یہ حقیقت ہے کہ ہماری دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ایسا نہیں جو رسوم و رواج سے خالی رہا ہو.البتہ یہ اور بات ہے کہ اگر ہم ان معاشروں کا تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ان میں رائج بہت سے رسوم ورواج کسی عقیدے کے تحت نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی وجہ سے معاشرے کا حصہ بن گئےہیں .
اُردو لغت میں رسم و رواج کے معنی طور طریقے، ریت، چلن یا دستور کے ہیں جبکہ اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ انسانی معاشرے میں مشترکہ طور پر کیے جانے والے وہ اعمال جو علاقے، تہذیب اور مذہب سے منسلک ہوں رسم و رواج کہلاتے ہیں.
ماہرین سماجیات کا ماننا ہے کہ انسانی معاشرے میں رسم ورواج کی ابتدا اس وقت سے ہوئی جب اولین انسانوں نے گروہ کی صورت میں سماجی زندگی کی بنیاد رکھی اور مشترکہ فوائد حاصل کرنے اور نقصانات سے بچنے کے لئے کچھ اصول بنائے.ان میں سے کچھ اصول آپس کے تعلقات سے متعلق تھے. مثلاً ایک دوسرے کی خوشی و غمی کو بانٹنا، مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرنا وغیرہ. اور کچھ اصولوں کا تعلق مذہبی معاملات سے تھا.مثلاً قدرتی آفات سے بچنا، بہترین شکار حاصل کرنا ، لڑائی یا جنگ میں دشمن سے کامیابی حاصل کرنا.افریقہ، ایشیا اور یورپ میں غاروں اور چٹانوں پر انسانی ہاتھوں سے بنائے گئے بہت سے تصویری نقش ملے ہیں جن کے بارے میں ماہرین آثار کا خیال ہے کہ یہ نقوش قدیم معاشرے میں کی جانے والی مذہبی رسومات کی نشاندہی کرتی ہیں خاص طور پر فرانس کے تروئیس فریرس کے غاروں میں بنی تصویر جس میں مذہبی قائد یا شامن کو شکار کے لئے رسم ادا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے.
انسانی آبادی کے پھیلاؤ نے جہاں انسانوں کو ایک جگہ سے ہجرت کرکے دوسری جگہ پہنچادیا وہیں ساتھ ساتھ رسم و رواج کو بھی ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں پنپنے اور پروان چڑھنے کا موقع ملا. کبھی تو ان رسم ورواج کو فریقین کی باہمی رضامندی سے ایک نئے معاشرے میں قبول کرلیا جاتا اور کبھی جبری مسلط کردیا جاتا.ہمارے پاس اس کی بہترین مثال خطہ برصغیر میں آریائی قبیلوںکی ہجرت کی ہے . جو دو ہزار قبل مسیح میں وسط ایشیا سے ہجرت کرکے وادی سندھ کی جانب آئے اور طاقت کے زور پر یہاں کی مقامی دراوڑی قوم کو شکست دیکر پورے علاقے کے حکمران بن بیٹھے مگر تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ علاقائی حکمرانی کے باوجود آریائی لوگ دراوڑی عقائد کو شکست نہیں دے سکے . بلکہ وادی سندھ میں بسنے اور دراوڑیوں سے میل جول کے بعد آریاؤں نےرفتہ رفتہ اپنے عقائد فراموش کردیئے اور ان کی جگہ دراوڑی عقائد کو دے دی.جسے ہم آج بھی ہندو مذہب اور ہندو معاشرے میں غالب دیکھتے ہیں.
برصغیر کی جانب آنے سے قبل آریاؤں میں بت پرستی کا رواج نہیں تھا. وہ مظاہر فطرت کو دیوتاؤں کا نام دیکر اپنے ان دیکھے خداؤں کی عبادت کرتے تھے جو کہ سارے کے سارے مرد تھے.دیوی پوجا کا کوئی رجحان ان میں نہیں تھا. دراوڑیوں سے میل جول کے بعد انہوں نے اپنے دیوتاؤں کو چھوڑ کر ان کے دیوتا شیو اور دیوی درگا ماتا کا تصور اپنا کر بت پرستی کا آغاز کیا. آریائی عقائد میں گوشت کھانے پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں تھی بلکہ گوشت ان کی پسندیدہ ترین غذا شمار ہوتی تھی اور دیوتاؤں کےحضور بھی جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی.وادی سندھ میں بسنے کے بعد انہوں نے پہلے گوشت کھانا ترک کیا اور پھر اسے حرام قرار دے کر گائے کو مقدس مان لیا.
گو کہ آریائی معاشرہ مردانہ حاکمیت کا تصور رکھتا تھا مگر عورتوں کے معاملے میں اتنی تنگ نظری نہیں دکھائی جاتی تھی جتنی بعد کے ہندو مذہب میں دیکھی گئی. آریائی معاشرے میں عورتوں کو بہت سے حقوق مردوں کے برابر حاصل تھے. وہ نہ صرف مذہبی عہدوں پر فائز کی جاتی تھیں بلکہ انہیں اپنے فیصلے کرنے اور دوسری شادی کرنے کا حق بھی حاصل تھا.وادی سندھ میں بسنے کے بعد مردوں کی اہمیت بڑھتی گئی اور عورتوں کی اس قدر گھٹی کہ نوبت یہ ہوگئی کہ عورتوں کی زندگی مردوں کے مرہون منت ٹہرا دی گئی. یعنی شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو بھی اس کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا جسے ستی کہا جاتا تھا. یا پھر انہیں ساری زندگی خوشیوں سے دور تنہا رہ کر بیوگی کی زندگی گزارنی پڑتی تھی. اب اگرچہ ستی کی رسم ختم ہوچکی ہے مگر عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اب بھی جاری ہے.
برصغیر میںغیر ملکیوں کے آنے کا جو سلسلہ دوہزار قبل مسیح میں آریاؤں کی آمد سے شروع ہوا تھا وہ سولہ سو عیسویں میں برطانوی حکمرانوں کے آنے تک جاری رہا.ان دو کے درمیان اس خطے میں عرب، ایرانی، یونانی، ترک، چینی اور افغانی یکے بعد دیگرے آئے . فطرتی طور پر یہاں کے مقامی لوگوں نے باہر سے آنے والی ان تہذیبوں کا اثر قبول بھی کیا اور ان کو اپنی تہذیب سے متاثر بھی کیا. ان تمام میں یونانی اور مسلمان نمایاں نظر آتے ہیں جن کا اثر برصغیر کے مقامی لوگوں پر پڑا.
برصغیر میں یونانیوں کے سوسالہ اقتدار نے اس علاقے کو فن مجسمہ سازی، کلینڈر سازی، سکہ سازی، علم ہیئیت و نجوم کے ساتھ ساتھ فن اسٹیج و ڈرامہ سازی بھی عطا کی. ان کے دور ، 330 قبل مسیح میں ٹیکسلا اور سیالکوٹ میں ڈرامہ کمپنیاں قائم کی گئی تھیں جن میں عوام کے لئے یونانی طرز کے ڈرامے( المیہ، طربیہ اور ہجو) پیش کیے جاتے تھے. پاکستان میں اسٹیج ڈراموں میں ہنسنے ہنسانے اور لوگوں کا مذاق اڑانے اور ہجو بنانے کی روایت اب بھی ہے جو یونانیوں کی دین ہے.
مگر اتنے برس حکمرانی کے باوجود یونانی تہذیب نے برصغیر کے لوگوں کی روزمرّہ زندگی میں کوئی خاص اثر نہیں ڈالا. ایسا بھی نہیں تھا کہ یونانیوں کا مقامی لوگوں کے ساتھ میل جول نہیں تھا. جہاں سکندر کی فوج کے بہت سے افسروں اور سپاہیوں نے مقامی عورتوں سے شادیاں کیں وہیں مقامی راجاؤں نے بھی یونانی خاندانوں میں شادیاں کیں.کہا جاتا ہے کہ ریاست مگدھ کے حکمران چندر گپت موریہ نے سکندر کے جرنیل سلیوکس کی بیٹی سے شادی کی جس سے اس کا جانشین بندوسارا پیدا ہوا.مگر اس میل جول کے باوجود برصغیر میں یونانی تہذیب کے اثرات صرف شکل و صورت تک ہی نظر آتے ہیں کہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں یونانی ناک نقشے کے لوگ اب بھی موجود ہیں. اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے رہن سہن، بول چال، آداب و اطوار، لباس و پہناؤں اور کھانوں کا اثر برصغیر کے معاشرے کے ہر طبقے نے قبول کیا.یقیناً اس کی سب سے بڑی وجہ رواداری کا رویہ تھا جسے چند ایک کے علاوہ زیادہ تر مسلم حکمرانوں نے اپنایا.
711ء میں سندھ کی جانب آنے والے پہلے مسلم حکمران محمد بن قاسم نے رواداری کی طرح ڈالی. اس نے فتح سندھ کے بعد ہندو مذہب سمیت علاقے میں موجود عیسائی ، یہودی اور پارسی مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی دی اور ان کے جذبات کا ہر طرح خیال رکھا. اس نے گائے کی قربانی بند کروادی تاکہ ہندوؤں کی دل آزاری نہ ہو.یہاں تک کہ اس نے ہندوؤں کو ذمی قرار دیا جن کی جان و مال اور عبادت گاہوں کی حفاظت مسلمان حاکم پر فرض ہوتی ہےجبکہ شرع اسلامی کے مطابق ہندو ذمی کے حقدار نہیں بلکہ کافروں کی صف میں شمار ہوتے تھے.
1526 ء میں برصغیر میں برسر اقتدار ہونے والے مغل حکمرانوں نے رواداری کے مظاہرے کو اس بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر پیش کیا. انہوں نے نہ صرف ہندو عورتوں سے شادیاں کیں بلکہ اپنے قلعوں اور محلوں میں ہندو تہواروں راکھی، ہولی، دیوالی اور دسہرہ منانے کی اجازت بھی دی.ساتھ ہی انہوں نے مسلم تہواروں میں بھی ہندوآنہ رسموں کی شمولیت کو قبول کیا.جیسے شب برآت میں دیئے جلانا اور آتش بازی کرنا. پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر ،جس کو برصغیر کی سرزمین اور اس کے باشندے سخت ناپسند تھے اور اس نے بابر نامے میں اس کا اظہار بھی برملا کیا،مگر اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے وہ نہ صرف رواداری کا خود حامی رہا بلکہ اس نے اپنے جانشین ناصر الدین ہمایوں کو بھی اپنی وصیت میں اس پر سختی سے کاربند رہنے کی تاکید کی.
اورنگزیب عالمگیر جوتاریخ برصغیر میں ایک سخت گیر مسلمان حکمران کے طور پر جانا جاتا ہے اور جس نے برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے لئے اپنوں اور غیروں کی بڑی مخالفتیں مول لیں. اس نے بھی رواداری کی پالیسی کو ایک حد تک اپنائے رکھا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ برسر اقتدار رہنے کے لئے یہ لازمی گُر ہے. کہتے ہیں کہ اسی لیے اس نے بھی اپنے جد جلال الدین اکبر کی مانند ہندو عورتوں بائی اودیپوری اور رانی پاربتی سےشا دیاں کیں. جس کی وجہ سے اسے ہندوؤں کی حمایت حاصل ہوئی.
مغلوں کے ان اقدامات سے برصغیر کے مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں گرچہ کوئی تبدیلی نہیں آئی مگر سماجی طور پر انہوں نے ہندو معاشرے کا بہت اثر لیا اور ان کے بہت سے ایسے رسوم و رواج کو بھی اپنا لیا جن کی ان کے دین میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے.نتیجتاً آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس خطے کے مسلمانوںمیں پیدائش سے لیکر شادی بیاہ اور موت تک کی منائی جانے والی رسموں میں اسلام کی سادگی کے برعکس ہندو مذہب کا رنگ بھرا ہوا ہے. فرق صرف یہ ہے کہ ہندوؤں میں ان رسموں کو اپنے دیوی دیوتاؤں سے جوڑا جاتا ہے اور مسلمانوں میں اسلام کی مقدس ہستیوں سے. مثال کے طور پر شادی بیاہ کے موقعے پر ہونے والی صحنک کی رسم جسے گھر میں شادی کی تقریبات شروع ہونے سے پہلےعورتیں انجام دیتی ہیں . اس رسم کی شروعات مسلم معاشرے میں مغل بادشاہ اکبر کی راجپوت بیوی جودھا بائی نے کی تھی جسے ہندوؤں میں سیتا دیوی کے نام سے منایا جاتا ہے اور مسلمانوں میں دختر رسول حضرت فاطمہ اور ازدواج رسول( ص) کے نام سے جوڑ کربی بی کی صحنک کے نام سے متبرک بنا دیا گیا.