ہر صبح آکے میرے اندر بس جاتی ہے
شام ڈھلے پھر سے اتر جاتی ہے
زندگی، رمق زیست ہے اتراتی ہے بہلاتی ہے
کون سا کام ہے ادھورا، مجھ کو یہ سمجھاتی ہے
دھوپ میں رکھے ہوئے چراغ کی مانند
ٹمٹماتی ہے ، بھڑکتی ہے بجھ جاتی ہے
اب اور فسانہ کیاہو، نیا کوئی
دل سے یاد ان کی بھی مٹی جاتی ہے
زندگی تیری ہے، تجھ سی ہوئی جاتی ہے
ہر شب مجھ کو کہانی یہ سناتی ہے
غم عشق ہے، غم دوراں ہے، غمخوار بھی بہت
زندگی جیسی ہے جہاں ہے چلی جاتی ہے.
