غرض و غایت:
اُصولاً میں یہ تحریر “اُردو قاصد” سویڈن کےلئے ہدیہ کر رہا ہوں لیکن افادہ عام کی خاطر یا فیس بُک کے احباب سے مضبوط شراکت کےلئے اِس پلیٹ فارم پر بھی تشہیر کی جارہی ہے۔ چونکہ یہ ربیعُ الاول کا مہینہ ہے اور “ہفتہ وحدت” کے عملی مظاہرہ کےلئے مسلمانانِ جہاں ١٢ ربیعُ الاول سے لے کر ١٧ ربیعُ الاول تک جشنِ میلادُالنبیﷺ مناتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے درمیان اُخوت کا خوبصورت مظاہرہ ہو۔
تلخیص:
ہادی اعظمﷺ کی زندگی کا کون سا ایسا پہلو ہے جو انسانیت کےلئے مشعلِ راہ نہ ہو۔ آپﷺ نے نو عمری میں ہی یتیمی کے داغ سہے۔ سخت ترین جدوجہد آپﷺ کی سیرت کا محاصل ہے، قریش کی اذیت ناک روش نے اگرچہ آپﷺ کو ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا تھا جہاں یا تو صبر ہی صبر پر عمل کرنا تھا یا بدعا کے ذریعے اُن کے قدم اُکھاڑنے تھے۔ لیکن ہادی اعظمﷺ نے صبر کو ہی دُرست اِنتخاب جانا۔ باوجود کہ اذیتیں جاری تھیں لیکن آپﷺ کے قدمِ مبارک کو ذرا سی بھی لغزش نہ ہوئی۔ مسلسل جدوجہد کا ایسا سیلاب اُمڈ آیا کہ آج تک تاریخِ عالم میں اُس کی مثال ڈھونڈنا ناممکن ہے۔ آپﷺ کی سیرت کا ہر پہلو سبق آموز ہے، مثالِ ابدی ہے، تعمیر و تعبیر کی تمام تر گہرائیاں آپﷺ ہی کی ذاتِ مبارکہ سے مترشح ہوتی ہیں۔ لہٰذا آج کی دُنیا میں ہادی اعظمﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہونا شرط ہے اس لحاظ سے کہ ہم زندگی کے کسی بھی شعبے میں آپﷺ کی تعلیمات کو عملی طور پر نافذ کریں۔ زبان اور عمل میں تفاوت ہو تو سیرتِ ہادی اعظمﷺ کی باریک بینی ہماری عقلوں سے کوسوں دور ہوجائے گی اور ہم عقل و منطق سے بہت پیچھے چلے جائیں گے کہ ایک معمولی سی قوم بھی ہم پر حکمرانی کرنے کا خواب دیکھے گی یا عملاً ایسا ہوتا ہوا نظر آئے گا۔
مرکزی مُدعا:
قریب آج سے چودہ سو سال قبل مکہ مکرمہ میں قبیلہ قریش کے خاندان”بنوہاشم” کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام”محمد” رکھا گیا۔ بزرگوں نے اس نیت سے”محمد” رکھا تاکہ اُس کی بہت زیادہ تعریف ہو۔ جیسا کہ “محمد” کا لفظی معنی بھی “بہت زیادہ تعریف کیا گیا شخص” ہے۔ اُن کی نیت کے پسِ پردہ جو بھی مقصد ہو لیکن ہمیں واضح نظر آرہا ہے کہ وہ یتیمِ عبداللہ آج کائنات کے سب سے زیادہ تعریف کے لائق انسان ہیں۔ کروڑہا لوگوں کی زبان پر روزانہ اُن کےلئے دُرود و سلام ہے۔ رحمتیں، برکتیں اور فضلیتیں اُن کےلئے مانگی جاتی ہیں۔ شایدحضرت عبدالمُطلب کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات ضرور موجود ہوگی کہ یہ بچہ جس کا نام میں”محمد” رکھ رہا ہوں آئندہ دُنیا کےلئے رحمت بنے گا، لیڈر بنے گا، مولا بنے گا اور آقا جیسے القابات بھی تفویض کئے جائیں گے۔ وہ نہ تو دشمن سے مرغوب ہوں گے اور نہ ہی دوستوں کی خامیوں پر رونا دھونا جاری رکھیں گے۔ اپنی پوری جدوجہد میں سختیوں کا مقابلہ اس شان سے کریں گے کہ آخر دشمن کی سانسیں پھول جائیں گی اور وہ خود ہی عرض گزار ہوگا کہ آئیں جنگ کی بجائے بات چیت کو ترجیح دیتے ہیں۔(صُلح حدیبیہ کی طرف اشارہ ہے) پھر جب مخالفین کی تمام تر سازشیں ناکام ہوں گی اور مسلمانوں کا غلبہ تمام تر طاقت کے ساتھ ظاہر ہوگا تو وہ دشمن یاس و حسرت کے ساتھ سرِ تسلیم خم کرے گا اور اُس کے پاس بالآخر اسلام کے دامنِ گنجائش میں پناہ لینے کے سوا کوئی راستہ نہ ہوگا۔ (فتحِ مکہ کی طرف اشارہ ہے) اور ایسا ہوا بھی۔ ہر وہ شخص جس نے آغاز میں ہادی اعظمﷺ کی مخالفت کی، تبلیغِ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنا، آج پیغمبراکرمﷺ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہے۔ اللہﷻ کی قسم! میرے نبی کی شان دیکھیں جن لوگوں نے آپﷺ کے ساتھ دو بدو لڑائی کی، آپﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہ کو شہید کیا، انتہاء یہ کہ شہید کے کلیجے کو چبانے کی رسم رکھی، وہ آج دستِ نگر ہیں۔ بجائے اس کے کہ پیغمبراکرمﷺ اُن سے کوئی انتقام لیتے، “انتم طلقاء ، تم آج آزاد ہو” کی سندِ ابدی سے اُن کی آزادی پر نشان ثبت کردیا۔ یہ ہادی اعظمﷺ کی سیرت کا وہ عظیم پہلو ہے کہ شاید ہم میں سے ہر شخص وہ سبق بُلا بیٹھا ہے۔ ہم اپنے دشمن کو کیا معاف کریں گے، اپنے مخالفین(سیاسی، علمی، معاشی وغیرہ) کو بخشنے کےلئے تیار نہیں۔ حالانکہ ہادی اعظمﷺ کی سیرت کا مندرجہ بالا پہلو ہمیں دعوتِ عام دے رہا ہے کہ ہم بھی اُس جیسی سیرت نہ سہی لیکن کم سے کم عمل پیرا ہونے کی کوشش تو کرسکتے ہیں۔ بس شرط ہے کہ ہم ہادی اعظمﷺ کی سیرت کو آزمائیں اور پہچانیں کہ جب خطرناک ترین دشمن کو معاف کیا جاسکتا ہے تو پھر ناراض رشتہ داروں، عزیز و اَقارب اور اپنے مسلمان بھائی کو کیوں معاف نہیں کیا جاسکتا؟؟
سیرت کے مکّی گوشے:
یہاں سیرت ہادی اعظمﷺ کے دو حصے ہیں: اول اعلانِ رسالت سے قبل کا زمانہ اور دوسرا بعداز اعلانِ رسالت۔ پہلے حصے میں آپﷺ کی خاموش زندگی ہمیں نظر آتی ہے۔ بہت ہی پُرسکون زندگی جس میں کسی سے کوئی تنازعہ نہیں، کسی محفل کا حصہ نہیں۔ نشاط و سُرور کی زندگی سے کوسوں دور، غور و فکر پر مبنی زندگی میں سبق ہی سبق نظر آتا ہے۔ کم عمری میں ہی اپنے حُسنِ اخلاق سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا اس زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ہے۔ قریش کے بڑے بڑے اور بزرگ ترین افراد کی موجودگی بھی آپﷺ کی اہمیت کو کم نہ کرسکی۔ حیثیت و مقام کا اِس قدر بلند معیار تھا کہ آپﷺ “صادق” بھی ہوگئے اور “امین” کا لقب بھی تفویض ہوا۔ ایک ایسا شخص کہ جس کی خاصیت ہی یہی تھی کہ وہ “اُمی”(کسی دُنیاوی شخص سے پڑھا ہوا نہ ہو) تھا، اور وہ اپنے اخلاق سے لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔ کیا کسی اور شخص میں ان خصلتوں کا موجود ہونا ممکن تھا؟ اگر ہاں تو پھر آپﷺ جیسا کوئی دعویدار کیوں نہ ہوا۔ اگر نہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ یتیمِ عبداللہ میں کوئی تو ایسی بات تھی کہ جس نے آپﷺ کو دیگر لوگوں سے ممتاز کیا تھا۔ میں تو کہوں گا(تاریخی شواہد سے مُستعار لیتے ہوئے) کہ قبل ازیں بھی آپﷺ میں نبوت کے آثار نمایاں تھے۔ یہ بات الگ ہے کہ پہلے کردار سازی کی گئی۔ لوگوں سے اقرار کروایا گیا کہ آپﷺ امین بھی ہیں اور صادق بھی ہیں۔ جب یہ مرحلہ طے ہوا تو پھر”اقرأ” کی صدا سے باقاعدہ اسلام کا افتتاح ہوا۔ وہ جو محنت اعلانِ رسالت سے قبل کی گئی تھی اب اعلان کے بعد وہ محنت مزید سخت اور مخالفتوں، رنجشوں اور رکاوٹوں سے مزین ہوگئی۔ یہاں تک کہ مکہ ہادی اعظمﷺ کےلئے تنگ ہوگیا اور مجبوراً ہجرت کرنا پڑی۔ یہ سیرت کا مکی گوشہ تھا جس کا بہت مختصر جائزہ لیا گیا۔
سیرت کا مدنی گوشہ:
مدینہ ہادی اعظمﷺ کی سیرت کا عمومی مرکز ہے۔ یہ وہ گوشہ ہے کہ جس میں اسلام کے زیادہ تر اُصول و ضوابط وضع ہوئے۔ اپنی رحمت سے بھرپور سیرت کے ذریعے آپﷺ نے زندگی کا ہر پہلو آشکار کیا۔ کہیں پہ دفاعِ مقدس کی نشاندہی کی جارہی ہے، کہیں ہی جہاد جیسے ضروری اَمر کا خلاصہ بیان کیا جارہا ہے۔ جہاد جیسا کہ پیغمبراکرمﷺ کی مدنی سیرت کا اہم جزو ہے۔ عام طور پر جہاد کا معنی و مطلب صرف اور صرف دشمنانِ اسلام کے خلاف برسرِ پیکار ہونا ہی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ جہاد کا بظاہر مطلب کوشش کرنا ہے۔ اور یہ تو بدیہی بات ہے کہ کوشش صرف جہاد میں نہیں کی جاتی۔ کوشش کا تعلق ہے:
▪فلاحِ انسانیت سے ہے۔
▪سماج کی ترقی سے ہے۔
▪انسانی اقدار و اخلاق سے ہے۔
▪تعلیم کی ترویج و تشہیر سے ہے۔
▪غربت کے خلاف عملی جدوجہد سے ہے۔
▪جہالت کے خلاف مسلمہ جدوجہد سے ہے۔
▪معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کی مدد سے ہے۔
غرض یہ ہے کہ ہادی اعظمﷺ کی سیرت کا نمایاں پہلو جہاد کا تعلق انسانیت کی پوری اجتماعی زندگی سے ہے کہ جس کو صرف ایک گوشے سے مختص نہیں کیا جاسکتا۔ آج کے دور میں اس پہلو یعنی جہاد پر بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ کیا ہادی اعظمﷺ نے کسی بے گناہ انسان کو قتل کرنے کا نام جہاد قرار دیا ہے؟ حالانکہ تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ جب تک کہ مخالفین کی طرف سے خطرہ و خدشہ نہ تھا پیغمبراکرمﷺ نے کبھی بھی پہل نہیں کی۔٢٧ غزوات اور٥٦ سریہ اس بات کی بین ثبوت ہیں کہ یہ جنگیں ہادی اعظمﷺ نے دفاع کی نیت سے لڑی ہیں جارح کی حیثیت سے نہیں۔ پھر ہمارے معاشرے میں غلط قسم کی تشریح کیوں ہے کہ ہر انسان کسی بھی انسان کو جو غیر مسلم ہے، کو قتل کرسکتا ہے۔ حالانکہ جہاد کا ایک مطلب اپنے نفس سے لڑنا بھی ہے۔ کیا وہ لوگ جو سیرت ہادی اعظمﷺ کو اپنانے کا دعویٰ کرتے ہیں اس حقیقت سے واقف ہونا چاہیں گے کہ ہادی اعظم نے اپنی زندگی میں نفرت سے زیادہ محبت کا درس دیا ہے۔ عداوت سے زیادہ بھائی چارگی کا سبق دیا ہے۔ پھر یہ راستہ کیوں کہ جس میں قتل و غارت گری ہے، نفرت و وحشت ہے، انتشار و افتراق ہے۔
سیرت کا مدنی گوشہ انتہائی روشن اور آج کے انسان کےلئے رہنما اُصول ہے۔ صوم و صلوٰة کے رموز و اوقاف، سماج کے مستقل اقدار، عبادات و معاملات کی توضیح و تشریح، حکومت و قیادت کی درست نشاندہی جیسے اوامر سیرت ہادی اعظمﷺ کے وہ درخشاں پہلو ہیں جن پر نئے سرے سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ سیرتِ اعظمﷺ کو پھر سے اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ سسکتی انسانیت کو ایک بار پھر اسلام کی آغوش میں پناہ مل جائے۔
