نوٹ: رمضانُ المُبارک کی تقدیس کا خیال رکھتے ہوئے معاشرے میں رواں ایک رسم کو ذاتیات کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
میری نظروں کا فریب تھا کہ قریب کو میں دیکھ نہ سکا اور بعید کی چاہ دل میں تڑپتی رہی۔ کتنا قلق ہے کہ ہزارہا اخلاقیات کے تو ہم راوی ہیں لیکن جب عملاً کچھ کر گزرنے کی نوبت آتی ہے تو کوسوں دور اور قابلِ رسائی اخلاق سے ہم محروم ہوجاتے ہیں۔ کہنے کو تو ہر ایک دعویدار ہے کہ وہ رمضانُ المُبارک میں غریبوں، یتیموں اور بیکسوں کا سہار بننے کی آرزو رکھتا ہے۔ اپنے اِسی مقصد کے حصول کےلئے وہ “مُخیّر شخص” کی عبایا بھی اوڑھ لیتا ہے لیکن سوال ہے کہ اُس کے اندر یہ سخاوت کہاں سے دُر آئی؟
آیا یہ جو سخی بننے کا بُخار چڑھا ہے خود کے ذاتی مال سے ممکن ہوا؟ خاندانی جائیداد کام آئی؟ یا خُون پسینہ کی کمائی خرچ کرنے کا شوق ہوا؟ یہ سوالات دراصل رمضانُ المُبارک میں سخی بننے کا سارا بھرم کھول دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں ایک ایسی سوسائٹی کا آغاز ہوا چاہتا ہے جہاں اپنے مال سے سخی بننے کی توفیق تو بہت کم ہوتی ہے البتہ کسی اور کے مال سے سخی بننے کی روایت عام ہوگئی ہے۔ معروف جُملوں کی ایک فہرست ملاحظہ کیجئے:
📢 سالِ گذشتہ کی طرح امسال بھی رمضانُ المُبارک کے مقدس مہینے میں محتاجوں میں اشیائے ضروریہ تقسیم کی جائیں گی۔
📢 رمضانُ المُبارک کے تقدس کو مدِنظر رکھتے ہوئے مستحقین کےلئے مہینہ بھر افطار کا اہتمام ہے، ساتھ میں مخیّر حضرات سے حصہ ڈالنے کی اپیل ہے۔
📢 شہداء کے خانوادے کےلئے افطاری، عید کے کپڑے اور راشن وغیرہ تقسیم کئے جائیں گے۔ جو حضرات حسبِ توفیق دے سکتے ہیں وہ ضرور دیں اس لئے کہ ہم مستحقین کی شناخت رکھنے اور اُن تک بخیر خوبی امانت پہنچانے کے امین واقع ہوتے ہیں۔
منجانب فلانہ اور ڈھمکانا اور ویلفیئر سوسائٹی۔۔وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔
یہ رسمِ سالنامہ زور و شور سے جاری ہے۔ اس میں ترمیم (اصلاحات و اخلاقیات) کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی، “ہر سال کی طرح امسال” بھی مزید ترقی یافتہ نظر آتی ہے۔ جن غریبوں، بیکسوں، یتیموں اور شہداء کے خانوادوں کو ہدف بناکر یہ ساری مخیّر گیری کی جاتی ہے، نہیں معلوم کہ وہ واقعی میں مستفیض بھی ہوتے ہیں یا اُن کی تقدیر اور قسمت کا رونا روکر کوئی اور ہاتھ صاف کر جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو مُخیّر گیری کی اس حقیقت کے تین بنیادی کردار ہیں:🏃 وہ شخص کہ جس کا مال، جائیداد اور پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ حدیث کی رو سے ایسے شخص کو اُوپر “والا ہاتھ” سے یاد کیا گیا ہے اور وہ ہاتھ بہترین مقام و مرتبہ پر فائز ہے۔
🏃 وہ شخص کہ جو واقعی میں غریب، مستحق اور محتاج ہے، وہ اس رسمِ فلاحیت کا حقیقی کردار ہے۔ دراصل ساری مُخیّری گیری اسی کےلئے انجام دی جاتی ہے۔ حدیثِ مبارک کے مفہوم کے مطابق یہ شخص “نیچے والا ہاتھ” ہے جو یقیناً اوپر والا ہاتھ سے کم فضیلت رکھتا ہے۔
🏄 وہ شخص کہ جو نہ دینے والا ہاتھ ہے اور نہ لینے والا ہاتھ کہلاتا ہے۔ بلکہ دینے والے سے لے کر لینے والے تک پہنچانے کی ذمہ داری نبھارہا ہے۔ مُخیّر گیری کی مکمل اصطلاح اس شخص پر پوری طرح صدق آتی ہے۔
سچ پوچھیں تو آخرُالذکر شخص تیسرا ہاتھ بن گیا ہے اور جانے انجانے میں یہ ہاتھ گداگری، کاہلی اور لمبی آرزؤوں کا وسیلہ بھی بن گیا ہے۔ اب یہی دیکھیں کہ افطاری میں سادگی کی توصیف کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ایک کھجور سے اپنے روزے کی خاتمیت کرلو اور اگر وہ بھی میسر نہ تو نمک سے ہی روزے کا اختتام کرلو۔ اِس تیسرے ہاتھ نے یہ سادگی بھی اُچک لی ہے۔ جو شخص ایک کھجور یا نمک کا عادی تھا وہ اب ڈھیر ساری لوازمات کا اسیر ہوچکا ہے۔ وہ روحِ افزاء، پکوڑے سموسے اور دیگر لوازمات کا اسیر ہوچکا ہے۔ گویا آج کی افطاری تب تک مکمل نہیں کہلاتی جب تک کہ وہ لگژری یا آسائشات سے بھرپور نہ ہو۔ غریبوں، یتیموں، خانوادوں اور بیکسوں کی لمبی آرزؤں کا ذریعہ بننے کے پسِ پردہ جو بھی مقاصد ہوں، ایک بات تو واضح ہے کہ رمضان المبارک کی آڑ میں ہماری سوسائٹی مُخیّرگیری کی مکمل زد میں آگئی ہے۔ یہاں ہر وہ شخص جو زندگی کے نشیب و فراز میں ہر روز گرتا ہے وہ فلاح کے عظیم کام سے منسلک ہوتا ہے۔ جس طرح ایک آدمی جب کسی بھی شعبے میں کامیاب نہیں ہوتا وہ بالآخر تدریس کا شعبہ اختیار کرلیتا ہے بالکل اسی طرح مُخیّر بننے کی رسم بھی پوری طرح ادا کی جارہی ہے۔ البتہ جو مُخیّر حضرات اپنے مال سے ہی امداد و فلاح کا فریضہ انجام دیتے ہیں اُن کی تعریف ہمیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کے پیارے نبیﷺ چودہ سو سال قبل اُن کی توصیف کرچکے ہیں۔ اُن کے مقام و مرتبہ کی نشاندہی بھی کی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جن پر “دینے والا ہاتھ” کی مہر ثبت ہوگئی ہے۔
21