کسی بھی ملک یا قوم کو اپنی آنکھ سے بنتے دیکھنا اور اس کے تاریخ سازوں کے قریب رہنا کوئی عام بات نہیں ہے۔ گزشتہ برس سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ایشین اردو سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک مشاعرے کے دوران سفیرِپاکستان جناب طارق ضمیر صاحب نے بذاتِ خود ایک ایسی ہی شخصیت کا تعارف کروایا۔ انہوں نے کہا کی ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہمارے درمیان ڈاکٹر نذیر صاحب موجود ہیں، پروفیسر ڈاکٹر نذیر خان کا شمار پاکستان کی ایسی شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی جوانی میں پاکستان کو بنتے دیکھا-
ڈاکٹر نذیر خان کی عمر 91 سال ہے، وہ نومبر 1925 کو پنجاب میں پیدا ہوئے۔ اُن کے خاندان کا تعلق صوابی کے ایک قصبے گللا سے تھا- جو بعد میں لاہور اور قصور کے رمیان ایک چھوٹے سے شہر میں ان کے والد کی ملازمت کی وجہ سے آباد تھے ان کے والد پبلک ورکس ڈپارمنٹ میں ملازمت کرتے تھے۔ خان صاحب بچپن سے ہی ایک ذہین طالب علم تھے۔ اگرچہ ان کے والد کے انتقال کے بعد ان کے خاندان کو صوابی واپس منتقل ہونا پڑا اس کے باوجود انہوں نے میٹرک کے امتحانات میں ایک امتیازی پوزیشن حاصل کی۔ ایک مختصر مدت کے لئے اپنے آبائی گاؤں میں واپس آئے بعد میں انہوں نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ابتدا میں اُن کی والدہ انہیں پشاور بھیجنے کے لیے راضی نہ تھیں لیکن بعد میں انہوں نے اس کی اجازت دے دی۔ خان صاحب نے اپنی انٹرمیڈیٹ، انڈر گریجویٹ اور ماسٹرز کی تعلیم اسلامیہ کالج یونیورسٹی سے حاصل کی۔
تعلیم مکمل ہونے کے بعد اب انہوں نے ذریعہ معاش پر غور کرنا شروع کیا۔ 1950 میں خان صاحب ایئر فورس کے لیے منتخب ہوئے۔ تاہم ایڈورڈز کالج کی جانب سے لیکچرار کی پیشکش کو وہ انکار نہ کر سکے۔
ایک سال کے بعد انہوں نے اپنی نوکری کو خیرآباد کہتے ہوئے کاکول میں پاکستان آرمی کی کور تعلیم میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم خان صاحب نے جلد ہی کاکول سے استعفی دے دیا۔ وہ ہمیشہ سے یونیورسٹی آف گوتنگن جرمنی سے پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے۔ اور جب ان کی ملاقات کاکول میں جرمن سفارت خانے کے اہلکار سے ہوئی جو آپ سے بےحد متاثر ہوا اور آپ کی اس خواہش کی حوصلہ آفزائی بھی کی۔
جرمن اہلکار نے خان صاحب کو کسی یونیورسٹی کے شعبے میں شامل ہونے کا مشورہ دیا جس سے یونیورسٹی آف گوتنگن میں داخلہ میں آسانی ہونے کا زیادہ امکان تھا۔ اپنی عزاہم کی تکمیل کے لیے خان صاحب نے پشاور یونیورسٹی میں لیکچرر بننے کا فیصلہ کیا۔
یہاں سے اُن کی زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا جس نے ان کے افق کو وسیع کرنے کا موقع بھی دیا۔ انہوں نے جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ حاصل کی اور بعد میں اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کی۔
1957 میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کع بعد، انہوں نے پشاور یونیورسٹی واپس آکر اپنے ملک کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور انہوں نے یونیورسٹی میں شعبہ ریاضی کی انتظامی ذمہ داریوں کا چارچ سمبھالا اور 1974 میں انہیں محکمہ کے چیئرمین مقرر کیا گیا۔
خان صاحب کا ریاضی کا جنون اور جذبہ ان کو دنیا کے مختلف حصوں میں لے گیا۔ اور اسی سفر کے دوران ان کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی جو اب ان کی دوسری اہلیہ بھی ہیں۔ اور ڈاکٹر نذیر خان ان کے ساتھ سویڈن میں مقیم ہیں۔
91 سالہ پروفیسر ڈاکٹر نذیر خان نے حال ہی میں اردو قاصد کو ایک خصوصی انٹرویو میں تاریخ پاکستان کے حوالے سے گفتگو کی۔ ان سے کی گئی گفتگو کو آپ جلد ویڈیو کی شکل میں دیکھ پائیں گے۔