مرضی تھی کہ ہم اِدھر گھومیں تو اُدھر نکلیں، اُدھر ہو آئیں تو اِدھر کی طلب باقی رہے۔ دل و دماغ کی نسیں کھلوانے کا بہترین نسخہ سیر و تفریح کو قرار دیتے ہوئے مجھے ذرا سی بھی جھجھک نہیں کہ میں اِس عمل (سیر و تفریح) کو جسمانی و دماغی نشونما کےلئے ضروری اَمر سمجھتا ہوں۔
بات تھی ایک مختصر سے مُطالعاتی دورے کی کہ اسلام آباد اور لاہور مطمعِ نظر رہیں لیکن قدم بڑھتے بڑھتے کراچی کی حُدود تک پہنچ گئے۔ میرے سفر کے ہمراہی تو اسلام آباد اور لاہور کی یاترا کرکے واپس (بلتستان یونیورسٹی) عازمِ سفر ہوئے لیکن میری رگِ مسافرت نے مجھے کہاں چین سے رہنے دیا۔ بالآخر کراچی کھینچ ہی لائی۔ یہ جو شہر ہے کہ ہر طرف ٹریفک کا بے ہنگم شور ہے، آبادی کا روز افزوں زور ہے، ہر نئی عمارت کی تعمیر کے بعد ایک اور کےلئے “ڈُو مور”ہے، اپنے اندر بے پناہ جاذبیت اور کشش رکھتا ہے۔ خصوصاً یہاں سردیوں کے ایام بڑے ہی رومان پرور ہوتے ہیں۔ ان ایام میں نہ تو گرمی کا سخت ترین احساس آپ کو پریشان کرتا ہے اور نہ ہی یخ بستہ ہوائیں آپ کی کِھلی اُڑاتی ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ سردیوں کے یہ ایام مکمل طور پر آپ کو سُکون پہنچانے اور تنگ نہ کرنے کے لیے مہربان ہوتے ہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ:
“کراچی موسمی پرندوں کی بہترین جاہ و پناہ گاہ ہے۔”
موسمی پرندوں سے مراد یہاں حقیقی پرندے نہیں ہیں۔ اس جُملے کے ذریعے مجھ جیسے اُن تمام افراد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ہر سال کسی نہ کسی بہانے کراچی پہنچ جاتے ہیں۔
پہلی مرتبہ اِس شہر عجوبہ کا دیدار کرنے والے لوگوں کےلئے تین چیزیں باعثِ حیرت قرار پاتی ہیں:
اول: یہاں کی سڑکیں اور گاڑیوں کی بے تحاشہ تعداد، پھر اُس پر مستزاد یہ کہ شہر کی فضاؤں میں دھواں ہی دھواں، شاید سانس لینا ہی دشوار ہوجائے۔
دوم: شہر کی روز بروزبڑھتی ہوئی آبادی، یہ سلسلہ انسانیت و آبادیت (آبادی) رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا، پاکستان بھر کی ہر نسل، ہر قوم اور ہر ذات اِس شہر کی باسی ہے اور سبھی آبادی بڑھانے کا فریضہ اچھے سے نبھارہے ہیں۔
سوم: یہاں کی تعمیرات جو ہر نئے دن کے ساتھ اپنی اضافت کا اِحساس دلاتی ہیں اور آپ کو محو حیرت کردیتی ہیں. بڑی بڑی عمارتوں کا وجود اس بات کا غماز ہے کہ کراچی جیسا کوئی ہو تو سامنے آئے۔ اور مجھے پتہ ہے کہ بڑی عمارتوں کا مسکن صرف کراچی ہی ہے کسی اور شہر کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔
ماضی قریب و بعید کا شہر جو کبھی کولاچی کے نام سے معروف تھا اور لیاری، کیماڑی اور کھارادر جیسے علاقے ہی اِس شہر کی کل کائنات تھے، اب عظیم شہر کا روپ دھار چُکا ہے۔ اب نہ تو لیاری کی بنیاد اِس شہر کی پہچان ہے اور نہ ہی کیماڑی جیسے چھوٹے جزیرے کا چرچا ہے۔ اب اگر بات ہوتی ہے تو کراچی کے موسم کی کہ یہاں سردیوں میں “کچھ” نہیں ہوتا۔ صرف قمیص اور شرٹ ہی آپ کے جسمِ مبارک کو تحفظ دے سکتی ہے۔ بھاری بھر کم کوٹ پہننے کی نوبت تو آئے گی ہی نہیں۔ نہ ہی ہر طرف سے آپ کو “بکتربند” اور “ہتھیار بند” ہونے کی ضرورت ہے۔ کپڑوں سے مسلح ہونے کا رواج یہاں عنقاء ہے۔ سردی کا مقابلہ ہلکے پُھلکے کپڑوں کے ذریعے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔
ور ہاں! کراچی ایک اہم صفت یہ رکھتا ہے کہ یہ ساحلی شہر ہے۔ سمندر کے کنارے ہونے کے ناطے اس کی شامیں ہلکی ہلکی ہواؤں سے معطر رہتی ہیں اور کمال یہ کہ گرمیوں میں بھی یہ ہوائیں آپ کو راحت پہنچاتی ہیں۔
کراچی کو خدا حافظ کہنے سے ایک دن قبل ہم نے لی مارکیٹ اور پھر لیاری کا دورہ بھی کیا ہے۔ لی مارکیٹ بذات خود لیاری کا ہی حصہ ہے۔ یہاں کے بازار میں طرح طرح کی اشیاء بآسانی دستیاب ہیں۔ خاص طور پر لنڈے(کباڑ) کا مال خریدنے کا بہترین مرکز ہے۔ ہم نے دیکھا کہ بعض بیوپاری حضرات چُن چُن کر کباڑ کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے علاقوں میں جاکر اُس مال کی خاصیتیں، فضیلتیں اور تعریفیں اس شان سے بیان کرتے ہیں کہ سامنے کھڑا بندہ قائل ہونے میں ذرا وقت نہیں لگاتا اور جھٹ سے مال خرید لیتا ہے۔
لیاری کسی زمانے میں رحمان ڈکیت اور ارشد پپو جیسے لوگوں کے نام کی وجہ سے معروف تھا۔ خاص طور پر چیل چوک اور سابق پولیس آفیسر چوہدری اسلم کا تال میل روز اخباروں کی زینت بنتا تھا۔ اب نہ تو رحمان ڈکیت کا ذکر ہے، نہ ارشد پپو کی دہشت ہے اور نہ ہی چوہدری اسلم کا وہ کردار نظر آتا ہے جس میں موصوف ہمیشہ سفید لباس میں ملبوس پولیس فورس کے دستے کی پہلی صف میں کھڑے نظر آتے تھے۔ جس وقت کراچی اپنے سخت ترین حالات کا سامنا کررہا تھا اُس وقت لیاری ایک دہشت اور خوف کا نشان بن چکا تھا۔ شاید ہی رات کو کسی اجنبی کا لیاری سے گزرنا آسان ہوتا ہو لیکن اب صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔ کراچی کے دیگر علاقوں میں آپ کو رات کے دو بجے دکانیں کھلی ملیں یا نہ ملیں لیکن لیاری میں رات دیر تک کاروبار چلتا رہتا ہے۔ لوگ سکون کے ساتھ اپنی اپنی مصروفیات میں مگن رہتے ہیں۔
اب چونکہ کراچی سے واپسی ہے اور اسلام آباد پہنچنا ہے تو تازہ ترین مشاہدے کو قلم زد کرنا ضروری تھا، اس لئے یہ مختصر سا رُقعہ ضبطِ تحریر میں لایا گیا۔ اُمید ہے کہ جلد ہی ایک نئی تحریر کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا۔ خدا حافظ کراچی.
