کسی بھی معاشرے میں،ادارے میں حتی کہ ایک فرد میں اس وقت تک بہتری نہیں آ سکتی جب تک سنجیدگی کے ساتھ کسی حکمت عملی کو نہ اپنایا جائے۔ اس بہتری کے عمل کو حاصل کر نے کے لئے آپ کو اپنے ماضی سے سیکھنا ہوتا ہے بلکہ مستقبل کی تر جیحات اور مقاصد کو حاصل کر نے کے لئے حکمت عملی کو بروکار لاتے ہوئے کسی پروسس کو اپنانا ہوتا ہے۔آپ کا ایک واضح ٹارگٹ ہوتا ہےجس کو آپ نے حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ اس ٹارگٹ پہ پہنچنے کے بعد وقت کی ضرورت کے پش نظر آپ نے اس کے اندر ردوبدل یا مزید بہتری لانا ہوتی ہے۔
یہاں پہ ضروری ہے کہ آپ اپنے مقابل مارکیٹ کو نظر انداز کیے بغیر بہتری نہیں لاسکتے۔اگر آپ کا مد مقابل آپ سے بہتر ہے تو آپ اپنے وجود کو وقتی طور سہارا دے لو گے لیکن آخری انجام برا ہی ہوگا۔
ہمارے ملک میں شور بہت مچایا جاتا ہے لیکن ہم حقیقت میں دنیا سے کوسوں دور ہیں۔ پتا نہیں ہم لوگوں کی آنکھوں میں دھول ڈالنا بند کب کریں گے۔ حال ہی میں پاکستان انٹرنیشل ایر لائن کے ساتھ سفر کا اتفاق ہوا یقین کریں یہ حادثہ اپنے ساتھ جان بوجھ کر کیا۔ اس ایئر لائن کے بارے میں سننے میں آرہا تھا کہ بہت ذیادہ بہتری لائئ گئی ہے۔ اور مجھے بہتری کی تعریف کا بھی اندازہ نہیں ہے۔پھر بھی حب وطنی کا جذبہ جاگا اس پہ سفر کی ٹھان لی۔
دینا میں کسٹمر سروس آپ کی سہولت کے لیے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں آپ کو ڈرانے کے لیے ہیں۔
سب پہلے ڈرایا کہ آپ نے کیونکہ کارڈ پہ ٹکٹ خریدیں ہیں اور اور آپ کے پاس وہی والا کاڈر نہیں ہے آپ سفر نہیں کرسکتے۔ اس بتایا کہ پہلے کاڈر گم ہو گیا ہے اور اسی بنک کا نیا کاڈر ہے۔ بینک سٹمینٹ دکھا سکتا ہوں۔ وغیرہ ۔۔۔ اللہ اللہ کر کے کسی سنیر سے بات کی اور موبائیل میں پرانے کاڈر کی تصیاویر بھی تھیں ۔ بڑی تگ ودو کے بعد بوڑدنگ پاس مل گئے۔
آپ لوگوں کو بتاتا چلوں۔ پی آئی اے نے وینڈو سیڑز اور بچوں کی بیسنٹ والی سیٹز پہ قیمت مقرر کر دی ہے۔ آپ زیادہ پیسے دے کر یہ سیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔
عموما یہ low budget airlines کرتیں ہیں۔
آج کی دنیا مقابلے کی دنیا اور اچھی خدمات مہیا کرنے کی ہے۔ میں نے زیادہ تر سفر turkishاور قطر ایر لاینز پہ سفر کیا ہے ان دونوں کی کسٹمر سروس لا جواب ہے۔ میں نے ہمیشہ بیسنٹ والی سیٹز کے ساتھ بچوں کے ساتھ سفر کیا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے آپ ان دونوں ایرلائن کے مقابلے ایک تو ٹکٹ مہنگے بیچ رہے ہیں اور وہ سہولیات بھی نہیں دے رہے۔
بورڈنگ کے بعد جب ایرلائن میں پہنجا تو پتہ چلا آدھے ایرلائن کی ڈسپلے سکرین خراب ہیں اور مدد کرنے والے لایٹز اور بٹن بھی کام نہیں کرہے۔ مزید پتا یہ چلا یہ کافی عرضے سے خراب ہیں اور حکام کو پتہ ہونے کے باوجود یہ ان کے لئےاہمیت کی حامل چیز نہیں ہے۔
اب ایر لائن اڑنے کو ہے۔ پروفیشنلزم کا اندازہ اس بات سے لگائیں ۔ کہ ایک سال کے بچے کو infant belt نہیں دی۔ اب جب جہاز اڑنے لگے تو جو کھا نا مہیا کیا گیا انتہائی ناقص تھا زیادہ تر فضائی میزبان 40 سے اوپر تھے اور ان کو تکلیف دینے کی دل بھی نہیں کر رہا تھا۔۔ اوپر بات مقابلے اور بہترین سروس کی ہو رہی تھی۔ ہمیشہ بچوں کے گفٹز ہوتے ہیں لیکن اس ایرلائن کے کرتے دھرتوں کو شاید اس بات کا اندزہ ہی نہیں یہ ایک بہترین مارکیٹنگ کے گر ہیں۔
اور یہ بھی ہو سکتا ہے یہ خصوصی عنایات ان پاکستانیوں کے لیے ہوں جو صرف سعودی عرب کا سفر کرتے ہوں۔ اور اپنے ملک کے زرمبادلہ کا سبب بنتے ہیں۔ان کواگر ان پڑھ گوار سمجھ کر کیا جارہا ہے تو سراسر زیادتی ہے۔
یہ سب کچھ میں اپنے ملک کو بدنام کر نے کے لئے نہیں لکھ رہا ہوں۔ یہ جانتا ہوں کچھ نہیں بدلے گا۔ ورنہ روزانہ کی بنیاد پہ maintenance رپورٹ تو چیک ہوتی ہو گی۔ مارکٹیگ اور سیلز کے لوگ بھی تنخواہیں ہڑپ کر رہے ہوں گے۔ لیکن پاکستان انٹرنیشل کے CEO کو سوشل میڈیا پہ اپنی تعریف کہ جلدی ہے۔ یہ سب ان کالی بھیڑوں کے لئے لکھ رہا ہوں جو اس ملک کی انیٹ انیٹ کو نچوڑ رہے۔ جس طرح ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ویسے ہماریے ملک کے اداروں کا مسئلہ ہے۔ خدا کے لئے اس ادارے اس کے وقار کو داو پہ نہ لگائیں اور حقیقی تبدیلی کا آغاز کریں۔
آخر پہ ان شعار پہ ختم کروں گا
جھوٹ پہ شہر کی بنیاد رکھو ضرور
مگر سچ کو سر بازار نڈھال نہیں کرتے
منضب کے ساتھ خدا نے عقل بھی دی ہے
بوجھ اٹھائے بیٹھے ہو استمال نہیں کرتے