Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/5/8/f/urduqasid.se/httpd.www/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 96
50

’اردو کا عالمی تناظر‘اور موریشس کے سفرنامے

۶۲۔ ۸۲ نومبر۵۱۰۲ء؁ میں منعقدہ موریشس میں تیسری عالمی اردو کانفرنس پر مبنی پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کی کتاب ’اردو کا عالمی تناظر‘ میں چار سفرنامے شامل ہیں۔

۱ جنت نظیر جزیرۂ موریشس
پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین
جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی
۷ صفحات پر مشتمل یہ سفرنامہ پروفیسر اکرام الدین کی قلبی روداد معلوم ہوتی ہے۔ سفرنامے کا آغاز انہوں نے مارک ٹوین کے مشہور قول سے کیا جس کے مطابق ’خدا نے پہلے موریشس بنایا، پھر اسی کے طرز پر جنت بنائی۔‘ ((163 اعداد و شمارے، تاریخ اور دیگر معلومات کے ساتھ ساتھ یہ سفرنامہ ان کے ذاتی تجربے پر بھی مشتمل ہے۔ ایک ایک لفظ ان کے دل سے نکلا ہوا معلوم ہوتا ہے جس سے ان کی شخصیت بھی سامنے آتی ہے۔
وہ موریشس کی خوبصورتی، بالخصوص ساحلِ سمندر اور جنگل جن میں ’سانپ، بچھو بالکل نہیں اور نہ کوئی درندہ جانور ہے جو انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں‘، سے حددرجہ متاثر نظر آتے ہیں۔ جذئیات نگاری کا سہارا لیتے ہوئے وہ کامیابی سے فطرت کی رنگینیوں کو قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
’پانی کا رنگ بھی کہیں گہرا نیلا تو کہیں بالکل سبز، کہیں پتھریلے ساحل کنارے ہیں تو کہیں ساحل پر ریت کی خوبصورت چادریں بچھی ہوئی ہیں۔‘ (163)
2040 مربع کیلومیٹر پر محیط جزیرۂ موریشس کے قدرتی نظارے، آب و ہوا، بولیاں، تہذیبی وراثت، ثقافتی شناخت، معیشت،مذاہب اور اقتصادی قوت کا اس سفرنامے میں ذکر کیا گیا ہے۔ اپنے کئی دوروں کے باعث پروفیسر اکرام الدین موریشس کے طرزِ زندگی، سڑکوں کے نظام، اشیاء خوردنی کی دستیابی اور الیکٹرسٹی کی فراوانی جیسی باریکیوں پر اپنے خیالات پیش کرپائے۔ موریشس کی دردناک تاریخ بھی اس سفرنامے کا حصّہ ہے اور اردو کے فروغ اور مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ جیسے معتبر اداروں کے کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔
ہندوستان اور موریشس کے باہمی ربط کو پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے ’گھر اور آنگن‘ سے تشبیہ دی ہے۔ اپنی روداد میں وہ کسی کو نہیں بھولے اور اس طرح ان کی انسان دوستی کی فطرت سامنے آتی ہے۔ اہلِ موریشس کے بارے میں وہ رفرماتے ہیں:
’نہایت انکساری اور تواضع سے ملنا جلنا اور ایک دم میں اجنبیت کا مانوسیت میں تبدیل ہوجانا یہاں کی خاصیت ہے۔‘ (163)
اپنی شوخئی تحریر سے وہ قاری کی دلچسپی کو شروع سے آخر تک برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور واقعات اور کہانیوں کے بیان سے پڑھنے کا لطف دوبالا ہوتا ہے۔ گھر آنگن کے رشتے کی نشاندہی وہ یوں کرتے ہیں۔
’ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ موریشس جاتے ہوئے تمام تیاریاں کر لیں۔ گھر سے نکل بھی گیا۔ راستے میں یاد آیا کہ میں نے پاسپورٹ تولیا ہی نہیں۔‘ (165)
اس سفرنامے میں منظرکشی کی عمدہ مثالیں دیکھنے کو ملا جس سے ذہن کے اچانک اس جگہ منتقل ہونے کا گمان ہوتاہے۔ صاف اور رواں زبان کا استعمال بھی اس ضمن میں معاون و مددگار ثابت ہوا۔
’سورج ڈھل رہا تھا۔ سنہری دھوپ اس منظر کو اور بھی خوشگوار بنا رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سورج سمندر میں ڈوبنے والا ہے۔ یہ ساحل کا وہ حصّہ تھا جہاں ایک جانب ریت تھی تو کچھ ہی دوری پر چھوٹے بڑے پتھروں پر ساحلی کنارہ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان پتھروں کو بڑے سلیقے سے سجایا گیا ہو۔‘(166)
پروفیسر اکرام الدین نے اس سفرنامے میں بطورر بیرون ممتحن اپنا تجربہ بھی شامل کیا ہے اور کانفرنس کی رودادکا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس تحریر میں خواجہ اکرام الدین کی ملنسار شخصیت سامنے آتی ہے۔ آپ لوگوں کے نام نہیں بھولتے، احباب کی صحبت سے لطف اٹھاتے ہیں۔ کہیں کہیں ا ن میں طفلانہ جوش واشتیاق بھی ابھرتا ہے جو قدرت کے قریب رہنے سے انسانی روح پر حیرت انگیز اثرات کے نتیجے سے وارد ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ سفرنامہ حقیقت نگاری کا بھی آئینہ دار ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں