[vc_row][vc_column width=”1/2″][vc_column_text]
سفلی یا کالا جادو عام طورپر بعض دین سے گمراہ مرد یا عورتیں ’’اپنوں‘‘ کو قابو کرنے یا انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے کرواتے ہیں۔مگر بعد میں جب یہی کالے علم کے شکار ’’مریض‘‘ اللہ تعالیٰ کے کسی نیک اور پرہیز گار بندے کے پاس پہنچتے ہیں تو وہ اُس شیطانی کالے علم کے اثرات کو ’’مریض‘‘ پر سے بالکل ایسے صاف کر دیتے ہیں، جیسے کوئی مکڑی کاجالا صاف کردے۔یہ حقیقت ہے کہ کالا جادو کیسی ہی خوف ناک تباہی کیوں نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ نیک اور پرہیز گار بندے قرآن مجید کی مدد سے ’’کالے جادو‘‘ کو ختم کر دیتے ہیں۔ بے شک اللہ کا علم ہی حق اور طاقت ور ترین ہے اور شیطانی علم (کالا جادو) بہرحال ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ باطل ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نیک اور پرہیز گار بندے صوفیائے کرام گلستان اسلام کے وہ مہکتے پھول ہیں جنہوں نے ہر سو محبت کی خوشبوئیں بکھیریں، یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے امن کے دیپ چلائے اور قرآن و سنت کے ذریعے اسلام کا علم بلند کیا۔ تصوف کی راہ وہی شخص پا سکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن اور بائیں ہاتھ میں سنت مصطفیؓ ہو اور وہ ان دونوں شمعوں کی روشنی میں قدم بڑھاتا جائے ،صوفیاء کرام علوم قرآن،فقہ، حدیث اور تفسیر میں امام ہوا کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک نام مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں رہنے والے محترم جناب سید اسد شاہ صاحب کا بھی ہے جو قرآن و سنت کے روشن راستے پر چلتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں جدید دورکے سب سے بڑے فتنے ’’کالے جادو‘‘ کے سحر میں مبتلا لوگوں کو اس لعنت سے فی سبیل اللہ نجات دلانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ محترم جناب سید اسد شاہ صاحب اب تک لاکھوں لوگوں کو فی سبیل اللہ ’’کالے جادو‘‘ کے سحر سے نجات دلا چکے ہیں۔ محترم جناب سید اسد شاہ صاحب پاکستانی معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت اور عمر دراز فرمائے۔ ان کو صحت و تندرستی دے اور ان کا سایہ تادیر مصیبت زدہ لوگوں کے سرپر قائم و دائم رکھے۔(آمین)
پاکستان میں اب تک کسی بھی حکومت نے کالے جادو کرنے والے عاملوں کے خلاف کوئی قابل عبرت کارروائی نہیں کی۔ ان عاملوں نے پاکستانی معاشرے کے نہ جانے کتنے گھرانوں کو تہس نہس کر ڈالا ہے۔ سفلی علم استعمال کرنے یا کرانے والوں کے خلاف پاکستانی پارلیمنٹ میں نہ ہی اب تک کوئی قانون منظور ہوا ہے اور نہ کالے جادو کے استعمال کے خلاف کسی سیاستدان نے اب تک اپنی زبان کھولی۔حکومت پاکستان معاشرے کے اس ’’ان دیکھے گھناؤنے جرم‘‘ یعنی کالا جادو کرنے یا کروانے والوں کی سختی سے سرکوبی کرے۔ وزارت مذہبی امور اس سلسلے میں تمام مساجد، سماجی و تعلیمی اداروں اور خانقاہوں کی انتظامیہ کو اعتماد میں لے کر ایسے ٹھوس اور تعمیری اقدامات کرے کہ عام اور خاص لوگوں کو کالے جادو سمیت کسی بھی جادوئی بندش کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ تعزیرات پاکستان کے تحت سفلی عمل کرنے یا کرانے والوں کے خلاف مقدمہ قائم کر کے انہیں سخت سزا دی جائے۔ ’’جعلی عاملوں اور پیروں‘‘ کے خلاف ملک گیر ’’آپریشن کلین اپ‘‘ شروع کر کے پاکستانی معاشرے کو ’’کالے جادو‘‘ کے فتنے سے نجات دلائی جائے۔
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/2″][vc_column_text]
تحریر:محمد قیصر چوہان
qaiserchohan81@gmail.com
آج پاکستان میں جہاں قتل و غارت گری، سماجی برائیوں اور معاشی ابتری نے لوگوں کا سکون چھین لیا ہے، وہیں کالے جادو جیسی ایک بہت بڑی لعنت بھی اندھیری رات کی طرح مسلط دکھائی دیتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان اُس کوہوتا ہے جس پر ’’کالا جادو‘‘ یعنی سحر کروایا جاتا ہے۔کسی پر کالا جادو کروانے کے سب سے زیادہ خواہش مند بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ’’اپنے‘‘ بھی ہوتے ہیں اور ’’غیر‘‘بھی۔ یہ لوگ کونوں، کھدروں، ویرانوں، مندروں اور مرگھٹوں پر جا کر روپے اور زیورات دے کر کسی ’’اپنے‘‘ یا ’’غیر‘‘ پر کالا جادو کرواتے ہیں۔ چونکہ یہ ایک شیطانی عمل ہے، لہٰذا اس کی اپنی تباہ کاریاں ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کالے جادو کی وجہ سے کسی کی کار چلتے چلتے اچانک کسی بڑے حادثے سے دو چار ہو جائے، اچھے بھلے کاروبار کا ایسا روگ لگ جائے کہ وہ کاروبار جگہ ویرانہ بن جائے، کسی کی شادی میں ایسی رکاوٹ ڈال دی جاتی ہے کہ وہ ساری زندگی بیاہ نہیں کر پاتا اور میاں بیوی صحیح سلامت ہونے کے باوجود بھی اولاد سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح کسی کے گھرکی دیواروں پر آپ ہی آپ ’’خون‘‘ کی لکیریں بن جاتی ہیں اور کسی کی جان کالے جادو کی مدد سے اس کے سر پر کسی مندر یا مرگھٹ سے اُڑائی گئی ’’ہانڈی‘‘ آ کر لیتی ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں ایک منظم ’’کالا جادو مافیا‘‘ کام کررہاہے۔ دوسری طرف جادو نگری کی چوکھٹوں پر بعض ضعیف الاعتقاد مسلمان مرد اور خواتین، جادو کی تباہ کاریوں اور اپنے برے انجام سے غافل ہو کر جائز اور ناجائز کاموں کیلئے چکر کاٹتے صاف نظر آئیں گے۔ دوسری طرف کراچی اور لاہورکی بسوں، دیواروں اور پلوں پر ہندو اور بنگالی عاملوں کے چلتے پھرتے اشتہارات دکھائی دیتے ہیں جن میں ان عاملوں کے دعوے کے مطابق، کسی شخص یا عورت کی مکمل ’’کایا پلٹ‘‘ کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبوب کو قابو کرنے سے لے کر من پسند شادی ہونے تک، ملازمت کے حصول سے لے کر جان لیوا بیماریوں سے چھٹکارا پانے تک، تنگدستی سے نجات سے لے کر اولاد کے نہ ہونے تک، گھریلو ناچاقی سے لے کر شوہر کو قابو کرنے تک اور انتقام، حسد اور لالچ کا شکار ہو کر کسی خوشحال اور صاحب اولاد مرد یا عورت پر کالاجادو کروانے تک، بھانت بھانت کے جادوگر اور جادو گرنیاں اپنے گھناؤنے ہتھکنڈوں سے ’’ضرورت مندوں‘‘ کی ’’دلی تمنائیں‘‘ پوری کر کے حسب خواہش انہیں ’’مطمئن‘‘ کر کے اپنے دام کھرے کرتے ہیں۔
قرآن مجید اور حدیث نبویؐ کی روشنی میں جادو کا ہونا ثابت ہے۔ قرآن حکیم سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے جادو کی شروعات یہودیوں نے کی تھی۔ اگر کوئی مسلمان مرد یا عورت جادو سیکھتا ہے یا کسی پر کرواتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اگر وہ اپنی زندگی میں خدا سے سچی توبہ نہ کرے تو قیامت میں اُس کیلئے تباہی اور بربادی لکھ دی گئی ہے۔ جادو کی خواہ کتنی بھی قسمیں ہوں ان کا سیکھنا اورکسی پر کروانا ہر حال میں حرام ہے۔
ہمارے معاشرے کے کچھ افراد زبان سے کلمہ پڑھنے کے باوجود بھی عقیدے کے اتنے کچے ہوتے ہیں کہ وہ حسد، قابت، جلن اور اپنی محرومیوں کا بدلہ ایک خوشحال اور ہنسے بستے گھرانے یا فرد سے اس طرح لیتے ہیں کہ وہ ذہنی اور مالی لحاظ سے تباہ حال اور کنگال ہو کے رہ جاتا ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں جبکہ انسان مریخ سے بھی آگے جانے کی سوچ رہا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کو ایک گاؤں کی مانند کمپیوٹر سکرین پر لا کر رکھ دیا ہے، مگر جدید علوم کے ساتھ آج بھی قدیم علوم اتنی ہی قدر رکھتے ہیں جتنی اپنے دور میں رکھتے تھے۔ دینی اور روحانی علوم میں پوری قدرت رکھنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]