علمی مشاغل میں یہ بات عام دیکھنے کو ملتی ہے کہ طالب علم جستجو، کوشش اور تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ اس تمام تر جدوجہد کے پسِ پردہ ایک ہی مقصد ہے کہ وہ کامیاب ہوکر ماں باپ اور اساتذہ کا نام روشن کرے۔ لیکن جب یہی والدین اور اساتذہ اُس طالب علم کو نظرانداز کرنے کے روئیے کا اظہار کرتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ مایوس ہوکر اپنی جان تک بھی گنوادیتا ہے۔ عام طورپر ایک طالب علم کی زندگی تین ادوار پرمحیط نظرآتی ہے:
اول: اسکول کی زندگی
دوم: کالج کی زندگی
سوم: یونیورسٹی کی زندگی
یہ تینوں ادوار ایک طالب علم کی آئندہ زندگی کی کامیابی یا ناکامی کے ضامن ہوتے ہیں ۔دیکھا جائے تو ان ادوار میں طالب علم سب سے زیادہ اپنے اُستاد کے قریب ہوتاہے. وہ مسلسل سیکھنے کی دُھن میں رہتا ہے. جو اُستاد بتائے اُس کو ازبرکرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اب اگرتین ادوار پر محیط قربت کو اُستاد یکسر نظرانداز کرکے طالب علم کی بے عزتی کرے اور سبکی کا باعث بنے تو اُس طالب علم کیلئے یہ کس قدر پریشان کن بات ہوگی اس کا جواب سب کو معلوم ہے۔ اس کہانی میں ایک ایسی طالبہ کی داستان پیش کی جائے گی جو محض اساتذہ کی ہٹ دھرمی اور غیرذمہ دارانہ روئیے کی وجہ سے کئی طرح کے مسائل کا شکار ہوئی ۔ کہیں نہ کہیں گھر والوں کا رویہ بھی اس کے ساتھ نامناسب رہا ۔جب ایسی صورت حال پیش آتی ہے توانسان کے پاس تنہائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
اس کہانی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اُستاد کے منفی روئیے کا شاگرد کے ذہن پر کتناخراب اثرپڑتا ہے۔ اساتذہ کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ان کے منفی روئیے کی وجہ سے نہ صرف طالب علم کا وقت ضائع ہوتاہے بلکہ مستقبل بھی تباہی کے دہانے پر نظرآتا ہے۔
اس کہانی میں مرکزی کردار نازیہ کا ہے اور اس کا منظرنامہ کچھ یوں ہے:
نازیہ : طالب علم(مرکزی کردار)
مائرہ اور تانیہ : نازیہ کی چھوٹی بہنیں
میثال خاتون : نازیہ کی ماں
انصارعالم : نازیہ کے والد
مس نحل : حساب کی اُستانی
مس حسینہ : اُردو کی اُستانی
سرعباس : سائنس کے اُستاد اور نازیہ کے پسندیدہ ٹیچر
سرفیضان : سوشل سائنس کے اُستاد
سر عامر : کمپیوٹر کے اُستاد
نازیہ ایک صابربچی تھی. بھائی بہنوں میں سب سے بڑی۔ اُس کی دو چھوٹی بہنیں تھی: ماریہ اور تانیہ۔ دو بھائی تھے: ایک کا نام داؤد اور دوسرے کا نام حفیظ تھا۔ نازیہ کا خاندان متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ باپ(انصار عالم) کی ایک چھوٹی سی دُکان تھی۔ روزہ مرہ کے اخراجات اسی دُکان سے پورے ہوتے تھے۔ جانے کیا بات تھی کہ جس اسکول میں نازیہ تعلیم حاصل کررہی تھی وہاں پر کچھ اساتذہ اس کی عزت نفس مجروح کرتے تھے اوراُس کو مسلسل نظرانداز کرتے تھے. گویا نازیہ کی بے عزتی روز کا معمول تھا۔
ایک دن حساب کی اُستانی نے بھری کلاس میں نازیہ کوطمانچہ رسید کیااور اس کی کاپی لہراتے ہوئے کہا….!
مس نحل(حساب کی اُستانی): یہ کیا ہے؟ کیا لکھاہے تم نے؟.تمہارا دماغ توٹھکانے پر ہے؟
نازیہ: (مس سے کاپی لی اوردیکھا تو ایک سوال غلط تھا) مس ! مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا .!
مس نحل: تو دماغ کیا گھر پر چھوڑ کرآتی ہو؟ (اور پھرطنزاً ہنستے ہوئے) اوہ! میں توبھول ہی گئی کہ نازیہ کے پاس تو دماغ ہی نہیں.!
استانی کی بات سن کر پوری کلاس ہنسنے لگی۔ نازیہ کو بہت بے عزتی محسوس ہورہی تھی. اُس کادل چاہ رہا تھا کہ زمین شق ہوجائے اور وہ اس میں سماجائے۔ اس طرح کے واقعات نازیہ کے ساتھ اب روزکا معمول بنتے جارہے تھے۔ دن بہ دن اساتذہ کا رویہ اس کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتاجارہاتھا جبکہ اس امتیازی سلوک کی وجہ سے وہ مسلسل کمزور اور نفسیاتی مریض بنتی جارہی تھی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اساتذہ اس کے ساتھ اس طرح کا نامناسب رویہ کیوں رکھتے ہیں؟ نازیہ کا قد کافی لمبا تھا۔ اس میں کوئی جسمانی نقص نہیں تھا لیکن تھوڑا سا جھک کر چلتی تھی۔ جس کی وجہ سے اسکول کی لڑکیاں اس کا مذاق اُڑایا کرتی تھیں۔ اس سے نازیہ کو بہت دُکھ ہوتا تھا۔ یہ دُکھ اُس وقت اور گہرا ہوجاتا تھا جب اُس کے اپنے بہن بھائی اس معمولی سے نقص کی وجہ سے اُس کا مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ وہ اکثر سوچتی تھی کہ کیا واقعی مجھ میں کوئی نقص ہے؟ کیا میں دیگر لڑکیوں کی طرح نہیں ہوں؟ وہ سوچتی تھی کہ دیگرانسانوں کی طرح میرے بھی ہاتھ پیر ہیں، چل سکتی ہوں، بول سکتی ہوں، دیکھ سکتی ہوں اورمحسوس کرسکتی ہوں، اس کے باوجود میرا مذاق کیوں اُڑایا جاتا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات فی الحال اس کے پاس نہیں تھے۔ ہاں! البتہ نازیہ دن بدن نفسیاتی مریض بنتی جارہی تھی۔ دوسری طرف اس کے ماں باپ اس سے بے پرواہ ہوگئے تھے۔ نازیہ کو اگرچہ پڑھائی سے شغف تھا لیکن حساب اور فرنگی (انگریزی) سے سخت چڑ تھی۔ وہ شروع سے ہی حساب اور انگریزی میں کمزور واقع ہوئی تھی۔
دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ اس کی تحریر بہت صاف اور واضح نہیں تھی۔ ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی اس کے باوجود تحریری صلاحیت بہت ہی کمزورتھی۔ نازیہ کو اندازہ نہیں تھا کہ امتحانات میں کامیاب ہونے کیلئے تحریری صلاحیت بھی اہم معنیٰ رکھتی ہے۔ اب امتحانات سرپر تھے۔ نازیہ ٹھیک سے امتحان کی تیاری بھی نہیں کرپائی۔ اساتذہ کا نامناسب رویہ ، ہم جماعت لڑکیوں کامذاق اورماں باپ کی بے رُخی،یہ تین مختلف روئیے نازیہ کیلئے وبال جان بن چکے تھے۔ اس نے جیسے تیسے کرکے امتحان دیا۔ آخر وہی ہوا جس کا نازیہ کو ڈرتھا، وہ امتحان میں ناکام ہوگئی اور ایک بار پھر چھٹی کلاس میں ہی رہ گئی۔ وہ نتائج والے دن ڈرتے ڈرتے گھر پہنچی.!
میثال خاتون (نازیہ کی امی): تمہارے آج امتحانات کے نتائج تھے، کیا ہوا؟ کامیاب ہوگئی ہو یا پھر سے؟ امی نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا.!
نازیہ: یہ رہا، یہ کہہ کر اس نے کانپتے ہاتھوں سے رزلٹ کارڈ امی کو تھما دیا.!
نتیجہ دیکھتے ہی امی کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوگیا۔ لگاتار تین طمانچے نازیہ کے گال پر رسید کیے اور چیختے ہوئے کہا.!
میثال خاتون: میں جانتی تھی تم نے یہ کارنامہ پھر سے انجام دیا ہوگا۔ تم عقل سے پیدل ہو۔ دماغ تو تمہارے پاس ہی نہیں۔(غصے سے ) تم ایک نمبرکی ناکارہ ہو،ناکارہ ہو،ناکارہ ہو(یہ کہہ کر امی نے رزلٹ کارڈ زور سے نازیہ کے منہ پر مار دیا)
مائرہ (نازیہ کی چھوٹی بہن جو کہ چھ سال چھوٹی تھی): پورے گھر میں شور مچاتے ہوئے :آپی ناکارہ ہے، آپی ناکارہ ہے، آپی ناکارہ ہے۔
اتنے میں تانیہ آئی ۔نازیہ کو اندرکمرے میں لے گئی۔تانیہ، نازیہ سے دو سال چھوٹی تھی اور وہ اپنی بڑی بہن سے بہت اُنسیت رکھتی تھی۔ آنسوپوچھتے ہوئے کہا:
تانیہ: مت رو آپی ورنہ میں بھی روؤں گی۔
نازیہ نے تانیہ کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا:
نازیہ: تانیہ بس تمہارا ایک سہارا ہے ورنہ پوری دنیا میری دشمن بنی ہوئی ہے۔
نازیہ اور تانیہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب تھی۔ جب بھی نازیہ کو امی یا ابوسے ڈانٹ پڑتی تھی تانیہ ہی وہ فرد تھی جو نازیہ کو دلاسہ دیتی تھی اور حوصلہ دینے لگتی تھی۔
نازیہ کے ماں باپ نے اسے کسی دوسرے اسکول میں داخل کرنے کا فیصلہ کیا مگر دوسرے اسکول میں نازیہ کو پہلے والے اسکول سے زیادہ بدترماحول ملا۔ پُرانے اسکول کی طرح یہاں بھی مارپیٹ، گالم گلوچ عام تھی۔ معمولی معمولی باتوں پر طالب علموں کو مارنا ایک عام رواج تھا۔ نازیہ ایک خاموش طبیعت لڑکی تھی۔ اس نے حالات کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا۔ اُن کی قسمت میں ’’اچھے اُستاد کا ساتھ ‘‘ ابھی نہیں لکھاتھا اس لئے نئے اسکول میں بھی غیرذمہ دارانہ روئیے کے حامل اساتذہ اس کو ملے۔ اس اسکول میں اُردو کی ایک اُستانی (حسینہ) بہت ہی سخت مزاج کی تھی۔ یہ نازیہ کی بدقسمتی تھی کہ شروع دن سے ہی وہ اس بدمزاج اُستانی کی نظروں میں آگئی۔
ایک بار اُردو کی اُستانی نازیہ کو لے کر ایک خالی کلاس میں چلی گئی۔ اُستانی بہت ظالم تھی۔
مس حسینہ: نازیہ کے کان کھینچتے ہوئے بولیں! تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ تمہاری تحریر اتنی خراب کیوں ہے؟ ہم تمہارے باپ کے نوکر ہیں کہ دوربین اور مائیکرواسکوپ سے تمہارا کام چیک کریں؟
مس حسینہ کا اصل مقصد نازیہ کو مارنا تھا۔وہ جانتی تھی کہ اگر سب بچوں کے سامنے زیادہ مارا تو شامت آسکتی ہے۔ استانی نے نازیہ کو بہت مارا۔ استانی کے جانے کے بعد نازیہ وہیں بیٹھ کر روتی رہی۔ جب چھٹی ہوئی تووہ کلاس روم میں گئی اور اپنا بیگ اٹھایا اور گھر کی راہ لی۔
عجیب بات تھی کہ گھر میں کسی نے محسوس ہی نہیں کیا۔ ایک تانیہ تھی جو سمجھ گئی کہ آپی کے ساتھ آج پھر کچھ برا ہوا ہے۔نازیہ کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھی۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس حلیے میں کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ متاثرہ شخص پر کیا کیا گزری ہے پر نازیہ کے امی اور ابو دونوں بے پرواہ تھے انہوں نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ اُن کی بیٹی کے دل میں کیا بیت رہی ہے۔ تانیہ نے دلاسہ دینے کی کوشش کی مگر نازیہ بنا کچھ کہے اپنے کمرے میں چلی گئی۔تانیہ امی، امی ، امی کہتے ہوئے باورچی خانے کی طرف بھاگی۔
میثال خاتون : کیا بات ہے تانیہ؟ پورے گھر کو کیوں سرپہ اُٹھارکھا ہے؟میں کھانا بنارہی ہوں تم میں عقل نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں؟ کہیں تم بھی اپنی بہن کی طرح عقل سے پیدل تو نہیں ہو؟
تانیہ: امی آپی کی آنکھیں لال ہورہی ہیں اور آنسور بھی بہہ رہے ہیں.!
میثال خاتون: تو میں کیا کروں؟ دھوپ کی وجہ سے ہوئی ہونگی۔ اُس کو بولو جاکر نہالے۔ زیادہ ڈرامے بازی کی ضرورت نہیں۔میں خوب سمجھتی ہوں نازیہ کی بہانہ بازیاں.!
تانیہ اندر کمرے میں آگئی۔
تانیہ: آپی!آپ نہالیں میں کھانا لے کر آتی ہوں۔ آج آپ کی پسندیدہ ڈش پکی ہے ،بھنڈی۔ یہ کہہ کر تانیہ چلی گئی۔ بیس منٹ بعد جب تانیہ کھانا لے کر کمرے میں داخل ہوئی تودیکھا نازیہ سورہی ہے۔اس نے جگانے کی کوشش کی مگر نازیہ نہیں اٹھی۔ وہ یہ سوچتی ہوئی چلی گئی کہ آپی تھک گئی ہونگی۔ کھانا میز پر رکھ دیتی ہوں ۔آنکھ کھلی تو خود ہی کھالیں گی۔
اگلے روز نازیہ جب اسکول پہنچی تو ایک نئے استاد کو دیکھا ۔ان کا نام سر عباس تھا اور وہ سائنس کے اُستاد تھے۔ جب سر عباس نے پڑھائی شروع کی تو نازیہ کوخوشگوار حیرت محسوس ہوئی۔ سر عباس ایک اچھے اور سنجیدہ انسان تھے۔ وہ تمام طالب علموں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے تھے۔سر عباس نازیہ سے خوش اخلاقی کے ساتھ بات کرتے تھے۔نازیہ اگرچہ بارہ سال کی تھی مگر اپنی جسمانی ساخت سے وہ اپنی عمر سے بڑی نظرآتی تھی۔ سرعباس ان کے ساتھ نرم رویہ رکھتے، کوئی بھی سوال جو نازیہ کو سمجھ میں نہیں آتا اسے بیٹھ کر سمجھایا کرتے تھے۔ایک دن سرعباس اسٹاف روم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سوشل سائنس کے اُستاد (سر فیضان) نے طنز کرتے ہوئے کہا:
سرفیضان: کیا بات ہے آج کل سر عباس نازیہ میں بڑی دلچسپی لینے لگے ہیں سب خیریت تو ہے؟ سر عباس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جس لڑکی کو وہ اپنی بہن کی طرح سمجھتے ہیں اس کے بارے میں اس طرح کے الفاظ بھی سننے کو ملیں گے۔ اتنے میں کمپیوٹر کے استاد (سر عامر) بولے:
سرعامر: نازیہ ہے ہی اتنی خوبصورت، کوئی کمبخت پیچھے کیسے ہٹ سکتا ہے۔ کیوں بھائی فیضان؟
سرفیضان: ہاں بھئی کیوں نہیں،حُسن انسان کو پاگل بنادیتاہے۔
سر عباس نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔ اپنی صفائی پیش کرنے سے مزید مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ سرعامر ایک بے باک اور لااُبالی قسم کے انسان تھے۔ سرعباس کو یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی تھی۔ اگلے دن سر عباس کلاس میں آئے اور نازیہ سے کہا:
سرعباس: میرے پیاری بہن! اگر میں نہ آؤ تو کسی سے پوچھنا مت میرے بارے میں.!
نازیہ: کیوں سر آپ کہیں جارہے ہیں؟
سرعباس: نازیہ تم ایک اچھی لڑکی ہو ۔بس کسی سے میرے بارے میں کچھ نہ کہنا۔ سر عباس کا اسکول میں وہ آخری دن تھا۔ انہوں نے اسکول چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ وہ نازیہ کی عزتِ نفس کو کوئی داغ نہیں لگانا چاہتے تھے۔اُس دن کے بعد سر عباس اس اسکول میں کبھی نظرنہیں آئے۔
نازیہ کی قسمت میں ایک اچھے اُستاد کی صحبت صرف ایک مہینے تک کی لکھی ہوئی تھی۔ نازیہ کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سر عباس نے اچانک اسکول آنا کیوں بند کردیا ۔ایک دن نازیہ اکیلی بیٹھی ہوئی تھی کہ سامنے سے سر عامر کا گزر ہوا۔(سرعامر کی شخصیت جھوٹی خبریں پھیلانے والی اور طعنہ مارنے والی عورتوں جیسی تھی)
سرعامر: نازیہ کیا کررہی ہواور کیسی ہو؟
نازیہ : سر میں ٹھیک ہوں۔
سرعامر: ارے نازیہ!آج کل سرعباس دکھائی نہیں دیتے۔ تمہیں تو پتہ ہوگا کہ کہاں ہیں؟
نازیہ: (سوالیہ نظروں سے) کیا مطلب سر؟مجھے کیسے پتہ ہوسکتاہے؟
سرعامر: (آنکھوں میں شوخی) اوہ! آگ دونوں طرف سے لگی ہے۔یہ کہہ کر سرعامر چل دیئے۔ نازیہ ابھی کم عمر تھی اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ سر عامرکیا کہہ گئے۔
نازیہ کے ساتھ مختلف قسم کے مسائل مثلاً مارپیٹ، اچھی لکھائی کی عدم مہارت،اساتذہ کی طرف سے مسلسل نظرانداز، چلتے رہے۔ حتی کہ اس کی بہن مائرہ بھی اس کو ناکارہ کہتی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس کی امی نے مائرہ کو کبھی منع نہیں کیا کہ وہ اپنے بڑی بہن کو ناکارہ کہہ کر نہ پکارا کرے۔ وقت گزرتا رہا۔ نازیہ اب نویں جماعت میں پہنچ گئی تھی۔ ماضی کی کچھ جھلکیاں جب اُس کے سامنے آئی تو اچانک سر عباس یاد آگئے۔ نازیہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ وہی ایک شخص تھے جو اس کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آتے تھے۔ اچانک ہی سرعامر کی طرف سے کہے گئے الفاظ یاد آگئے ۔’’اوہ آگ تو دونوں سے طرف سے لگی ہوئی ہے‘‘ نازیہ سکتے میں آگئی۔ سرعامر نے میرے بارے میں اس طرح کے الفاظ کیسے کہے۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ سر عباس کے علاوہ نازیہ کوایک بھی اُستاد ایسا نہ ملا جو اس کے ساتھ نرم رویہ رکھے۔ نویں کلاس کا رزلٹ آیا ۔ نازیہ بمشکل پاس ہوئی وہ بھی بہت ہی کم گریڈ میں۔نازیہ کو ساتھی لڑکیوں سے کافی تیز و تند طنزیہ باتیں سننے کو ملیں۔ لیکن جب رزلٹ کارڈ ہاتھ میں لے کر گھر پہنچی تو ماں نے ادھم مچادیا۔ بہت بے عزتی کی۔ نازیہ کےلئے زمین تنگ ہوگئی اور وہ ایک مصمم ارادہ کربیٹھی۔ وہ اپنی زندگی، ماحول اور اردگرد کے ساتھیوں سے تنگ آچکی تھی۔ رات کوجب سب گہری نیند سوگئے تو نازیہ آہستہ سے اُٹھی، باورچی خانے میں گئی، چاقواٹھایا اور اپنے کمرے میں آکر ہاتھ کی نبض کاٹ لی۔ تھوڑی دیرتڑپنے کے بعد ایک ایسی لڑکی جو ہمیشہ محبت، خلوص، اپنائیت کی متلاشی رہی، سفرِآخرت کی طرف چل دی۔
صبح ہوئی تو سب سے پہلے تانیہ، نازیہ کے کمرے میں داخل ہوئی۔ نازیہ کی لاش دیکھتے ہی تانیہ زور سے چیخنے لگی۔امی!امی!امی! آپی کو دیکھئے کیا ہوا ہے ان کو؟ سب کمرے میں داخل ہوگئے۔ نازیہ خون میں لت پت پڑی تھی۔ ماں باپ کے پاس افسوس اور حسرت کے سوا کچھ نہ تھا۔ پاس پڑی میز پر ایک ورق پھڑپھڑارہا تھا۔ اُس میں لکھا تھا:
’’امی اب آپ کو کبھی شرمندگی نہیں ہوگی۔ میری وجہ سے آپ کا سر کبھی نہیں جھکے گا۔ آپ ہمیشہ کہتی تھی کہ میں ناکارہ ، ناکارہ، ناکارہ ہوں۔ ہاں میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں ناکارہ تھی لیکن اس میں سب سے زیادہ قصور آپ کا تھا۔ آپ نے کبھی میرے درد کو محسوس ہی نہیں کیا۔ ہمیشہ مجھے تنہائی کے گھپ اندھرے میں رہنے دیا۔ آپ نے کبھی نہیں پوچھا کہ میری بیٹی کو کچھ چاہیے، میری بیٹی کو کوئی تنگ تو نہیں کررہا، میری بیٹی کو کسی قسم کی پریشانی تو نہیں ہے۔ بخدا آپ نے کبھی نہیں پوچھا کہ میں اپنا حال دل آپ سے کہہ سکوں اور آپ کے پاس تو وقت ہی نہیں تھا کہ مجھے سے دو تین باتیں کرتیں۔ میری تحریریں آپ کو بری لگتی تھیں، میری پڑھائی آپ کو نامکمل لگتی تھی، میرے آنسو آپ کو ڈرامہ لگتے تھے، آج میں آپ سے بہت دور جارہی ہوں، ایک ایسی جگہ جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ آج میں کوئی ڈرامہ نہیں کررہی۔ مجھے معلوم ہے کہ میں اچھا قدم نہیں اُٹھارہی پراس کے سوا میرے پاس دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ امی مجھے معاف کیجئے گا۔ تانیہ کا خیال رکھئے گا۔ وہ میری جدائی برداشت نہیں کرسکے گی۔لیکن ایک دن اُس کوقرار ضرور آئے گا۔ میں نے تمام اساتذہ کو معاف کردیا۔ خاص طورپر سرعامر،مس حسینہ، مس نحل ان سب کو میں نے دل سے معاف کردیا۔‘‘ الوداع:فقط تمہاری بیٹی ’’نازیہ‘‘
نازیہ چلی گئی۔ اس سے کامیابی کی راہ دکھانے والا کوئی نہ مل سکا۔ ایک سرعباس ملے تھے پر وہ بھی زمانے کی ستم ظریفیوں کامقابلہ نہ کرسکے۔ نازیہ محبت، لگاؤ، خلوص، اپنائیت سے زندگی بھر محروم رہی۔زندگی بھر لوگوں کے طعنے سنتی رہی۔ ایک ننھی سی جان آخر کب تک برداشت کرتی۔ نازیہ نے اسی میں بہتری سمجھی کہ اس دنیا سے خلاصی پایاجائے۔ سو خودکشی اس کا مقدر بنی۔ ماں باپ کیلئے سوہان جان بن گئی۔ ماں کے پاس حسرتیں ہیں،باپ کے پاس بچھتاوے کہ وہ اپنے بیٹی پر توجہ کیوں نہ دے سکے۔