Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/5/8/f/urduqasid.se/httpd.www/wp-content/plugins/stylo-core/stylo-core.php on line 96
56

پاکستانی دستاویزی فیچر فلم انڈس بلیوز

پاکستانی دستاویزی فیچر فلم انڈس بلیوز: پاکستان کی فراموش موسیقی، نے اس سال منعقد کیے گئے گوام انٹرنیشنل فلمی میلے میں بہترین دستاویزی فیچر فلم کا اعلیٰ اعزاز اپنے نام کرلیا.
پچھلے چند سالوں میں کئی، پاکستانی دستاویزی فلموں نے بین الاقوامی فلمی میلوں میں کامیابی حاصل کی ہے.انڈس بلیوز بھی ایک دستاویزی فلم ہے. جس کے ہدایت کار پاکستانی فلم ساز جواد شریف ہیں جو اس سے قبل بھی کے ٹو اینڈ دا انویسیبل فٹ مین جیسی مشہور دستاویزی فلم بنانے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں. جواد شریف کی ہدایت میں بنی انڈس بلیوز فلم میں ان پاکستانی لوک فنکاروں، موسیقاروں اور ساز بنانے والے کاریگروں کی اس جدوجہد کو سامنے لایا گیا ہے جو وہ جدید موسیقی سے مغلوب دنیا میں اپنے معدوم ہوتے ہوئے فن کو بچانے کی خاطر کررہے ہیں.
انڈس بلیوز فلم رواں ماہ چھ اکتوبر اور گیارہ اکتوبر کو گوام فلمی میلے میں پیش کی گئی. پچاس ملکوں کی تین سو فلموں میں سے چنی گئی اس فلم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ صرف بھلا دیئے جانے والے لوک فنکاروں ، موسیقاروں اور ساز بنانے والے کاریگروں کو متعارف کرایا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تیزی سے ختم ہوتے ہوئے قدیمی موسیقی کے آلات سے بھی روشناسی کرائی گئی ہے. مثال کے طور پر خیبرپختونخواہ کے قدیمی ساز سارندہ کہ جس کا اب کوئی بنانے والا نہیں رہا یا پھر سندھ کا قدیم ترین ساز بوریندو کہ جس کا ناطہ موہنجودڑو کی قدیم تہذیب سے جڑا ہے یا پھر ایسے ساز کہ جن کا استعمال اب کوئی نہیں جانتا. علاوہ ازیں اس فلم میں فنکاروں، موسیقاروں اور ساز بنانے والے کاریگروں کو ان کے فن سے متعلق درپیش رکاوٹوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جن کا تعلق صرف مالی مشکلات سے نہیں بلکہ منفی سماجی رویوں سے بھی ہے.
گوام فلمی میلے کی جیوری کے سربراہ ڈاکٹر ٹام برسلین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی دستاویزی فلمیں ان مسائل کو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں جو عام طور پر توجہ حاصل نہیں کرپاتے. یہ واقعی بے آوازوں کی آواز ہے.
فلم کے ہدایت کار جواد شریف گوام فلمی میلے میں پاکستانی فلم کو ملنے والے اعلیٰ اعزاز کی بابت امید رکھتے ہیں کہ اس راستے سے نہ صرف ہماری لوک موسیقی کو اور ہمارے فنکاروں کو شناخت ملے گی بلکہ ہم اپنا قیمتی فن اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی محفوظ کرپائیں گے تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ انہیں صرف تصویروں میں دیکھیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں