اگرچہ پاکستان ۱۹۴۷ء میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا مگر پاکستانی تہذیب کا ظہوراس سے کجا قدیم ہے۔ یہاں کی قدیم تہذیبوں میں سرِ فہرست چار لاکھ سال پرانی پوٹھوہار کی سُوانی تہذیب ہے جو راولپنڈی کے قریب سُوان ندی کے کنارے قائم تھی ۔گو کہ یہاں سے کسی بستی کا سراغ نہیں ملا ہے مگر غاروں سے انسانی ڈھانچے ، جانوروں کی جلی ہوئی ہڈیاں نیز پتھر کے بنے ہتھیار اوزار کثیر تعداد میں دریافت ہوئے ہیں۔ان ہتھیار اوزار کو کلہاڑی،گوشت کاٹنے اور کھال کھرچنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔قیاس یہی ہے کہ سُوانی باشندے قبیلوں یا گروہوں کی صورت میں غاروں میں رہائش پزیر تھے اور ان کا گزر بسر شکار پر منحصر تھا۔ان سُوانی باشندوں کو ابتدائی پاکستانی کا نام دیا گیاہے۔
پاکستان میں موجود دوسری قدیم تہذیب،درّہ بولان بلوچستان کی مہرگڑھ تہذیب ہے جو ساڑھے چھ ہزار سال قبلِ مسیح میں قائم تھی۔یہاں سے ابتدائی بستیوں اور جو،گندم اور کھجور کی زراعت کے آثار بھی ملے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں سے ملنے والے دفن شدہ مُردوں کی ہڈیوں پراسی طرح کالال رنگ کا سفوف مَلا ہوا ملا ہے جس طرح یورپ کے حجری دور کے بعض ڈھانچوں پر مَلا ہوا ہے۔
علاوہ ازیں پاکستان میں ساڑھے تین ہزار قبلِ مسیح سے تعلق رکھنے والی امری و نل،کلّی، رانا گندھائی ، ژھوب اور کوٹ ڈجی تہذیبیں بھی پائی جاتی ہیں۔جہاں سے پتھر سے لیکر کانسے کے زمانے تک کے شواہد ملتے ہیں۔
پاکستان میں موجود پانچ ہزار سال قدیم ہڑپائی تہذیب بھی اپنے وقت کی حدّدرجہ ترقّی یافتہ تہذیب شمار کی جاتی ہے۔جس کو وادی سندھ کی دراوڑی تہذیب بھی کہا جاتا ہے ۔اس تہذیب کے آثار پاکستان میں صوبہ سندھ، بلوچستان ،پنجاب اور خیبر پختونخواہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ان آثار کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں رہنے والے باشندوں کا تہذیبی معیار کس درجہ بلند تھا ۔یہ لوگ نہ صرف تہذیب و تمدّن سے واقف تھے بلکہ بعض معاملات میں اپنی ہمعصر قوموں ، عراق، مصراوریونان سے بھی افضلیت رکھتے تھے۔
وادی سندھ کے دراوڑی کون تھے اور کہاں سے آئے تھے؟ ان سوالوں کے جوابات اب تک یہاں کی تحریر پڑھی نہ جانے کے سبّب ماضی کے پردے میں پوشیدہ ہے۔کچھ تاریخ دان انہیں عراق سے ہجرت کرکے اس وادی میں آکر بسنے والے کہتے ہیں اورکچھ ان کا تعلق بحرِ روم کے ساحلی باشندوں سے جوڑتے ہیں جو بلوچستان کے درّوں سے اس وادی میں داخل ہوئے۔اس نسبت سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ موجودہ بلوچستان کی براہوی قوم انہی دراوڑیوں کی باقیات ہیں جو قلاّت، لسبیلہ، کھاراں اور چغائی کے علاقے میں آباد ہیں اور ان کی زبان بھی دراوڑی زبان سے تعلق رکھتی ہے۔
تاہم پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرِ آثار ڈاکٹر محمد رفیق مغل اس بات کے قائل ہیں کہ وادی سندھ کی دراوڑی تہذیب کہیں باہر سے نہیں آئی تھی بلکہ اس نے یہیں آنکھ کھولی ،یہیں پروان چڑھی اور یہیں زوال پزیر ہوئی۔ان کے اس دعوے کی تصدیق پاکستان سے دریافت ہونے والی قدیم تہذیبیں بجا طور پر کرتی ہیں کہ یہاں بسنے والے باشندوں نے بھی دنیا کی دوسری قوموں کی مانند وقت کے ساتھ ترقی کے منازل طے کرکے پتھر کے زمانے کو خیرباد کہا اور تمدنی دور کا حصّہ بن گئیں۔