنم لے رہی ہیں ۔ ہمارے ہاں ایک بہت بڑا مسئلہ درکار ہے وہ ہے غلط عقائد ،بے خوفی ، بے حسی ،بے مروتی اور ان سب کو تھوپ دیا جاتا ہے اسلام و مذہب پر۔دوسرا مسئلہ ہے ڈر و خوف ،ذہنی انتشار،بے اعتمادی،احساس کمتر ۔اسکے بعد اپنے مطلب کی حدیث اور تدریس کو پیش کر کہ اپنا سکہ چلایا جاتا ہے ۔یہ سب تب تک چلتا رہے گا جب تک کوئی ایک قدم نہیں اٹھائے گا ۔مرد اپنی جگہ مظلوم اور عورت اپنی جگہ۔ اصل کہانی ہی مرد و عورت کی ہے باقی رشتے تو بعد میں بنتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ بنتے بھی ان دو سے ہی ہیں۔اب کرنے کا کام یہ ہے یہ انصاف لایا جائے کہیں حق دے کر کہیں لے کہیں۔ محبت دیکر لیکر ،عزت دیکر لیکر، کام تو محنت طلب ہے لیکن ایک نسل کی مثبت کاوش آنے والی ہزار نسلوں کو سنوار سکتی یے سب اسی دھن میں ہیں کہ ہم ٹھیک ہیں دوسرا غلط ہم ایمان دار ہیں دوسرا بے ایمان، ہم انصاف پسند اور رب سے بھی انصاف مانگ رہے ہوتے ہیں لیکن ایک بات کی سمجھ نہیں آتی اس رب کو مان لیا لیکن اسکی بات،اسکے احکام نہیں مانے،اسکے رسول کی محبت کے چرچے کرلیے پر محبت نہیں کی جب تک یہ تضادات ہماری زندگی سے نہیں نکلیں گے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اور آگے بڑھنے کے لیے قربانی دینی پڑے گی اپنے نفس کی، جذبات کی، محبت کی، رشتوں کی تب ہی حالات میں سدھار ممکن ہے۔اصل ضربانی کے ضمیر کی اسے جگالیا جائے تو خود ںخود حکم خداوندی پر نظرثانی و کوشش کی جاشکتی ہے۔ہمیں دل و دماغ اور عمل سے رب العالمین اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ماننا پڑے گا انکے احکام کی پیروی اور مشق کرنی پڑے گی ۔یہاں ہر کوئی ظالم و مظلوم ہے پر ماننے کو تیار نہیں۔ رب ہم سب پر اپنا کرم و فضل فرمائے اور ہمیں ہدایت کے رستے پر چلنے کی توفیق دے ۔خوش رہیں اور دوسروں کو رکھیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں