14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک نئی آزاد مملکت پاکستان کے نام سے ظاہر ہوئی. جو مسلمانان ہند کی آرزؤں کا محور و مرکز تھی. کہا جاتا ہے کہ ہر مملکت یا ریاست ایک سیاسی حیثیت رکھتی ہے اور ایک جغرافیائی. ہمارا وطن پاکستان سیاسی حیثیت سے اس برس تہتر سال کا ہوگیا جبکہ جغرافیائی لحاظ سے اس خطے کی عمر لاکھوں سال کی ہے. اس خطے کا تعلق بنی نوع انسان سے پتھر کے زمانے سے جڑا ہوا ہے. راولپنڈی کے نزدیک سُوان ندی (پوٹھوہار )کے کنارے سوا لاکھ سال پرانے آثار اس کے گواہ ہیں جہاں غاروں سے قدیم انسانی بستیوں کا سراغ ملا ہے.
اس خطے کے دامن میں پانچ ہزار سال پرانی کانسی کے زمانے کی ہڑپائی تہذیب بھی سمائی ہوئی ہے.جو اپنے پیشرو تمام تہذیبوں میں حددرجہ ترقی یافتہ مانی جاتی ہے.
علاوہ ازیں اس خطے نے دنیا کی کئی غیرقوموں کے قدموں کی دھمک بھی سنی ہے جن میں آریائی، ایرانی ،یونانی، موری، باختری، ساکائی، پارتھی، کشانی، ہن، عرب، ترک، افغان، مغل اور انگلستانی شامل ہیں. کچھ نے طاقت کے نشے میں ادھر کا رخ کیا تو کچھ کو دولت کی ہوس و لالچ یہاں کھینچ لائی.
جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی آمد کا سرا عرب سپہ سالار محمد بن قاسم سے جوڑا جاتا ہے مگر مشہور مورخ مبارک علی اپنی کتاب المیہ تاریخ میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام اولاً جنوبی ہندوستان میں تاجروں کے ذریعے پھیلا پھر سندھ میں عربوں کی فتح کے بعد اور آخر میں ترکوں کی فتح کے بعد شمالی ہندوستان میں آیا.
تاہم یہ حقیقت ہے کہ سب سے پہلی مسلم حکومت کے قیام کا سہرا محمد بن قاسم کے سر ہی جاتا ہے. جس نے 712ء میں سندھ (دیبل اور بہمن آباد )اور ملتان کو فتح کرکے ہندوستان میں اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی.
محمد بن قاسم کے بعد مسلم اقتدار غزنویوں، خلجیوں، تغلقوں، ایبکوں اور لودھیوں سے ہوتا ہوا مغلوں تک پہنچا. جسے ہندوستان میں مسلمانوں کا سنہرا دور بھی مانا جاتا ہے. 1526ء میں وادی فرغانہ کے تیموری شہزادے ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی جو 1862ء میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے برطانوی سلطنت کے ہاتھوں قید کیے جانے پر اختتام کو پہنچی. بہادر شاہ ظفر کا دور اقتدار مختصر تھا،1707ء سے 1712ءتک، اور یہ وہ دور تھا کہ بظاہر تو بادشاہ مسند حکومت پر بیٹھا تھا مگر عنان حکومت برطانوی ہاتھوں میں تھی.
ہندوستان پر مسلمانوں کی طویل حکمرانی کا افسوسناک انجام حکمرانوں کی اپنی غلطیوں کا خمیازہ مانا جاتا ہے. جہانگیر کے دور میں سورت شہر میں قائم ہونے والی ایک چھوٹی سی ایسٹ انڈیا نامی کمپنی نے ہندوستان کے حکمرانوں کی غفلت سے پیدا ہونے والی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا اثرورسوخ اس حد تک بڑھا لیا کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ والی ہندوستان خود ان کے ہاتھوں وظیفہ لینے پر مجبور ہوگیا. کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار میں جب برطانوی سفیر ٹامس رو نے بادشاہ کو اس کے جنم دن پر سونے چاندی اور ہیرے موتیوں میں تُلتے دیکھا تو دولت کی اس فراوانی نے اس کی آنکھیں خیرہ کردیں اور اس نے حکومت برطانیہ کو تمام ماجرا لکھ بھیجا.
برطانوی حکومت جو پہلے ہی پرتگالیوں، ولندیزیوں(ہالینڈ کے باشندے) اور فرانسیسیوں کے ہندوستان میں کامیاب تجارتی فوائد کو دیکھ کر خود بھی اس سے فائدہ اٹھانے کا سوچ رہی تھی، ٹامس رو کی زبانی بیان کی گئی دولت کی فراوانی نے انہیں تجارت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی حکمرانی حاصل کرنے کی خواہش پر بھی شدت سے اکسایا. لہذا بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فیکٹریوں کو قلعوں اور چھاؤنیوں میں تبدیل کرکے ان میں سپاہی بھرتی کرنا شروع کردیئے. جن میں مقامی اور برطانوی شہری دوںوں شامل تھے البتہ افسر زیادہ تر برطانوی تھے. جب فوج تیار ہوگئی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے پرتگالیوں، ولندیزوں اور فراسیسیوں کے اثر رسوخ کو دور کیا اور خود ہندوستان کے مطلق العنان حکمران بن بیٹھے.
مغل بادشاہ اپنے عیش و آرام اور نمود ونمائش میں اتنے محو رہے کہ انہیں روز بروز تیزی سے بڑھتا ہوا ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط نظر ہی نہیں آیا. انہوں نے اپنی تسکین اور نمود و نمائش کی خاطر فن تعمیر کی شاہکار عمارتیں تو کھڑی کردیں مگر سلطنت اور رعایا کی فلاح و بہبود کی خاطر کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جو انہیں اس وقت دنیا میں ہونے والی ترقی سے جوڑ کے رکھتا. ان بادشاہوں نے نہ عوام کی تعلیم کی فکر کی نہ ان کی صحت کی اور نہ ہی روز بروز بڑھتی معاشی بدحالی کی. اکبر بادشاہ سے جب ہندوستان میں چھاپے خانے لگانے کی درخواست کی گئی تو اس نے یہ کہہ کر مسترد کردی کہ یہ مشینیں ہمارے خط نویسوں یعنیٰ ہاتھ سے لکھنے والوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں.
ان بادشاہوں کی سلطنت سے غفلت کا عالم یہ تھا کہ ہندوستان جو تین اطراف سے سمندر سے گھرا ہوا ہے اس کی ساحلی حفاظت پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی. حالانکہ محمد بن قاسم عرب سے سمندر کے راستے ہی ہندوستان آیا تھا. پرتگالیوں، ولندیزیوں اور فراسیسیوں کے تجارتی جہاز بھی ہندوستان آنے جانے کے لیے واسکو ڈی گاما کے دریافت کیے گئے یورپ سے ہندوستان تک کے بحری راستے کالی کٹ کے ساحل کو استعمال کرتے تھے. بعد ازاں انگلستان کے جنگی جہاز بھی اسی راستے سے ہندوستان میں داخل ہوئے مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیں تھا.
جبکہ دوسری جانب برطانوی ہندوستان سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے نہ صرف مغل دربار کی اور سلطنت کی تمام معلومات حاصل کررہے تھے بلکہ اس کی روشنی میں مستقبل کا فیصلہ بھی کررہے تھے. ہندوستان سے ملنے والے فوائد کا ہی نتیجہ تھا کہ پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے مالکان ہندوستان کے حکمران بنے اور پھر ملکہ برطانیہ وکٹوریہ نے اسے اپنے تسلط میں لے لیا.
ہندوستان کی عام عوام جو پہلے ہی سے سیاسی افراتفری، عدم تحفظ ،معاشرتی انتشار اور معاشی طور پر سخت زبوں حالی کا شکار تھی، برطانوی حکومت میں وہ مزید استحصال کا شکار ہوگئی. ان پر بھاری ٹیکس عائد کیے گئے، سرکاری نوکریوں سے بے دخل اور دور کردیا گیا. ان کے ساتھ غلاموں جیسا رویہ اختیار کیا گیا. خاص کر مسلمانان ہند اپنے نئے حکمرانوں کے عتاب کا زیادہ شکار ہوئے. ان پابندیوں کے ساتھ ساتھ ان کے مذہب کو بھی سخت تنقید اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا. برطانوی حکمرانوں کو ہندوستان کے عوام کی کتنی فکر تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی تاریخ دان میتھیو وائٹ اپنی کتاب (دا گریٹ بک آف ہاریبل تھنگز) میں لکھتا ہے کہ برطانوی دور میں آنے والے دو قحطوں میں تین کروڑ ہندوستانی بھوک سے مارے گئے. وجہ یہ نہیں تھی کہ ہندوستان میں اناج نہیں تھا بلکہ غریب عوام کی رسائی اس اناج تک نہیں تھی.
اس استحصال کا نتیجہ بنی 1857ء کی جنگ آزادی، جس کی شروعات ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی مقامی سپاہیوں نے کی تھی. انگریزوں نے اسے بغاوت کا نام دیا مگر ہندوستان کے لوگوں کے لیے یہ آزادی کی جنگ تھی. جسے بظاہر وہ جیت نہ سکے مگر اس کے اثرات اتنے دیرپا ہوئے کہ بالآخر 1947ء میں انگریزوں کو نہ صرف ہندوستان چھوڑ کے جانا پڑا بلکہ مسلمانان ہند کے لیے ان کے علیحدہ وطن پاکستان کے قیام کا فرمان بھی جاری کرنا پڑا.
آج ہم قیام پاکستان کی تہترویں سالگرہ منارہے ہیں. تہتر سال پہلے ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دیکر اس ملک کو حاصل کیا اور ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ہم ایک آزاد ملک میں پوری آزادی سے جیئیں. یہ آزادی خاص کر مسلمانان ہند کی آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، آج کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی جبری تسلط کے ہاتھوں ہوئی حالت دیکھ کر اس کا احساس دو چند ہوجاتا ہے. گو کہ ہمارے وطن پاکستان کو اندرونی اور بیرونی، بہت سے مسائل کا سامنا ہے تاہم امید افزا بات یہ ہے کہ آج پاکستان کی قیادت جن ہاتھوں میں ہے وہ اس سے نمٹنے کا بھرپور عزم رکھتے ہیں.
