12

وہ جو حسرتوں پہ حیران ہوتی ہے

وہ جو حسرتوں پہ حیران ہوتی ہے
وہ خاموش محبت کی زبان ہوتی ہے

چشم بددور یوں نہ فلک پہ دیکھ
شام ڈھلتے ہی یادوں کی اذان ہوتی ہے

آشنا جو ہوتے ہیں آداب فرزندی سے
حیا آنکھوں سے ان کی عیاں ہوتی ہے

اورعمر گزر جاتی ہےکردار بنانے میں
پھر کہیں ! قسمت مہربان ہوتی ہے

جو میرےخوابوں کی تعبیر کی مانند یے
جانے کس بات پہ اب نالاں ہوتی ہے

بھٹک رہے ہیں کہیں شوق جنون عشق میں
پرمحبت جو توڑ ڈالے اب کہاں ہوتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں