پاکستان کے شمال میں واقع جنت نظیر خطہ گلگت بلتستان یکم نومبر 1948ء کو ڈوگرا سامراج کے تسلط سے آزاد ہوا. یہ علاقہ 73 ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے جس میں 10 اضلاع واقع ہیں جو گلگت، اسکردو، استور، نگر، غذر، گنگچھے، دیامر، کھر منگ اور شگر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہاں کی آبادی تقریباً 15 لاکھ نفوس پر مشتمل ہےـ یہ خطہ دُنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلوں کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور قراقرم میں گھر ہوا ہےـ یہ جنت نظیر خطہ پاکستان کا انتظامی صوبہ ہے ـ یہاں کی مشہور اور سرسبز وادیاں اپنی مثال آپ ہیں۔ شنگریلا، راکاپوشی، نانگا پربت اور کےٹو یہاں کے پُرکشش اور سیاحتی مقامات ہیں۔ ملکی اور غیر مُلکی سیاح ہزاروں کی تعداد میں ہر سال یہاں آتے ہیں۔ یہاں کی شرح خواندگی 80 فیصد ہے جو پاکستان کے دیگر دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ ( کے پی کے) سے کافی آگے ہےـ یہاں کے لوگ بہت محنتی اور جفاکش ہیں۔ مہمان نوازی تو یہاں کی ثقافت کا بنیادی جُز ہے۔ پولو کو آج بھی یہاں برسوں پرانے طریقے سے کھلا جاتا ہے جس میں کسی امپائر کا تصور نہیں ـ جنگلی حیات کے لے دیوسائی کا مقام دنیا بھر میں ایک محضوص اہمیت رکھتا ہے جو برفانی ریچھ، تیندوا (لیوپارڈ) اور رنگ برنگے پھولوں، خاص طور پر گلابوں کا مسکن ہےـ یہاں کے بہادر سپوت حوالدار لالک جان نے کارگل میں وطن عزیز کی خاطر جان قربان کی۔ ان کی شہادت پر انہیں اعلیٰ فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیاـ گلگت بلتستان قدرتی وسائل سے مالا مال جنت نظیر خطہ ہے اور یہ خطہ دُنیا بھر میں اپنی انہی خصوصیات کی بدولت پہچانا جاتا ہے ـ مئی سے جولائی کے درمیان غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں یہاں کا رُخ کرتے ہیں ـ فلک بوس پہاڑ اور بہتے دریا ان کے استقبال کے کے ہر جگہ موجود رہتے ہیں۔ یہاں کا درجہ حرارت موسم سرما میں منفی 24 درجے تک گر جاتا ہے۔ اب ہم گلگت بلتستان کے مشہور سیاحتی مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
1۔ سدپارہ جھیل:
سدپارہ بہت ہی خواب صورت جھیل ہے. یہ اسکردو سے تقریباً 4 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ـ یہاں کا پانی بہت صاف اور شفاف ہے ـ سدپارہ جھیل دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں اور قیام کرتے ہیں ـ مقامی لوگوں نے رہائش کے لیے ریسٹ ہاؤس بنائے ہوئے ہیں۔
2۔ شنگریلا جھیل:
یہ جھیل گلگت بلتستان کی خوب صورت وادی اسکردو میں شنگریلا کے مقام پر موجودہ ہے ـ یہاں تک پہنچنے کے لیے گلگت سے اسکردو کا سفر کر نا پڑتا ہے ـ جہاں صرف بیس منٹ کا پہاڑی سفر طے کر کے اس خوب صورت سیاحتی مقام تک بآسانی پہنچا جاسکتا ہے۔ جھیل کے اطراف میں قدرت کے حسین نظاروں کی وجہ سے یہاں کا ماحول انتہائی مسحور کن مملوم ہوتا ہے لیکن اس جھیل کی خاصیت اس کے کنارے بنا ہوا ایک رسیٹورنٹ ہے ـ جو ایک تباہ شدہ طیارے میں تعمیر کیا گیا ہےـ مذکورہ طیارہ یہاں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے ڈھانچے کو ریسٹورنٹ کی شکل دی گئی ہے۔
3۔ عطاآباد جھیل:
حادثادتی طور پر وجود میں آنے والی یہ جھیل وادی ہنزہ میں شاہراہ قراقرم پر واقع ہےـ مذکورہ جھیل جنوری 2010ء میں ریزش زمین (لینڈ سلائیڈنگ) کے نتجے میں وجود میں آئی ہے ـ اس حادثے میں عطاء آباد کے دائیں جانب ایستادہ بلند و بالا پہاڑ کا وسیع و عر یض حصہ ٹوٹ کر دریا ہنزہ میں گر گیا تھا جس سے پانی کے راہ مسدود ہوگئی ـ اس کا ایک بڑا حصہ عطاءآباد کے مکینوں پر بھی قیامت بن کر گرا جس کے نتجے میں دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھےـ جب کہ مذکورہ گاؤں کا بڑا رقبہ اور شاہراہ قراقرم کا وسیع و عر یض حصہ زیر آب آکر ایک بڑی جھیل میں تبدیل ہوگیاـ جون 2010ء میں اس جھیل کی پیمائش کی گئی تو اس کی لمبائی 21 کلو میٹر اور گہرائی 100 میٹر یعنی300 فٹ تھی ـ بلند و بالا پہاڑ کے درمیاں حادثاتی طور پر بننے والی اس جھیل کا نام “عطاءآباد جھیل” رکھا گیا ہےـ جس کا رنگ نیلا ہے. سیاح دور دور سے اس جھیل کا نظارہ کرنے کے لئے آتے ہیں جس کا نیلا رنگ ان کی آنکھوں کو بہت ہی بھلا لگتا ہے.
66