تربیتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو علومِ جدیدہ و قدیمہ کو اخلاق و عمل کا پہلا محاذ مانا جاتا ہے۔ جو علوم انسانیت کو صرف مقابلہ سازی یا مُسابقت کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اُن میں قدرِ انسانیت تو قعرِ سمُندر میں غرق ہو ہی جاتی ہے، دوسری طرف نسلِ انسانیت بھی کیڑے مکوڑوں کی طرح ایک ایسی اِن دیکھی راہ پر چل پڑی ہے جس کا اختتام مادّیت پرستی پر ہوتاہے۔جو تعلیم انسان کو صرف اور صرف اعلیٰ عہدوں تک رَسائی دینے کی وجہ بنے اُس تعلیم کی مقصدیت کا تعلق معاشرہ سازی یا انسان سازی سے ہے؟ یا اِس جُملے کو اس طرح ادا کریں کہ جو اِنسان تعلیم اِس نیت سے حاصل کرے کہ وہ ہم عصر ساتھیوں میں نمایاں ہو، اُس کی شان کے قصیدے زبانِ زدِ عام و خاص ہوں، اُس کی زندگی کا ہر زینہ ہمیشہ کامیابی تک ہی جائے ، تو بتائیں ایسے انسان کو معاشرہ سازی کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے؟
میرے پاس ”ہاں“ کہنے کی جُرأت نہیں ہے۔ اِس لئے کہ میری شخصیت کا تعلق بھی اُسی معاشرے سے ہے جہاں شان و شوکت ہی اصل کامیابی کا زینہ قرار دیا جاتا ہے۔جہاں اچھا لباس برتری کی علامت ہو، چمچماتی کار بہترین شخصیت کی ضامن ہو،تزئین و آرائش پر مبنی دفتر اعلیٰ عہدے کی نشانی ہو، خوبصورت خاتون سے رشتہ یا ایک وجیہہ مرد سے زوج ذہنی برتری کا اِظہارہو، ایسے معاشرے میں اِنسانیت و اَخلاقیت کی تلاش میں کون جائے؟ ہم اُس کے متلاشی اِس لئے نہیں ہیں کہ ہم نے معاشرہ سازی کا آسان حل اور انسانی ہمدرد کا پہلا زینہ مندرجہ بالا اُمور کو قرار دیا ہے۔ ہم نے صحیح انسان بننے سے قبل ہی انسانی درد کو محسوس کرنے کی روش اپنالی ہے، آج جو ہم نیم دلی سے اور بادل نخواستہ اِنسانیت کے ہمدرد بنتے ہیں تواِس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے پورا اِنسان بننے کا مکمل سبق نہیں پڑھا۔ ہم ادھورہ ہیں اورلازمی بات ہے کہ ادھورہ پن کے نتائج مندرجہ بالا علامات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔پاکستانی معاشرے میں اس طرح کی تمثیلات کثرت سے ہیں۔ ایک یورپی مُلک میں قتل غارت ہوئی، متعدد انسانوں کو صرف اِس لئے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا کہ وہ وہاں کے اکثریتی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ہماری بیماری سوسائٹی کو خاص کر مُلکی ذرائع اِبلاغ کو اِس قدر قلق ہوا کہ ہفتوں ہفتوں چیخ وپُکار کی صورت میں ماتم برپا رہا۔ ”نپی تُلی“ انسانیت کا اِظہاربھی ہوتا رہا۔ لیکن جب ہزارہ برداری ہر بار کی طرح ایک بار پھر ظلم و ستم کا نشانہ بنی، اُن کے قبرستان”بہشتِ زینبؑ“ میں نئے مکینوں کااضافہ ہوا تو پاکستانی ”انسانیت “ کو سانپ سونگھ گیا۔ سطحی خبروں اور غلط اندازوں سے ”غم غلط“ کرنے کا فریضہ انجام دیا گیا۔وزیرِ مملکت برائے داخلہ نے تو” تُکے“ کی اِنتہا کردی اور اِظہارِ ہمدردی کے متعدد بول بولنے کے بعد ایک جُملے کو یوں آشکار کیا کہ:
”وزیراعظم عمران کا ایران کے ہاشمی رفسنجانی سے رابطہ ہوا ہے۔“
یہ اندازوں کی”اِنسانیت“ دراصل حقیقی اِنسانیت سے اُکتا چُکی ہے۔ جو شخص آج سے دو سال قبل اِس دُنیا سے رُخصت ہوچکا ہو اُس سے وزیراعظم صاحب کا رابطہ کیسے ہوا، یہ اِس جیسی انسانیت ہی سمجھ سکتی ہے۔ پھر ہزارہ مرے تو ایران سے رابطہ کا کیا مقصد؟کیا ہزارہ والے ایرانی ہیں؟ اگر آپ کا منشاء مسلکی اِنتشارکو کم کرنا ہے تو معاف کیجئے کہ آپ نے ایسی کوئی کوشش انجام نہیں دی بلکہ مزید تفریق کا ایک راستہ کھول دیا۔ ہم گفتگو کے شُروع میں عرض کرچکے ہیں کہ جو عُلوم مسابقت یا مقابلہ کی فضاء پیدا کریں وہ آدمی تو ضرور پیدا کرسکتے ہیں لیکن اِنسانیت سے اُس کا کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ مُشاہدہ کریں اور محسوس کریں کہ جب اربابِ حل و عقد کا رویہ انسانیت ان جیسی بھول بھلیوں میں پھنسا ہو وہاں مُلکی فضاء کو کیونکر سُکون ملے گا،یہ ایک لا ینحل مسئلہ ہے۔
یہی صورتحال علومِ جدید و دینیہ سے وابستہ افرد کی ہے۔ دوڑ دھوپ میں اقدار و اخلاق تو کوسوں دور رہے، لیکن علمی ماحول جو کم سے کم دانشوری کی طرف لے جاتا وہ بھی عُنقاء ہوا۔جن لوگوں کو (مُلکی جامعات، دینی مدارس کے اساتذہ / پروفیسرز)نت نئے علوم کی کھوج لگانی چاہیے تھی اور انسانی اَقدارکی بحالی کےلئے نظریات و افکار کے فروغ کا ذریعہ بننا چاہیے تھا، وہ مقابلہ سازی کے تحقیقی اَکھاڑے میں کود چُکے ہیں۔ گویا کہ تن سازی اور کُشتی کا مقابلہ ہے، جو اپنے مدِ مقابل کو پچھاڑے گا وہی فاتح ہوگا۔یہ جو ”تحقیقی مقالہ جات کا اِ کھاڑہ“ ہےاِس کی دُرست سمت متعین ہونی چاہیے تھی، بدقسمتی سے قواعد و اُصول وضع ہونے کے باوجود وہ راہ اس قدر آڑھی ترچھی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک مُخلص اور علم دوست شخصیت کو اُ سے گزرنا پڑتا ہے۔ جبکہ منظورِ نظر اور خاصُ الخاص افراد کی چاندنی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ وہ اِس اُلجھی ہوئی راہ سے بھی صاف نکل جاتے ہیں اور پیچھے والے لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔اگر یقین نہیں آتا ہے تو موقر اخبار ”ڈان“ نیوز میں شائع رپورٹ کی طرف نظر کریں۔رپورٹ کے مطابق ایک شخص نے ایک سال میں ۱۱ تحقیقی مقالہ جات ایک ہی مُجلے میں شائع کروادیئے۔ یہ یقینی بات ہے کہ اُس ”فاضل محقق“ کی یہ عُجلت کسی علمی کھوج کےلئے نہ تھی نہ ہی انسانیت کےلئے دُرست راہ متعین کرنی کی کوئی کاوش نظر آتی ہے بلکہ یہ”تحقیقی عُجلت پسندی“ صرف اور صرف اپنی ذات کو کم رتبہ کے عہدے سے بُلند رتبے کے عہدے تک کھینچ لے جانا تھا تاکہ معاشرے میں اُس کی جی حضوری کا ڈنکا بجے اور وہ ”بہت بڑا آدمی“ بن جائے۔ سر پیٹنے کو دل کرتا ہے،یہ رویّہ رہا تو ہم تسخیرات(جس کے ہم ویسے بھی رقیب رہے ہیں) سے لے کر مجہولات کی وادی میں وارد ہوچکے ہوں گے جہاں عدمِ برداشت، عدمِ رواداری، انسانیت کی تضحیک، اخلاق و اقدار سے بے زاری جیسے اُمور بآسانی میسر ہوں گے۔ بعض کے اثرات تو اب بھی ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔
سوچیں ذرا! اگر تحقیق کے نام پر تعلیم و تعلّم سے سلسلہ وار مذاق چلتا رہا تو مُلکی علمی تاریخ میں ”کامیڈی شوز“ ہی معرضِ وجود میں آئیں گے۔نہ تعلیم و تعلّم کا زور ہوگا اور نہ ہی انسانیت کی نشاندہی کرنے والے ذرائع پیدا ہوں گے۔
ہمارے ہاں باہمی مسابقت کا اِس قدر جال بُنا گیا ہے کہ عہدوں کی بندر بانٹ ہی مقصدِ نگاہ ہے، چاہے وہ تحقیق اِنتہائی سطحی اور معیار سے بہت دور ہی کیوں ہو۔ اگر عہدوں کے حصول کےلئے ہی تحقیق و تدقیق کا عمل سرانجام دیا جائے تو پھر نئی بات، نئی حکمت عملی اور نئی فکر کہاں سے دُر آئے گی؟
37