38

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شعیب ملک کا ’َ ‘‘ کو خصوصی انٹرویو

انٹرویو: محمد قیصر چوہان

وہ دورحاضر کا ایک ایسا آل راؤنڈر ہے جس میں بہ یک وقت تین مختلف صلاحیتوں کا حامل کھلاڑی پوشیدہ ہے ایک مستند بیٹسمین، ایک بہترین آف اسپن باؤلر اور ایک کلاسیکل فیلڈر اور یہ تمام تر صلاحیتیں یکجا کی جائیں تو جو نام سامنے آتا ہے اسے شائقین کھیل شعیب ملک کے نام سے جانتے ہیں۔ جو بیٹسمین کی حیثیت سے کریز پر موجود ہو تو مخالف ٹیم کے باؤلرز کو چھکوں اور چوکوں کی برسات سے پریشان کر دیتا ہے جب وہ آف اسپن باؤلنگ کرنے پر آمادہ ہو جائے تو وہ مخالف ٹیم کے بیٹسمینوں کیلئے مشکلات کا سبب ہوتا ہے۔ آل راؤنڈر شعیب ملک اپنے اسٹروکس کی وسیع رینج کے سبب مخالف ٹیم کو تباہ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ دباؤ میں آنے کے بجائے دباؤ ڈالنے پر یقین رکھتا ہے۔ وہ جتنی صفائی اور نفاست کے ساتھ گیند کو ہٹ کرتا ہے وہ خوبی کسی اور آل راؤنڈر کے کھیل میں دکھائی نہیں دیتی۔ گزشتہ برس زمبابوے کے ساتھ دو ٹونٹی 20میچز کی ہوم سیریز کے لیے شعیب ملک کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔اس کے بعد شعیب کو زمبابوے کے خلاف ون ڈے سیریز میں آزمایا گیا تو اس نے سنچری بنا کر شاندار انداز میں قومی ٹیم میں کم بیک کیا۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر انگلینڈ کے خلاف کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز کیلئے جب شعیب ملک کو قومی ٹیم کا حصہ بنایا گیا تو ابو ظہبی ٹیسٹ میچ میں شعیب ملک نے 245 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر پانچ برس کے بعد ٹیسٹ ٹیم میں واپسی کو یادگار بنایا اور اس سیریز کے اختتام پر شعیب ملک نے باعزت طریقے سے ٹیسٹ کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔آل راؤنڈر شعیب ملک 15 سالہ کیریئر میں 35 ٹیسٹ کھیل سکے ہیں 29اگست 2001 میں اپنا پہلا میچ بنگلہ دیش کے خلاف کھیلا اوریکم نومبر 2015 کو انگلینڈ کے خلاف وہ اپنا آخری ٹیسٹ شارجہ میں کھیلے تھے اس کے برعکس ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں وہ 16 سال میں 217 میچز کھیلنے میں کامیاب رہے 15 جون 2013 کو بھارت کے خلاف برمنگھم میں وہ آخری ون ڈے کھیلے تھے جس کے دو سال بعد انہیں زمبابوے کے خلاف پھر ٹیم کی نمائندگی کا موقع ملا تاہم ٹی ٹونٹی میں ان کی جگہ بنتی رہی اور 9سال میں انہیں 61میچز کھیلنے کو ملے۔ ٹیسٹ کیریئر کا اگر جائزہ لیں تو 2001 میں ایک ،2002 میں ایک، 2003 میں تین، 2004میں بھی تین، 2005 میں چھ، 2007 میں تین، 2009 میں سات اور 2010 میں انہیں چار ٹیسٹ کھیلنے کو ملے، 1999 سے 2015 تک ہر سال وہ ٹیم میں شامل رہے صرف ایک سال 2014 میں وہ ٹیم کا حصہ نہ بنے، اسی طرح ٹی ٹونٹی میں تو وہ 2006 سے 2015 تک ہر سال ٹیم میں شامل رہے، 16 سال ٹیم سے منسلک رہنے والے شعیب ملک کو کچھ عناصر نے قومی ٹیم میں مستقل جگہ نہ بنانے دی۔ اس کے باوجود انہیں جب بھی کھیلنے کا موقع ملا انہوں نے قومی ٹیم کو فتح دلانے کی پوری کوشش کی۔ 35ٹیسٹ میں ان کی3 سنچریاں اور 8نصف سنچریاں ہیں۔ ٹیسٹ کیریئر میں وہ 32 وکٹیں حاصل کر سکے جبکہ بیٹنگ میں انہوں نے 35.14 کی اوسط سے 1898 رنز بنائے۔ ون ڈے انٹرنیشنل میں شعیب ملک کی 8 میں سے چار سنچریاں بھارت کے خلاف ہیں، 8مرتبہ وہ ون ڈے میں 80سے 95 کے اسکور کے درمیان آؤٹ جبکہ ٹی ٹونٹی میں تین نصف سنچریاں بھارت، سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف اسکور کیں 2007 کے عالمی کپ کے بعد پی سی بی نے شعیب ملک کو پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا تھا جبکہ شعیب ملک کو 2009 میں قومی ٹیم کی قیادت سے ہٹایا گیاتھا۔شعیب ملک اب تک 244 ون ڈے میچ کھیل کر 8 سنچریوں اور 38 ففٹیز کی مدد سے 5852سے زائد رنز بنا چکے ہیں۔ جبکہ 153 کھلاڑیوں کو اپنی آف اسپن باؤلنگ کے ذریعے آؤٹ کر چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں نمائندہ ’’اردو قاصد‘‘ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور بہترین آل راؤنڈر شعیب ملک سے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ایک نشست کا اہتمام کیا اس میں ہونے والی گفتگو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔

سوال: سب سے پہلے تو آپ ہمارے قارئین کو اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیں؟
شعیب ملک: میرے آباؤ اجداد کا تعلق سیالکوٹ کے نواح میں واقع گاؤں رائے پور سے ہے۔دادا اور دادی کا میری پیدائش سے قبل ہی انتقال ہو گیا تھا۔ میرے والد محترم کا نام ملک فقیر حسین ہے جن کا انتقال ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرمائے(آمین)۔ میرے آباؤ اجداد کے لوگ کھیتی باڑی کے پیشے سے منسلک تھے۔ میرے والد محترم آبائی پیشے سے منسلک ہونے کے بجائے ذریعہ معاشی کمانے کیلئے سیالکوٹ شہر آکر آباد ہو گئے۔ ہماری رہائش مرے کالج کے عقب میں تھی۔ میں یکم فروری 1982 کو سیالکوٹ کے علاقے کالج روڈ میں پیدا ہوا۔ ہم پانچ بہن بھائی ہیں تین بڑی بہنیں مجھ سے بڑی پھر میرا نمبر میرے بعد چھوٹا بھائی عدیل ملک ہے۔ میرا نام میرے چھوٹے ماموں نے رکھا تھا میں چونکہ تین بہنوں کے بعد پیدا ہوا تھا اس لیے گھر میں سب کا لاڈلہ تھا اس وجہ سے میرے ساتھ وی آئی پی سلوک ہوتا تھا۔ میں اس چیز کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب شرارتیں کیا کرتا تھا۔ بچپن کے سہانے دنوں کی یاد یں میرا قیمتی اثاثہ ہیں۔ میری پیدائش کے کچھ عرصے بعد میرے والدین کراچی شفٹ ہو گئے تھے۔ جہاں پر 1982 سے لے کر 1991 تک ہم رہے۔ میرے ابو کی کراچی کے معروف ترین علاقے طارق روڈ پر سپورٹس کی دکان تھی۔ ابو کی سپورٹس شاپ پر 1989 میں عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی سلیم ملک اور وقار یونس آئے تھے تو میں نے ان سے آٹو گراف بھی لئے اور ان کے ساتھ تصاویریں بھی بنوائیں تھی جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ 1991 میں ہم لوگ کراچی سے دوبارہ سیالکوٹ شفٹ ہو گئے۔ تو گرمیوں کی چھٹیوں میں چند دنوں کیلئے اپنے گاؤں رائے پور جایا کرتا تھا۔ بچپن میں ہاکی کھیلتا تھا اور مجھے پتنگیں اڑانے کا جنون تھا۔ سکول سے واپسی پر میں کھانا کھانے کے بعد گھر کی چھت پرچڑھ کر پتنگ اڑانا میرا پسندیدہ ترین مشغلہ تھا۔ والدین اور بہنوں کو میرا یہ شوق سخت نا پسند تھا۔ پتنگیں اڑانے پر امی، ابو اور بہنوں سے کبھی کبھی پٹائی بھی ہوا کرتی تھی۔ اس کے باوجود میں پتنگیں اڑا کر خوب انجوائے کرتا تھا۔
سوال: آپ کرکٹ کے کھیل سے کس طرح منسلک ہوئے تھے؟
شعیب ملک: بچپن میں ہاکی کھیلنے اور پتنگیں اڑانے کے علاوہ کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ محلے کی گلیوں میں ٹینس اور ٹیپ بال سے کرکٹ بھی کھیلتا تھا۔ اس وقت مجھے مخالف باؤلرز کی گیندوں پر چوکے چھکے لگانا بے حد پسند تھا۔ میرے ابو مجھے کرکٹر بنانا چاہتے تھے اس کا اظہار انہوں نے کافی مرتبہ مجھ سے کیا بھی تھا۔ لیکن میری اولین ترجیح پتنگیں اڑانا ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ جب ابو نے مجھے گلی میں ٹینس بال سے کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھا تو وہ بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے میری بھرپور سپورٹ کرنا شروع کر دی۔ ابتداء میں تو مجھے کرکٹ کا کھیل زیادہ اچھا نہ لگا مگر آہستہ مگر آہستہ پتنگیں اڑانے کے شوق کی جگہ کرکٹ کے کھیل نے لے لی۔ اور پھر کرکٹ کاکھیل ہی میرا اوڑھنا بچھونا بن کررہ گیا۔ کرکٹ کا آغاز گلی محلے سے ٹیپ بال سے کھیلتے ہوئے کیا اور کئی بار محلے داروں کی کھڑکیوں کے شیشے توڑنے پر ڈانٹ بھی پڑی۔ والدہ اور بہنوں کی خواہش تھی کہ میں تعلیم پر توجہ دوں۔ کیونکہ وہ مجھے پڑھا لکھا کر بڑا افسر بنانا چاہتی تھیں لیکن مجھے کرکٹ کھیلنے کا جنون تھا۔والدہ اور بڑی بہنیں تو ہمیشہ کرکٹ کھیلنے سے منع ہی کیا کرتی تھیں وہ میرے کرکٹ کھیلنے کے سخت خلاف تھیں۔ اور وہ کہتی تھیں کہ کو ئی ضرورت نہیں ہے تمہیں کرکٹ کھیلنے کی۔ تم اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ دوکیونکہ کرکٹ کاکھیل تو محض وقت کا ضیاع ہے میں بہانے سے گھر سے نکلتا اور سیدھا گراؤنڈ میں چلا جاتا اور پھر خوب کرکٹ کھیلتا۔ جب گھر واپس آتا تو والدہ اور بڑی بہنوں سے اکثر ڈانٹ پڑتی تھی۔ امی اور بہنیں پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنے کو کہتی تھیں لیکن میں ہمیشہ پڑھائی سے جان چھڑاتا رہا اور صرف مجبوری کی خاطر پڑھائی جار ی رکھی۔ میں جی سی پی سکول سیالکوٹ میں پڑھتا تھا۔ پڑھائی میں اچھا نہ تھا۔ میں اکثر و بیشتر سکول سے بھاگ کر کرکٹ میچ کھیلا کرتاتھا۔ میچ کھیلنے کی وجہ سے گھر دیر سے پہنچنے پر امی اوربڑی بہن سے خوب ڈانٹ پڑتی تھی ۔ امی اور بہنوں کے بار بار سمجھانے پر جب میں کرکٹ کھیلنے سے باز نہ آیا۔ توجس بیٹ کے ساتھ میں اپنے علاقے کے دیگر ہم عمر لڑکوں کو گیندوں پر چھکے مارا کرتا تھا اسی بیٹ سے والدہ اور بڑی بہنوں کے ہاتھوں پٹائی ہوا کرتی تھی۔ میں چونکہ کرکٹ میچ کھیلنے کے لئے سکو ل سے بھاگ جایا کرتا تھا اس لیے سکول سے بھی کافی مرتبہ ڈانٹ پڑی اور پٹائی وغیرہ بھی ہو جاتی تھی۔ امی اور بہنوں کے برعکس میرے والد محترم ملک فقیر حسین صاحب اورمیرے بہنوئی عمران ملک صاحب نے میری بھرپور سپورٹ کی۔ اور ہمیشہ مجھے کرکٹ کھیلنے کے مواقع فراہم کئے۔ جب میں نے کرکٹ کھیلنا شروع کی تھی تو میرے ذہن میں اس بات کا شائبہ تک نہیں تھا کہ آل راؤنڈر بن جاؤں گا۔ کیونکہ مجھے تو بیٹنگ کا شوق تھا میں محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیل کر بڑا انجوائے کرتا تھا۔ میں نے جلد ہی اپنے علاقے میں ٹیپ بال کرکٹ میں اپنا نام بنا لیاتھا۔ رفتہ رفتہ شوق بڑھتا گیا اور اپنے علاقے کے نامور باؤلرز کو کھیل کر میرے اندر کافی اعتماد پیدا ہو گیا۔ جی سی پی سکول کے بعد میں نے گورنمنٹ جامع عربک ہائی سکول میں داخلہ لے لیا اور وہاں پرکرکٹ کھیلنا شروع کر دی اور جلد ہی میری بلے باز ی کی دھاک بیٹھ گئی۔ میرے بڑھتے ہوئے شوق کو دیکھ کر میرے بہنوئی عمران ملک نے مجھے سیالکوٹ کی مشہور پانئیر کرکٹ کلب میں داخلہ دلا دیا۔ کلب کرکٹ کوجوائن کرنے کے بعد میں نے سنجیدگی کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا۔ اور بہت جلد میرا شمارکلب کے بہترین کھلاڑیوں میں کیا جانے لگا۔ اس کے بعد میں نے ساگاسپورٹس میں شمولیت اختیار کی جہاں پر صوفی صاحب جیسے بہترین اور مخلص کوچ کی خدمات حاصل ہوئیں انہوں نے میری بھرپور مدد کی۔
سوال: جب آپ نے کلب کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا تو آپ بیٹسمین تھے یا باؤلر؟
شعیب ملک: میں نے ابتداء میں بیٹسمین کے طور پر کھیلنا شروع کیا تھا لیکن کچھ عرصے کے بعد میں نے باؤلنگ میں بھی سنجیدگی سے دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔
سوال: آپ آف اسپن باؤلنگ کی جانب کیسے آئے تھے؟
شعیب ملک: جب میں ٹیلی ویژن پر پاکستان کرکٹ ٹیم کے میچز دیکھتا تو جس طرح ثقلین مشتاق مخالف بیٹسمینوں کو اپنی گیندوں پر تگنی کا ناچ نچاتے تھے اس چیز نے مجھے بھی آف اسپن باؤلنگ کی جانب راغب کیا اور یوں میں نے کلب کی سطح پر نیٹ پریکٹس کے دوران ثقلین مشتاق کو کاپی کرتے ہوئے آف اسپن باؤلنگ شروع کر دی اور سخت مشق کے ذریعے اس شعبے میں مہارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
سوال: آپ نے سنجیدگی سے کب کرکٹ کھیلنا شروع کی؟
شعیب ملک: میں نے کرکٹ سنجیدگی سے کھیلنے کا آغاز 1993-94 میں کیا جب میں نے سیالکوٹ میں منعقدہ عمران خان کے پیپسی کوچنگ کلینک میں شرکت کی تھی۔
سوال: عمران خان کے پیپسی کلینک میں شرکت کے بعد آپ کی ترقی کا عمل کس طرح جاری رہا؟
شعیب ملک: اس کے بعد ایک طرح سے میری کرکٹ ختم ہو گی تھی کیونکہ مجھے کسی قسم کی کرکٹ نہیں ملی تھی۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے میں اپنے خاندان کی جانب سے خاصی مشکلات سے دو چار تھا کیونکہ ان کی خواہش تھی کہ میں پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی تعلیم پر توجہ دوں جس کی وجہ سے میں کچھ عرصے کیلئے کرکٹ سے دور ہو گیا۔
سوال: ابتداء میں آپ کے کیریئر کو آگے بڑھانے میں کس نے اہم ترین کردار ادا کیا؟
شعیب ملک: مجھے یاد ہے کہ پہلی مرتبہ بیٹ گیند ابو نے لے کر دیا تھ۔ ابو مجھے اپنی سائیکل پر بٹھا کر گراؤنڈ لے جایا کرتے تھے تو لوگ ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہیں کی اور ثابت قدمی سے مجھے آگے بڑھاتے رہے میں جب ہمت ہارتا تو وہ مجھے حوصلہ دیتے اور سخت محنت کی تلقین کرتے۔ میرے والد ہمیشہ سے ہی میری حوصلہ افزائی اور حمایت کرتے تھے جب سکول میں میرے میچز ہوتے تو وہ بڑی خاموشی کے ساتھ میرے بیگ میں کتابوں کے بجائے کرکٹ کا سامان رکھ دیا کرتے اور مجھے بھجوا دیتے تھے۔ اگر میرے ابو مجھے سپورٹ نہ کرتے تو میں آج اس مقام پر نہ ہوتا۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں اپنے والد کی وجہ سے ہوں۔ میں آج اپنی زندگی میں اپنے والد کی کمی شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ میں جب بھی سیالکوٹ میں ہوتا ہوں تو اپنے گاؤں رائے پور جا کر اپنے والد کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتا ہوں تو مجھے سکون مل جاتا ہے۔
سوال: آپ کے کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ کون سا تھا، کب آپ کو یقین ہوا تھا کہ’’ اب میں بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کروں گا‘‘؟
شعیب ملک: 1996 میں انگلینڈ میں کھیلے جانے والے لومبارڈ انڈر 15ورلڈ کپ کیلئے پاکستان ٹیم کے ٹرائلز ہونے کااعلان ہواتو والد صاحب نے ٹرائلز دینے کو کہا تھا۔ ٹرائلز دینے کیلئے والد کے ہمراہ لاہور آیا تو پہلے روز میری باری نہیں آئی اس لیے سیالکوٹ واپس جانا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ایک رات لاہور ریلوے اسٹیشن پر سو کر گزاری۔ ابو نے 20روپے کرائے پر ایک چارپائی لی تھی۔ساری رات مچھروں سے میچ کھیلتا رہا پھرصبح اٹھ کر ایک ریڑھی سے ناشتہ کیا اور پھر ویگن میں بیٹھ کر قذافی اسٹیڈیم جا پہنچے۔ پھر جب میری باری آئی تو میں نے بیٹنگ اورباؤلنگ دونوں شعبوں میں پرفارم کیا سلیکٹرز میری صلاحیتوں سے متاثر ہوئے اور اللہ کے فضل و کرم سے انگلینڈ میں لومبارڈ انڈر 15ورلڈ کپ کھیلنے والی پاکستان ٹیم میں میرا انتخاب ہو گیا تو والد صاحب مجھے کرکٹ کا بہترین سامان دلانے کیلئے اظہر زیدی صاحب کی دکان زیدی سپورٹس پر لے گئے اظہر زیدی صاحب نے سامان تو دیامگر بل نہ لیا اور میری رہنمائی بھی کی۔ میں اظہر زیدی صاحب کی اس خصوصی شفقت اور مہربانی پر آج بھی اُن کا بے حد ممنون و مشکور ہوں۔
سوال: آپ نے لومبارڈانڈر 15 ورلڈ کپ کیلئے پاکستان کی انڈر 15 کرکٹ ٹیم کے انتخاب کیلئے ہونے والے ٹرائلز میں بطور بیٹسمین شرکت کی تھی لیکن آپ کی سلیکشن بطور آف اسپن باؤلر کے کس طرح ممکن ہوئی تھی؟
شعیب ملک: لومبارڈ انڈر 15 عالمی کپ میں شرکت کرنے والی پاکستان کی انڈر 15 کرکٹ ٹیم میں مجھے میری باؤلنگ کی وجہ سے منتخب کیا گیا تھا اور میرا اندازہ ہے کہ یہ میری خوش قسمتی تھی۔ میں ٹرائلز پر تھا کہ وہاں کوچز میں سے ایک نے چند پارٹ ٹائم باؤلرز کے بارے میں دریافت کیا جو کہ بیٹسمینوں کو مشق کرا سکیں۔ میں چونکہ کسی طرح بھی خود کو اس سلسلے سے منسلک رکھنا چاہتا تھا لہٰذا میں نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دیں تاہم ہوا یہ کہ وہ میری آف اسپن باؤلنگ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے مجھے ٹیم میں منتخب کر لیا۔
سوال: جب آپ کو پاکستان کی انڈر 15 کرکٹ ٹیم میں سلیکٹ کر لیا گیا تھا تو اس وقت آپ کے کیا احساسات تھے؟
شعیب ملک: پاکستان کی انڈر 15کرکٹ ٹیم میں نام آیاتو میں بہت زیادہ خوش تھاکیونکہ میری پڑھائی سے جان چھوٹ گئی تھی اور مجھے اب صرف کرکٹ کھیلناتھی۔ میرے والدین بھی بہت زیادہ خوش تھے اور جب ٹیم گوروں کے دیس روانہ ہوئی تو مجھے میرے والدین لاہور ایئر پورٹ پر چھوڑنے کیلئے آئے تھے۔ میں 1996 میں پہلی مرتبہ انڈر 15ورلڈ کپ کھیلنے کے لئے انگلینڈ گیا اور عمدہ پرفارمنس دکھائی تو اسی دن سے میرا ٹارگٹ تھا کہ اب مجھے پاکستان کرکٹ ٹیم میں جگہ بنانی ہے۔
سوال: اس کے بعد کس طرح آپ کا کیریئر آگے بڑھا؟
شعیب ملک: میں نے لومبارڈ انڈر 15 ورلڈ کپ میں پاکستان کی انڈر 15 کرکٹ ٹیم کی طرف سے کھیلتے ہوئے دونوں شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ لومبارڈ انڈر 15 عالمی کپ سے واپسی کے بعد میرا انتخاب انگلینڈ کی انڈر 19 ٹیم کے خلاف سیریز کے لیے کیا گیا جس میں اینڈریو فلنٹوف اور آنجہانی ہولی اوک جیسے کھلاڑی بھی موجود تھے۔ میں نے اس ٹیم کے خلاف فیصل آباد کے منی ٹیسٹ میں 4/38 اور 2/36 کی کارکردگی سمیت 6 وکٹیں حاصل کی تھیں جبکہ 28 رنز بھی بنائے تھے۔ اس کے بعد میں نے جونیئر ٹیم کے ہمراہ مختلف ملکوں کے دورے کئے جن میں میری کارکردگی نمایاں رہی۔ جونیئر سطح پر میرے کھیل کو دیکھ کر ہر کسی نے میری بھرپور حوصلہ افزائی کی اورلوگوں نے مجھے سے کہا کہ شعیب تم ایک دن ضرور پاکستان کی طرف سے کھیلو گے۔ لوگوں سے تعریفیں سننے کے بعد میں نے فیصلہ کیاکہ اب مجھے پہلے کہیں زیادہ محنت کرنی چاہیے اور میرا مشن صرف قومی ٹیم میں شمولیت ہونا چاہیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے کامیابیاں ملتی گئیں اور مجھے یقین ہوتا گیا کہ میں ضرور قومی ٹیم میں آؤں گا۔
سوال: کیا آپ کو اپنے فرسٹ کلاس کیریئر کا آغاز یاد ہے؟
شعیب ملک: جی ہاں یاد ہے اچھی طرح سے میں نے گوجرانوالہ ڈویژن کی طرف سے کھیلتے ہوئے 1997 کے ڈومیسٹک سیزن میں کراچی بلیوز کے خلاف اپنے ڈیبیو پر پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔
سوال: اچھا آپ یہ بتائیے کہ پی آئی اے کی ٹیم میں شمولیت کس طرح ممکن ہوئی تھی؟
شعیب ملک: گوجرانوالہ کی جانب سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلتے ہوئے میں نے پی آئی اے کرکٹ ٹیم کے خلاف بہت ہی اچھاپرفارم کیاتھا اوریہی میر ی خوش قسمتی تھی کہ پی آئی اے ٹیم کے منیجر راشد خان نے مجھے پی آئی اے سے منسلک ہونے کی آفر کی جسے میں نے فوراً قبول کر لیا۔ یہاں پر مجھے اپنے کھیل کو سنوارنے میں بہت زیادہ مدد ملی کیونکہ راشد خان نے مجھے اچھا کھلاڑی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ان کی جانب سے ملنے والی راہنمائی کے علاوہ معین خان، وسیم اکرم، ثقلین مشتاق اور آصف مجتبیٰ وغیرہ نے بھی میری بھرپور حوصلہ افزائی کی اور مجھے کھیل سے متعلق مفید باتوں سے آگاہ کیا ان سب کا کہنا تھا کہ مجھے بہت کچھ سیکھنا اور بڑا کھلاڑی بننا ہے اور میرا خیال ہے کہ میں نے پی آئی اے کے لئے کھیلتے ہوئے کھیل کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا ہے جو آج میرے کام آرہا ہے پی آئی اے کی ٹیم میں کھیلتے ہوئے راشد خان کی وجہ سے میرے اوپر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں تھا راشد خان نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ کون سا کرکٹر ہے جو خود کو سپر اسٹارز کے درمیان نہیں دیکھنا چاہتا تم اس موقع سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے۔ لہٰذا میں نے سخت محنت کر کے PIA کی حتمی الیون میں اپنی جگہ بنائی تھی۔
سوال: آپ خالصتاً جونیئر کرکٹ کی پیداوار ہیں آپ کے نزدیک انڈر 15، انڈر 19 ، پاکستان اے کرکٹ ٹیموں کے دوروں نے آپ کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب کئے؟
شعیب ملک: جونیئر لیول پر قومی ٹیم کی نمائندگی کر کے میں ذہنی مضبوطی اور مثبت اپروچ کے حصول میں کامیاب رہا اور پھر جب میں نے قومی ٹیم میں قدم رکھا تو میرے لیے بہت سی باتیں نئی نہیں تھیں جو میرے لیے مشکل کا سبب بنتی۔
سوال: شعیب آپ کے خیال میں آپ کے کھیل میں وہ کیا چیز تھی جس کے سبب آپ سلیکٹرز کی نظروں میں آگئے اور آپ کو 1999 میں شارجہ میں کھیلے جانے والے تین ملکی کرکٹ ٹورنامنٹ کیلئے قومی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا؟
شعیب ملک: پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم کی جانب سے کھیلے گئے میچز میں عمدہ پرفارمنس دکھانے کے علاوہ 1999 میں ڈومیسٹک سیزن میں کھیلے گئے ولزکپ ون ڈے کرکٹ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کر کے ٹورنامنٹ کا بہترین اور نمبر ون باؤلر قرار پایاتھا۔دراصل وسیم اکرم اور معین خان ولز کپ سیمی فائنل کے دوران جو کہ پی آئی اے اور الائیڈ بینک کے مابین کھیلا جا رہا تھا مجھے دیکھ کر خاصے متاثر ہوئے تھے۔ اس میچ کے لیے زخمی ہونے کے سبب ثقلین مشتاق نہیں کھیل رہے تھے لہٰذا مجھے موقع دیا گیا تھا میں نے بہت کم رنز دے کر کچھ وکٹیں حاصل کیں اور اس سال چونکہ میں ولز کپ کا نمایاں باؤلر تھا لہٰذا وسیم اکرم اور معین خان میری کارکردگی کو دیکھ کر کافی متاثر ہوئے تھے۔ مجھے اسی شام فلائٹ پکڑ کے کراچی سے سیالکوٹ جاناپڑا اور جب میں گھر پہنچا تو میری فیملی کے افراد نے یہ خبر سنائی کہ میں قومی ٹیم میں منتخب کر لیا گیا ہوں۔ 1999 میں شارجہ میں کھیلے جانے والے تین ملکی کرکٹ ٹورنامنٹ کیلئے میرا نام پاکستان کرکٹ ٹیم میں آیا تھا۔یہ وہ نمایاں کارکردگی تھی جو کہ پہلی مرتبہ میری قومی ٹیم میں شمولیت کاباعث بنی تھی اورمیرا انتخاب 1999 میں شارجہ میں کھیلے گئے تین ملکی کرکٹ ٹورنامنٹ کے لئے ہوا تھا۔
سوال: اُس وقت آپ کے کیا احساسات تھے؟
شعیب ملک: جب پہلی مرتبہ میرا نام پاکستان کرکٹ ٹیم میں آیا تو وہ خوشی میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا میں ساری رات سو نہیں سکا تھا رات بستر پر لیٹے خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے میری سخت محنت کا صلہ دے دیا تھا۔ مجھ سے زیادہ خوشی میرے والدکو تھی کیونکہ ان کا خواب پورا ہو گیا تھا۔ میرے والد نے مجھے ہمیشہ سخت محنت کرائی تھی۔ والدہ اور بہنوں کی خوشی کا تو کوئی حساب ہی نہ تھا۔
سوال: 2001 میں جب آپ کے باؤلنگ ایکشن کو مشکوک قرار دے دیا گیا تھا تو اس وقت آپ اپنا کیریئر کس طرح دیکھ رہے تھے؟
شعیب ملک: بنیادی طور پر یہ اس وقت ہوا تھا جب میں اپنی سیدھی رہ جانے والی گیند پھینکتا تھا تو لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ میرا بازو مڑ جاتا ہے جس کے پیش نظر میں نے پاکستان میں اپنے ایکشن کی بہتری پر کام کیا اور یہ مشکل بہت جلد ہی حل ہو گئی اور بغیر کسی افراتفری کے لیکن ایک مرتبہ پھر یہ مسئلہ کھڑا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ٹینس ایلبو اور کالر بون فریکچر کی وجہ سے کبھی کبھی درست ایکشن کے ساتھ باؤلنگ کرنے کے باوجود میں اپنا بازو سیدھا نہیں رکھ پاتاتھا۔ ٹینس ایلبو کی شکایت مجھے 2000 میں ہوئی تھی جبکہ انگلینڈ کے خلاف 2001 کی سیریز میں کالر بون فریکچر کا سبب فیلڈ میں ایک کیچ کرتے ہوئے شاہد آفریدی سے تصادم ہوا تھا۔ آئی سی سی کی طرف سے پاکستانی ماہرین کو جو ویڈیو ٹپس ارسال کی گئی ہیں ان میں میرے اوپر براہ راست گیند تھرو کرنے کا الزام عائد نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ویڈیو میں ایسی کوئی نشاندہی ہوئی تھی بلکہ آئی سی سی کا موقف یہ تھا کہ بلائنڈ آئی سے جائزہ لینے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا ہاتھ سیدھا نہیں آرہا ہے۔ جب 2001میں میرے باؤلنگ ایکشن کو مشکوک قرار دیا گیا تھا تو وہ دن میری زندگی کے مشکل ترین تھے اس وقت بڑے کرب میں تھا۔ اس الزام کے تحت پابندی لگی تھی مجھے یوں دکھائی دے رہا تھا کہ شاید اب میری کرکٹ ختم ہو گئی ہے اس وقت سوچ لیا تھا کہ اب پراپرٹی کا بزنس کروں گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت دی اور اس امتحان میں بھی سرخرو کیاتھا۔
سوال: آپ نے اپنے 16 سالہ کیریئر کے دوران مختلف کوچز کے ساتھ وقت گزارا یہ بتائیں کہ وہ کون سا ایسا کوچ تھا جس نے آپ کے کیریئر پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے؟
شعیب ملک: یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں چند بہت ہی اچھے کوچز کے ماتحت کھیلا ہوں جنہوں نے مجھے کھیل کے متعلق مختلف قسم کی باتوں سے آگاہ کیا۔ لیکن میں نے اپنی زندگی میں آنجہانی باب وولمر جیسا کوچ نہیں دیکھا۔ ان کی طرف سے ملنے والے مفید مشوروں نے میرے کھیل میں سب سے زیادہ نکھار پیدا کیا۔ انہوں نے مجھے ذہنی طور پر سب سے زیادہ مضبوط بنایا۔ باب وولمر نے مجھے چند سادہ مگر بہت ہی اہم باتیں بتائی جیسے کہ بیٹنگ کے دوران شفل کرنے کے بارے میں جبکہ باؤلنگ کے متعلق چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کیں۔ باؤلنگ کے دوران گیند پھینکتے وقت بازو کے جوڑ کی ایڈجسٹمنٹ بھی خاصی اہم بات ہے جو کہ اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ لائن و لینتھ درست رکھی جا سکے۔ یہ بالکل سادہ اور آسان مگر بڑی کارگر باتیں تھیں جو کہ آج میرے کام آرہی ہیں۔ باب وولمر نے مجھ سمیت دیگر نوجوان کرکٹرز میں بے پناہ اعتمادپیدا کیا ہے۔ ان کی انقلابی سوچ نے میرے کھیل میں تحریک پیدا کی ہے۔ باب وولمر آج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن آج بھی مجھ سمیت بے شمار کرکٹرز ان کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں کیونکہ باب وولمر بہترین کوچ اور ایک انسان دوست شخص تھے۔ جن کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔
سوال: آپ ماضی میں مختلف کاؤنٹیوں کی طرف سے کھیل چکے ہیں انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کا تجربہ کیا رہا؟
شعیب ملک: بہت ہی عمدہ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ کرکٹرز کیلئے کاؤنٹی کرکٹ انتہائی ضروری ہے، محض اس وجہ سے بھی کہ یہ آپ کے اندر پیشہ وارانہ احساس جگا دیتی ہے اور اس چیز نے میرے اوپر بڑے مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ ایک سمندر پار پیشہ ور کھلاڑی کے طور پر آپ کو ذمہ اری کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ آپ کو اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ مسلسل اچھی کارکردگی کے لیے ٹیم آپ کے اوپر انحصار کر رہی ہے۔ کاؤنٹی کرکٹ سے حاصل شدہ تجربہ انٹرنیشنل کرکٹ میں میرے لیے مددگار ثابت ہورہا ہے۔
سوال: آپ بہت پرسکون، دھیمے ٹمپرامنٹ کے مالک ہیں، فیلڈ میں آپ کا رویہ ہمیشہ سے ایسا ہے یا وقت گزرنے کے ساتھ اس کی تعمیر ہوئی ہے؟
شعیب ملک: ابتدائی برسوں میں خاصا جلد باز اور بہت جلد مشتعل ہونے والانوجوان تھا۔ میری سوچ ہمیشہ سے ہی اچھی ہے اور میں خاصی مستحکم اور پرسکون شخصیت کا مالک ہوں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ مجھے انضمام الحق اور محمد یوسف جیسے کھلاڑیوں کی جانب سے مدد ملتی رہی ہے کہ اپنے جذبات پر قابو کس طرح رکھا جاتا ہے خاص طور پر اس جب آپ بیٹنگ کر رہے ہوں۔ دراصل بنیادی طور پر سارا معاملہ ان منفی سوچوں کا ہے جنہیں آپ کو اپنے کھیل سے نکال باہر کرنا ہوتا ہے۔ سینئرز کی طرف سے دباؤ پر قابو پانے کے حوالے سے گفتگو بہت زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اسے ’’آدھی لڑائی‘‘ کیوں کہا جاتا ہے اور یہ بات بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔
سوال: آل راؤنڈر کے طور پر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ اگر ایک شعبے میں ناکام ہو جائیں تو پھر دوسرے میں کامیابی انتہائی ضروری ہو جاتی ہے؟
شعیب ملک: دیکھیں۔۔۔ کرکٹ میں بھی دوسری تمام چیزوں کی طرح اچھے اور برے دن ہوتے ہیں اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ اگر آپ اس طرح سوچنا شروع کر دیں کہ میں بیٹنگ میں ناکام ہوگیا ہوں لہٰذا اب باؤلنگ میں کچھ کر دکھانے کی لازمی طور پر ضروری ہے تو اس طرح آپ اپنے اوپر غیر ضروری دباؤ لاد لیں گے اور مسلسل غلطیوں کا راستہ کھول دیں گے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں کو بالکل نارمل انداز سے دیکھیں اور میدان میں جا کر نارمل انداز سے پرفارم کرنے کی کوشش کریں۔
سوال: آپ نے پاکستان کیلئے ہر پوزیشن پر بیٹنگ کی ہے، اگر آپ کہ یہ آزادی دی جائے کہ آپ کس پوزیشن پر کھیلنا چاہیں گے تو آپ کا انتخاب کیا ہو گا؟
شعیب ملک: میں اپنے لیے نہیں بلکہ پاکستان کیلئے کھیلتا ہوں۔ میرے نزدیک ٹیم کا مفاد سب سے پہلے ہوتا ہے۔ لہٰذا قومی ٹیم کی مینجمنٹ مجھے جس پوزیشن پر بھی کھیلنے کیلئے بھیجتی ہے میں اس پوزیشن پر کھیل کر مطمئن ہوتاہوں۔ ہر ٹیم میں کوئی نہ کوئی ایسا کھلاڑی ضرور ہوتاہے جو میچ کی ہر سچویشن کے مطابق کھیلنے کا فن جانتا ہے۔ اگر ٹیم کا کوچ، کپتان اور منیجر مجھے میچ سچویشن کے مطابق میدان میں بھجواتے ہیں تو یہ ان سب کا مجھ پر اعتماد ہے۔ جس پر پورا اترنے کی میں ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ میچ سچویشن کے مطابق کھیلنے کی وجہ سے ہی میں کسی نمبر پر سیٹ نہیں ہو سکا۔ میں چونکہ ایک ٹیم مین ہوں اس لیے انفرادی کارکردگی پر یقین نہیں رکھتا۔ مجھے اپنی اس کارکردگی پر خوشی ہوتی ہے جس سے ٹیم فتح حاصل کرے۔ میں ٹیم کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کھیلتا ہوں مجھے پاکستان ٹیم کو فتح دلوا کر جو خوشی ملتی ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔
سوال: آپ کو کئی مرتبہ اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود قومی ٹیم سے ڈراپ کیا گیا، قومی ٹیم سے ڈراپ ہونے پر یقیناًمایوسی تو ہوتی ہو گی، کیا کبھی اس دوران کرکٹ چھوڑنے کا خیال دل میں آیا؟
شعیب ملک: وقتی طور پر تھوڑا دکھ تو ضرور ہوتا ہے کہ مناسب کارکردگی دکھانے کے باوجود آپ کو ٹیم سے ڈراپ کر دیا جائے لیکن اس کا یہ تو قطعی مطلب نہیں کہ آپ مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں۔ کرکٹ تو زندگی کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے جو کچھ بھی مجھے ملا ہے وہ کرکٹ ہی کی بدولت ملا ہے اور آئندہ بھی جو کچھ ملے گا اس کاذریعہ کرکٹ ہی ہو گی۔ میری جاب ہی کرکٹ ہے جس کی بنیاد پر میں قومی ٹیم کی طرف سے بھی کھیلا ہوں۔ کرکٹ میرا جنون ہے،میری محبت ہے۔ اسی لیے کبھی بھی کرکٹ چھوڑنے کا خیال دل میں نہیں آیا اور نہ ہی میں کرکٹ کھیل سے دور رہ سکتا ہوں۔ قومی ٹیم سے ڈراپ ہونے پر میں پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر اس میں عمدہ پرفارمنس دکھائی۔ اسی طرح غیر ملکی لیگز میں شرکت کر کے بہترین کھیل پیش کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر خود کو ایک مضبوط امید وار کے طور پر پاکستان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کیلئے پیش کیا۔
سوال: جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف نے 2007 کے عالمی کپ کے بعد انضمام الحق کی جانب سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد آپ کو پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا تھا تو آپ کے کیا احساسات تھے؟
شعیب ملک: جب میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا تو مجھے یہ خواب سالگ رہا تھاکیونکہ18 کروڑ کی آبادی میں سے پاکستان ٹیم میں آنا بہت بڑی بات ہوتی ہے اور جب کرکٹ بورڈ نے مجھے قومی ٹیم کا کپتان بنایا تو حیرت انگیز خوشی ہوئی تھی۔
سوال: پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا تجربہ کیسا رہا؟
شعیب ملک: قومی کرکٹ ٹیم کی کپتانی بہت ہی مشکل اور ذمہ داری والا کام تھا پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی پھولو ں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھرا تاج ہے۔ ایک چھوٹی سی غلطی آپ کوکہاں سے کہاں پہنچا سکتی ہے۔اس لیے بڑا محتاط ہو کر چلنا پڑتا ہے۔ میں قومی ٹیم کی کپتانی اور اپنے کھیل سے پوری طرح سے لطف اندوز ہواتھا۔ میں نے قومی ٹیم کی کپتانی قومی فریضہ سمجھ کر قبول کی تھی اور اسے پوری ایمانداری سے نبھا یاتھا۔ جب PCB نے مجھے قومی ٹیم کا کپتان بنایا تھا تب انضمام الحق نے ٹیلی فون کرکے کپتان بننے کی مبارک بار دی تو مجھے بہت ہی اچھا لگا تھا۔ میرا اولین ٹارگٹ یہی تھا کہ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو ایک مرتبہ پھر سے ورلڈ نمبر ون ٹیم بنا دوں۔ ہمارے ملک میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ لوگ شکست کو تسلیم نہیں کرتے اگر قومی ٹیم ہار جائے تو اس پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ جس سے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھنے کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اگر ٹیم جیت جائے تو کھلاڑی کو آسمان پر لاکھڑا کیا جاتا ہے جیتنے پر ہیرو اور ہارنے پر زیرو، تو یہ تاثر ختم کرنا ہو گا کیونکہ شکست کے پیچھے ہی جیت چھپی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں کچھ ایسے عناصر سرگرم ہیں جو کہ ٹیم کی پوزیشن کمزور ہوتے ہی اس پر شدید تنقید کرنی شروع کر دیتے ہیں تنقید برائے تنقید سے کھلاڑیوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی پاس نہ رہنے کے بعد بھی میں نے بطور عام کھلاڑی قومی ٹیم کو فتح کے ٹریک پر گامزن کرنے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کھیلاہوں اور اب بھی کھیل رہا ہوں۔
سوال: کپتان کے طور پر ٹاس کی آپ کے نزدیک کتنی اہمیت تھی؟
شعیب ملک: ٹاس کی اپنی ایک اہمیت ہے اگر آپ وکٹ کا صحیح طور پر اندازہ کر سکتے ہوں۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ آپ غلط فیصلہ کر بیٹھے ہیں لیکن اس کا تمام تر دارومدار آپ کے باؤلرز یا بیٹسمینوں کی کارکردگی پر بھی ہوتا ہے۔ اگر ٹاس جیتنے کے بعد باؤلرز نے ابتدائی اوورز میں درست جگہ پر گیندیں نہیں کیں اور کسی ٹیم کو ابتدائی تین اوورز میں تین نوباؤلز مل جائیں تو بیٹسمینوں کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور دباؤ قائم نہیں رہتا۔ سیمنگ ٹریک پر آپ ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کر رہے ہوں اور آپ کے باؤلرز سیم ہٹ کرنے میں ناکام رہیں تو پھر کپتان کو اپنے فیصلے کا دفاع کرنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔
سوال: ساتھی کھلاڑیوں کی حمایت بھی کیا کپتان کیلئے اہمیت کی حامل ہوتی ہے؟
شعیب ملک: میں اپنے ساتھی کھلاڑیوں کی اردگرد موجودگی کو بہت اہمیت دیتا تھا کیونکہ کپتان کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے تمام کھلاڑیوں کی حمایت حاصل ہو۔ میں نے جب قیادت سنبھالی تھی تو یہ کوشش کی تھی کہ متحد ہو کر کھیلیں اور فائٹ کریں یہی میرا اہم ترین ٹارگٹ تھا۔ جس کیلئے میں سب کو ساتھ رکھنے اور ایک اچھی ٹیم کے طور پر کھیلنے کی کوشش کرتا رہا۔ میں نے قومی ٹیم کی کپتانی کا نہ تو خواب دیکھا تھا اور نہ ہی یہ میری تمنا تھی مگر جب 2007 کے عالمی کپ کے بعد یہ عہدہ مجھے دیا گیا تو میں نے اسے چیلنج سمجھ کر قبول کر لیا تھا کیونکہ قومی ٹیم کی قیادت ایک اعزاز کی بات ہوتی ہے۔
سوال: بطور کپتان کس ساتھی کھلاڑی نے آپ کی سب سے زیادہ مدد کی تھی؟
شعیب ملک: عبدالرزاق، شعیب اختر، شاہد خان آفریدی، محمد یوسف نے میری بڑی مدد کی تھی۔ جن پر میں ان کا بے حد ممنون و مشکور ہوں۔
سوال: بطور کپتان آپ نے کبھی خود کو دباؤ کا شکار محسوس کیا تھا؟
شعیب ملک: بطور کپتان مجھے دیگر کھلاڑیوں سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھانے کی فکر لگی رہتی تھی کیونکہ کپتانی میرے لیے ٹیم میں جگہ برقرار رکھنے کی ضمانت نہیں تھی۔ بلکہ کپتان کے طور پر مجھ پر زیادہ بہتر کارکردگی پیش کرنے کے حوالے سے دباؤ ہوتا تھا۔ مجھے کسی بھی صورت پاکستان کی کامیابیوں میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا تھا۔ مجھے اپنی اور ٹیم کی کارکردگی کو ہمہ وقت نگاہ میں رکھنا ہوتا تھا۔
سوال: جب آپ بھارت کے خلاف میچ کھیل رہے ہوتے ہیں تو اس وقت آپ کے جذبات کیا ہوتے ہیں؟
شعیب ملک: ہم لوگ بھارت کے خلاف پورے جوش کے ساتھ کھیلتے ہیں اور سخت محنت کرتے ہیں۔ ہم موقع کا انتظار کرتے ہیں اور موقع ملنے پر اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اپنی کرکٹ کا بھرپور لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہم لوگ تماشائیوں کو بھی لطف اور خوشی فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ بھارت کے خلاف کھیلتے ہوئے ہمارا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا ہے۔ ہم روایتی حریف بھارت کے خلاف جیت کے جذبے سے سرشار ہو کر میدان میں اترتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں پڑوسی ممالک کے عوام سیاسی مصلحتوں سے ہٹ کر کرکٹ میچز دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاک بھارت میچز دونوں طرف کے عوام کی توجہ کھینچ لیتے ہیں۔ پاک بھارت کرکٹ میچز دونوں پڑوسی ممالک کے عوام کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاک بھارت کرکٹ میچز زیادہ ہونے سے لوگوں میں ہم آہنگی ہو گی جس سے محبت بڑھے گی۔
سوال: آپ 2009 تک کپتان رہے اس موقع پر مینجمنٹ کی رپورٹ تھی کہ الگ تھلگ رہنے والے ایک قائد ہیں؟
شعیب ملک: ویسٹ انڈیز سے 3 میچز جیتے تو ان کی رپورٹ تھی کہ شعیب سب سے اچھا کپتان اور کھلاڑیوں سے مل جل کر رہتا ہے میں نہیں سمجھ پایا کہ 3 ماہ میں ہی کیسے میری فطرت تبدیل ہو گئی تھی، ہاں کبھی کبھی مجھے خود سے بات کرنا ہوتی ہے، کتابیں پڑھنا، اپنی ذات کو بھی تھوڑا وقت دینا الگ تھلگ رہنا نہیں ہوتا، میدان میں تو کوئی بھی گونگا کپتان بن کر نہیں رہتا، تمام معاملات پر نظر رکھنی اور بات بھی کرنا پڑتی ہے دیکھنا چاہیے کہ کرکٹ کہاں جا رہی ہے۔ میں گراؤنڈ میں ہوں تو فائٹ کرتا ہوں، کسی کھلاڑی سے دوستی ہو یا نہیں غلطی پر بطور کپتان میرا سب سے سلوک ایک جیسا ہو گا یہ نہیں کہ ایک کو ڈانٹ پلا دی دوسرے کی کی بڑی غلطی پر بھی کچھ نہ کہا، میں کسی کی بے جا حمایت کے حق میں نہیں ہوتا، میڈیا اور سابق کرکٹرز بھی کم ہی میری سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ میں ان کو فون نہیں کرتا، ماضی کے سٹارز سے میں بہت کچھ سیکھنا اور انہیں اپنا بڑا بھائی سمجھتا ہوں ان کو بھی سمجھنا چاہیے کہ میری ملک کے لیے خدمات ہیں، میں پاکستان کا ہی ایک کرکٹر ہوں اگر میرے کھیلنے سے قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے تو ذاتی سوچ کو سامنے نہیں رکھنا چاہیے۔ہماری ساری فکر مندی ملک کیلئے ہونی چاہیے۔
سوال: غیر ملکی لیگز میں آپ تیسرے نمبر پر کھیلتے ہوئے پر اعتماد بیٹنگ کرتے نظر آئے باہر کے لوگ آپ پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں؟
شعیب ملک: لگتا تو ایسا ہی ہے وہ کبھی آپ کو ٹیم سے باہر ہونے کا احساس نہیں دلاتے اور اعتماد دیتے رہتے ہیں دنیا کا ہر کھلاڑی ہر میچ میں عمدہ پرفارم نہیں کر سکتا تاہم صلاحیتوں پر اعتماد ختم نہیں ہو جاتا، غیر ملکی لیگز میں کپتان و مینجمنٹ صبر سے بہتر نتائج کا انتظار کرتے ہیں اس وجہ سے اگلے ہی دن کھلاڑی نئے عزم کے ساتھ میدان میں اترتے ہوئے بہتر پرفارم کرنے میں کامیاب ہوتا ہے کرکٹر کے جوہر کو پرکھنے والی آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے 2,1 میچ خراب رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ صلاحیت ہی ختم ہو گئی پاکستان کرکٹ میں بھی اس سوچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، چمپئنز لیگ میں زیادہ رنز نہیں کر سکا مینجمنٹ کے ارکان اگلے ہی میچ میں میرے گرد گھوم رہے تھے کہ تم اس بار کچھ خاص کر کے دکھا سکتے ہو۔ تم میں یہ صلاحیت موجود ہے اس حوصلہ افزائی کے بعد آپ بے خوف ہو کر نئے دن نئی پرفارمنس کیلئے میدان میں اترتے ہیں پرفارمنس خراب ہو اور اوپر سے کانوں میں یہ بات ڈالنی شروع کر دی جائے کہ تمہارے ساتھ یہ ہونے والا ہے تو مضبوط انسان بھی ڈگمگا جائے گا۔ اس صورتحال میں پلیئرز کو ڈرانا مناسب نہیں ہوتا نوجوان کرکٹرز کی گرومنگ کے لیے یہ بات بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے منفی ماحول کی وجہ سے کئی باصلاحیت ینگسٹرز بھی اس سطح کے کرکٹر نہیں بن سکے جس کے وہ مستحق ہیں۔
سوال: بلاشبہ آپ ایک محب وطن کھلاڑی ہیں جس نے ہمیشہ پاکستان کو فتح دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن اس کے باوجود آپ کو ناقدین نے سفارشی کھلاڑی بھی کہا؟
شعیب ملک: میں سیدھی سادھی کرکٹ کھیلتا ہوں اور مجھے سیاست نہیں آتی نہ چمچہ گیری کرتاہوں۔ اللہ سے مانگتا ہوں اور اللہ نے عزت دی ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا کی لیگز میں کھیلتا ہوں۔ اگر سفارشی ہوتا تو انگلینڈ، آسٹریلیا، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز میں مجھے پر کشش معاہدے نہیں ملتے۔ عزت اور کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان ٹیم کیلئے کھیلا اور اب بھی کھیل رہا ہوں۔ میں ناقدین کی باتوں پر کان نہیں دھرتا بلکہ میری اولین کوشش ہوتی ہے کہ میدان میں جا کر بیٹنگ ، باؤلنگ اور فیلڈنگ کے شعبوں میں اپنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کروں۔ میں ناقدین کی تنقید کا جواب باتوں سے نہیں بلکہ اپنی کارکردگی سے دینا پسند کرتا ہوں۔
سوال: پاکستان میں 6 برس کے طویل عرصے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی پر آپ کیا کہیں گے؟
شعیب ملک: پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہر یار خان سمیت بورڈ کے دیگر عہدیداروں کی محنت رنگ لے آئی ہے اور اللہ کے خصوصی فضل و کرم سے پاکستان میں ایک بار پھر انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوئی ہے۔ پی سی ہوٹل سے قذافی اسٹیڈیم تک کا تقریباً تین کلو میٹر کا فاصلہ 6 برس میں طے ہوا ہے۔ جس پر میں زیادہ خوش اس لیے بھی ہوں کیونکہ جب سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تو میں اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم میں شامل تھا اور اب جب پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوئی ہے تو میں قومی ٹیم کا حصہ ہوں۔ میں زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں ٹیم آفیشلز اور کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں کا بھی بڑا شکر گزار ہوں جنہوں نے پاکستان آکر ہمارے ویران میدانوں کوآباد کیا۔ اس پر میں اپنی وفاقی اور صوبائی حکومت کا بھی بڑا ممنون و مشکور ہوں جنہوں نے زمبابوے کی ٹیم کے کھلاڑوں کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی۔ پاک زمبابوے سیریز میں شائقین کھیل کا جوش بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ پاک زمبابوے سیریز کے کامیاب انعقاد کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اب آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ، بھارت اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں کو بھی پاکستان آکر کھیلنا چاہیے کیونکہ پاکستان کھیلوں کے حوالے ایک پر امن ملک ہے۔
سوال: کھلاڑی چونکہ ملک کے سفیر ہوتے ہیں لہٰذا جب بھی آپ کرکٹ کھیلنے کی غرض سے مختلف ممالک میں جاتے ہیں تو وہاں پر دیگر ٹیموں کے کھلاڑی اور عوام آپ سے پاکستان کے حالات بارے گفتگوتو کرتے ہی ہوں گے؟
شعیب ملک: جی بالکل کرتے ہیں غیر ملکی لیگز کھیلنے کے دوران مختلف ممالک کے پلیئرز مجھ سے سوال پوچھتے ہیں کہ آپ پاکستان میں کس طرح رہتے ہیں وہاں پر تو حالات بہت زیادہ خراب ہیں تو میں ان کو بتاتا ہوں کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہے جس کی عوام کھیلوں اور کھلاڑیوں بالخصوص کرکٹ کے کھیل سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ پاکستان میں حالات اتنے زیادہ بھی خراب نہیں ہیں جتنا کہ انٹرنیشنل میڈیا دکھاتا ہے میں اپنے ملک میں اکیلا آزادی کے ساتھ گھومتا پھرتا ہوں کیونکہ آپریشن ضرب عضب کے بعد پاکستان کے حالات کافی بہتر ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور آرمی کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان جلد ہی امن کا گہوارہ بن جائے گا اور آنے والے برسوں میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوششوں سے انٹرنیشنل کرکٹ کی بہار پھر سے لوٹ آئے گی۔ تمام بڑی ٹیمیں پاکستان کے میدانوں میں کھیلتی ہوئی نظر آئیں گی۔
سوال: تقریباً اڑھائی برس کے بعد قومی ٹیم میں واپسی پر زمبابوے کے خلاف T20 میچز میں توقعات کے مطابق پرفارم نہ کرنے کے بعد ون ڈے کرکٹ میں شاندار سنچری کے ساتھ کم بیک کرنے پر کیسا محسوس کیا تھا؟
شعیب ملک: قومی ٹیم میں واپسی پر شاندار کارکردگی دکھانے کے حوالے سے مجھ پر دباؤ تھا T20 میچز میں بیٹنگ کے شعبے میں اچھا پرفارم نہیں کر سکا لیکن باؤلنگ کے شعبے میں تو میں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ ون ڈے میچوں میں جب مجھے کھلایا گیا تو مجھ پر دباؤ پہلے کی نسبت زیادہ بڑھ گیا تھا کیونکہ T20 میچز میں توقعات کے مطابق پرفارم نہیں کر سکا تھا۔ ون ڈے میچز میں کوچ وقار یونس نے مجھے ون ڈاؤن پوزیشن پر بھجوایا تھا۔ حالانکہ مجھے اس میچ میں پانچویں نمبر کی پوزیشن پر بیٹنگ کرنا تھی۔ تاہم وقار یونس اور مشتاق احمد نے نمبر 3 پر جانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں رنز بنانے کا زیادہ موقع ملے گا آرام سے کھیلو، ہماری سپورٹ ساتھ ہے، کوچز کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری صلاحیتوں پر اعتماد کیا اور اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہا۔ 6 سالہ طویل عرصے کے بعد سنچری بنانے پر بے حد خوش ہوں، دنیا کا کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا ہر کوئی غلطیاں کر کے ہی سیکھتا ہے ماضی میں مجھ سے بھی خطائیں ہوئیں لیکن ہمت ہارنے کے بجائے عزائم بلند رکھے اور عہد کیا کہ جب بھی موقع ملا اچھی کارکردگی دکھانے کی کوشش کروں گا۔ جب کوئی ٹیم میں نہ ہو تو مایوسی ضرورہوتی ہے لیکن پروفیشنل کرکٹر کا کام یہی ہے کہ دلبرداشتہ ہونے کے بجائے کھیل بہتر بنانے پر توجہ رکھے، بس تسلسل کے ساتھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جائے ٹیم میں منتخب کرنے یا نہ کرنے کا کام سلیکٹرز پر چھوڑ دیں۔
سوال: پہلے زمبابوے کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل اور پھر انگلینڈ کے خلاف ابو ظہبی ٹیسٹ میچ میں شاندار کم بیک پرآپ کیا کہیں گے؟
شعیب ملک: میری والدہ کی دعائیں رنگ لائی ہیں میری ڈبل سنچری میں نے اپنی والدہ کے نام کی ہے اور اگر میں دوبارہ کرکٹ کھیل رہا ہوں تو یہ ان کی ہی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے ورنہ ایک وقت میں تو مجھے ایسا لگنے لگا تھا کہ میری کرکٹ ختم ہو گئی ہے۔ کم از کم ٹیسٹ کے بارے میں تو میں نے سوچنا بھی کم کر دیا تھا یہ نہیں کہ مجھے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا شوق نہیں لیکن جس طرح ہماری ٹیم اور کھلاڑی ٹیسٹ میں پرفارم کر رہے تھے میری تو ٹیم میں جگہ بھی نہیں بن رہی تھی میں پچ میں ایک دو دفعہ ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ بھی بنا لیکن فائنل الیون میں جگہ نہ بنا سکا لیکن میں نے فرسٹ کلاس کرکٹ جاری رکھی پریٹس کرتا رہا اور ہمت نہیں ہرارا۔ جتنی کرکٹ کھیل سکتا تھا جتنے موقع ملے ان سے میں نے فائدہ اٹھایا۔ 2015 کا سال میرے لیے اچھا رہا ہے اب تک تو مجھے کافی کامیابیاں ملی ہیں اور میں انہیں برقرار رکھناچاہتا ہوں میری خواہش ہے کہ جتنی بھی کرکٹ باقی ہے میں بہتر فارم اور فٹنس کو برقرار کھتے ہوئے کھیلوں تاکہ اپنے سے جونیئر کے لیے مثال بنوں۔
سوال: جب آپ کوٹیسٹ ٹیم میں واپس شامل کیا گیا تو آپ نے سوچا تھا کہ ڈبل سنچری بنائیں گے؟
شعیب ملک: سچ تو یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی دوبارہ مجھے ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل کیا گیا اور پھر میری فائنل الیون میں جگہ نہیں بنی ہماری ٹیسٹ ٹیم اتنا اچھا پرفارم کر رہی تھی جس طرح مصباح، یونس، اور پھر نمبر تین پر اظہر علی فٹ نہ ہو سکے تو مجھے موقع ملا ورنہ شاید اس بار بھی مشکل ہوتا۔ اظہر علی نا صرف نمبر تین بلکہ کسی بھی نمبر کا اچھا بیٹسمین ہے اور مستقبل کے بہترین کپتان کی اس میں صلاحیتیں موجود ہیں۔ میں نے صرف سیشن اور چھوٹے چھوٹے ہدف کے ساتھ بیٹنگ کی، قسمت نے بھی ساتھ دیا اور ملنے والے موقع کا میں نے فائدہ اٹھایا۔ اسے اللہ کا کرم ہی کہیں کہ انگلش ٹیم کی تمام تیاریاں اور جارحانہ حکمت عملی کے باوجود میں بڑی اننگ کھیلنے میں کامیاب رہا۔ ہاں! ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے تھکاوٹ بھی ہوئی لیکن اپنی کارکردگی کو میں نے انجوائے کیا اور صرف میں نے ہی نہیں بلکہ میرے خاندان نے بھی اس کامیابی کو انجوائے کیا اور پھر میں خوش ہوں کہ میری کارردگی سے ٹیم کی اعتماد میں اضافہ ہوا۔ جس کی مجھے زیادہ خوشی ہے۔ باقی میچز میں بھی میری کوشش ہو گی کہ اپنی پرفارم اور فٹنس کو برقرار رکھتے ہوئے کارکردگی میں تسلسل لاؤں۔
سوال: پانچ برس کے طویل عرصے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں ڈبل سنچری کے کارنامے سے اپنی ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کو یادگار بنانے کے بعد اچانک ہی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ آپ نے کیوں کیا؟
شعیب ملک: ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرنے کی بنیادی وجہ فیملی کو زیادہ سے زیادہ ٹائم دینا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے کے بعد اب میرا تمام تر فوکس T20 اور ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں بہترین کارکردگی دکھانے پر مرکوز ہے۔ میں 2019 کے ورلڈکپ تک انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنا چاہتا ہوں۔
سوال: آپ کی کارکردگی اور موجودہ فارم میں آپ کی اہلیہ کا کتنا ہاتھ ہے؟
شعیب ملک: ثانیہ مرزا نے میرے لیے ہمیشہ ہی مجھے متاثر کن کردار ادا کیا۔ جس طرح اس نے فزیکل پرابلم پر قابو پایا اور اپنی خامیاں دور کر کے اور انجریز سے نمٹ کر کامیابیاں سمیٹیں یہ میرے لیے ایک چیلنج کا درجہ حاصل کر گئیں اگر وہ ایسا کر سکتی ہے تو مجھے بھی محنت کرنا چاہیے اور بیوی کامیابیاں سمیٹے اور مرد نہ سمیٹے تو یہ بات تھوڑی سی غیر معقول ہو جاتی ہے۔ یہ کوئی ایگو والی بات نہیں اور ایسا بھی نہیں کہ ثانیہ کی کارکردگی سے مجھے کوئی تکلیف ہوتی ہے بلکہ اس کی کارکردگی کی وجہ سے ہی مجھ میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کو ہر طرح سپورٹ کرتے ہیں جب مجھے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے تو ثانیہ میرے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور جب اسے ضرورت پڑتی ہے تو میں اس کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ میاں بیوی کا سپورٹس مین ہونا ہی ہم دونوں کے لیے ایک کامیاب زندگی گزارنے کا بہترین وجہ ہے کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہیں کہ ہمیں اپنے کیریئر پر کس قدر توجہ دینی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے لڑتے بھی نہیں ہیں۔ چھوٹی موٹی چیزیں ہو جاتی ہیں لیکن ویسے ہمارا رشتہ آج بھی لوورز جیسا ہی ہے۔
سوال: آپ کی ٹیم میں واپسی کے ساتھ ہی خبریں بھی گرم ہو جاتی ہیں کہ آپ کو کپتان بنایا جا رہا ہے تو کیا آپ بھی کپتان بننے کے خواہشمند ہیں؟
شعیب ملک: میں نے پاکستان ٹیم کی کپتانی کی ہے اور جیسا بھی تجربہ پاکستانی ٹیم کا کپتان ہونا ایک اعزاز کی بات ہے لیکن یہ کسی کی خواہش پر نہیں ملتی بلکہ یہ چیئرمین پی سی بی کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ جسے چاہیے کپتان بنائے، میرا کپتان جو بھی ہو گا میں اس کے ساتھ کھیلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کروں گا۔ جونیئر اور سینئر کا بھی کپتان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کارکردگی کرے تو اس سے لڑکوں پر کافیف اچھا اثر پڑتا ہے لیکن پھر کہوں گا کہ کپتان کسے بنانا ہے یہ فیصلہ صرف چیئرمین پی سی بی کر سکتا ہے۔ اس لیے میری توجہ صرف اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر ہے اور میں زیادہ سے زیادہ کرکٹ کھیلنا چاہتا ہوں۔ کپتانی کے چکر میں پڑ کر اپنے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنانا چاہتا ہاں! چیئرمین پی سی بی اگر مجھے کپتان بنانے کی آفر کرتے ہیں تو میرے لیے کیا ہر پاکستانی کرکٹر کے لیے قومی ٹیم کی قیادت کرنا ایک اعزاز کی بات ہے اور کپتانی قبول نہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سوال: پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کرکٹ کا ٹیلنٹ ہے اس قدر ہے کہ ایک کے بعد ایک کھلاڑی آتا ہی چلا جاتا ایسے میں ایک سینئر کرکٹرز کا کم بیک کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے؟
شعیب ملک: کم بیک کرنے پرایک سینئر کرکٹر پر دباؤ بھی ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیم سے باہر ہونے کے بعد اعتماد پر فرق پڑتا ہے لیکن اسی کا نام کرکٹ ہے اگر ہم حوصلہ نہ ہاریں تو کچھ بھی نا ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ ہر سطح پر موجود ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک نوجوان کھلاڑی موجود ہے بورڈ بھی نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دے رہا ہے اب تو ہماری اے ٹیم کے مستقل بنیادوں پر دورے ہو رہے ہیں۔ ٹی ٹونٹی مختصر فارمیٹ میں بہت سے تجربے کئے جا رہے ہیں لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں کوئی بھی ٹیم زیادہ تجربے نہیں کرتی اور پاکستانی ٹیم کی بھی ٹیسٹ فارمیٹ میں مستقل اچھی کارکردگی کی وجہ مستقل بیٹنگ آرڈر ہی ہے جس کی وجہ سے ہر کھلاڑی کو اپنے کردار کا پتہ ہوتا ہے کہ اسے کس انداز میں بیٹنگ کرنا ہے کس طرح باؤلنگ کرنا ہے کس طرح اسکور کو آگے لے کر چلنا ہے جبکہ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ میری اپنی ذاتی رائے ہے کہ میری بھی قومی ٹیم بڑی مشکل سے واپسی ہوئی ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں پاکستان اور بھارت کے مابین دوستی کے فروغ میں کرکٹ کا کھیل کس حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے؟
شعیب ملک: میرے خیال میں تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایشز کی طرح مستقل بنادوں پر میچز ہونے چاہئیں۔ دونوں ملکوں ے عوام کرکٹ سے محبت کرتے ہیں۔ ہارجیت دوستی دشمنی سے ہٹ کر کرکٹ کی وجہ سے جو ماحول بنتا ہے اس کا ایک اپنا ہی مزہ ہوتا ہے جو مزہ شعیب ملک کو بھارت کے باؤلر کو چھکا مار کر یا جو مزہ بھارتی باؤلر کو کسی پاکستانی بیٹسمین کی وکٹ اڑا کر ملتا ہے وہ کسی دوسرے ملک کے کھلاڑی کو نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں بحیثیت کرکٹر چاہتا ہوں کہ پاک بھارت سیریز ہو او ریگولر بنیاد پر ہو۔تا کہ ہمارے خطے اور انٹر نیشنل کرکٹ میں سخت مقابلے کے رجحان کو فروغ حاصل ہو ویسے بھی پاکستان میں اگر کرٹ نہیں ہو رہی تو پاکستانی کرکٹرز کیلئے جو ملک زیادہ سوٹ ایبل ہو سکتا ہے وہ بھارت ہی ہے جہاں کی وکٹیں پاکستانی وکٹوں سے مختلف نہیں اور اگر کوئی نوجوان کرکٹر اپنے کیریئر کے آغاز میں بھارت کے خلاف کارکردگی دکھا دے تو اس کے اعتماد میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا اور پھر کنڈیشنز بھی ہمارے نوجوانوں کو بھارت کی سوٹ کرتی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمیں بہت زیادہ میچز اپنے ملک میں کھیلنے کو نہیں مل رہرے لیکن میری دعا ہے کہ پاکستان میں جلد سے جلد انٹرنیشنل کرکٹ مکمل طور پر بحال ہو اور پاک بھارت میچز کا وہی میلہ لگے جو ہم نے دیھا ہے۔ پاک بھارت میچ کا اپنا ہی مزہ ہے۔ سچ بولوں تو اسے الفاظ میں بیان کرنا ویسے بھی مشکل ہوتا ہے بھارت کے خلاف کارکردگی دکھانے پر اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
سوال: آپ کی نظر میں اظہر علی کیسے کپتان ہیں؟
شعیب ملک: اظہرعلی بطور انسان اور کرکٹر تو بہت ہی اچھے ہیں البتہ کپتانی کے گُر سیکھنے میں اس کو تھوڑا ٹائم درکار ہے۔ اس میں سیکھنے کی صلاحیت دوسروں کی نسبت زیادہ اچھی ہے اور وہ کپتانی کے گرُ بڑی تیزی سے سیکھ بھی رہا ہے۔ اگر تمام کھلاڑیوں ٹیم مینجمنٹ اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے اظہر علی کے ساتھ بھرپور تعاون کیا تو وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو فتوحات کی راہ پر گامزن کر دے گا۔
سوال: آپ کی نظر میں تابناک مستقبل کے حامل پلیئرز کون سے ہیں؟
شعیب ملک: حارث سہیل، سمیع اسلم، بابر اعظم، مختار احمد، بلال آصف، نعمان انور اور اُسامہ میر بے پناہ صلاحیتوں کے مالک کھلاڑی ہیں یہ پاکستان کا اثاثہ ہیں۔
سوال: محبت کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
شعیب ملک: میرے نزدیک محبت کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ میں نے کرکٹ اور ثانیہ مرزا سے محبت کی اور انتھک محنت کے بعد دونوں کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
سوال: پاکستانی کرکٹ ٹیم کو مستقبل میں سخت کرکٹ کھیلنا ہے اس بارے میں آپ کیسی توقعات کر رہے ہیں؟
شعیب ملک: میں آئندہ ہونے والے مقابلوں سے نبردآزما ہونے کیلئے تیار ہوں۔ مستقبل میں درپیش سخت چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے میں نے سب سے زیادہ توجہ اپنی فزیکل فٹنس پر مرکوز کر رکھی ہے کیونکہ سخت چیلنجز کا مقابلہ سو فیصد فٹنس کے حصول کے بغیر نا ممکن ہے میں اپنی غلطیوں سے سبق کر مستقبل میں مزید بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کیلئے پر امید ہوں۔ اپنی باؤلنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ میں مزید نکھار پیدا کرنے کیلئے میں سخت محنت کر رہا ہوں۔
سوال: ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ کھلاڑی آخری وقت تک کرکٹ سے ریٹائرمنٹ نہیں لیتے آپ نے اس حوالے سے کیا پلان بنا رکھا ہے؟
شعیب ملک: میری خواہش ہے کہ میں عمران خان، وسیم اکرم کی طرح اپنے عروج کے دور میں کرکٹ کے کھیل کو خیر باد کہوں تاکہ لوگ مجھے مدتوں یاد رکھیں لیکن فی الحال میری تمام تر توجہ اپنی فٹنس اور کھیل میں مزید بہتری پیدا کرنے اور آنے والے مقابلوں میں عمدہ کارکردگی دکھانے پر مرکوز ہے۔ میں پاکستان کرکٹ کو ایک بار پھر ٹاپ پر لے جانا چاہتا ہوں۔ میں جب تک فٹ رہا کھیلتا رہوں گا جب محسوس کیا اب پہلے جیسی بات نہیں رہی تو میں ٹیم پر بوجھ بننے کے بجائے نوجوان کھلاڑیوں کیلئے خالی جگہ کر دوں گا۔ 2019 کا ورلڈکپ کھیلنا میرا ٹارگٹ ہے میں T20 اور ون ڈے انٹرنیشنل تسلسل کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں۔ 2019 کے عالمی کپ کے بعد میں کرکٹ کے کھیل سے ریٹائرمنٹ لے لوں گا.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں