(نقطہ نظر:ڈاکٹر ریاض رضیؔ) سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنا دورہ مکمل کرکے واپس جاچکے ہیں۔ ملکی تاریخ میں نوجوان سعودی شہزادے کو معمول سے بڑھ کر پذیرائی ملی۔ کیا خواص تو کیا عام ہر ایک نے اس دورے کو تاریخی قرار دیا۔ شاید اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ سعودی شہزادہ خطیر رقم کی سرمایہ کاری پاکستان کی جھولی میں ڈالنے کا اعلان کرگئے ہیں۔ نہ صرف اعلان ہوا بلکہ باہمی مُفاہمت پر دستخط ہوئے جبکہ باہم شیر و شکر ہونے کا ایک بار تجدیدِ عہد بھی کیا گیا۔ محمد بن سلمان کا یہ دورہ سرمایہ کاری کے اعتبار سے منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ پاک سعودیہ تاریخی تعلقات کا دیرینہ تسلسل بھی سمجھا گیا۔ اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ محمد بن سلمان نے سعودیہ عربیہ میں خود کو پاکستان کا “سفیر” قرار دیا جبکہ جہاں کہیں بھی تقریب ہوئی یا خطاب و تقریر کا سلسلہ قائم ہوا وہاں وزیراعظم عمران خان کی مسکراہٹیں دیدنی تھیں۔ سعودی شہزادے کی یہ عاجزانہ پیشکش کہ مجھے پاکستانی”سفیر” سمجھو اور وزیراعظم کی نپی تُلی مسکراہٹیں، دونوں اِس بات کی غماز تھیں کہ ماضی کی نسبت اس بار کچھ زیادہ ہی “یارانہ بڑھا۔ تنقیدی رائے رکھنے والے حضرات نے اس مرتبہ بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے “ڈرائیور” بننے کے عمل کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ معترض تھے کہ ایک مُلک کے وزیراعظم کو اپنے پروٹوکول اور رُتبہ کا خیال رکھنا چاہیئے تھا۔ خیر سگالی کا اظہار ضرور کیا جاتا لیکن اس قدر بھی نہیں کہ آپ کے رُتبے اور مقام کو کمتری کا درجہ مل جائے۔ جبکہ انصافیوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے اپنے برادر اسلامی ملک کے آئندہ کے حاکم کی پذیرائی کی ہے۔ اس میں غلط کیا ہے۔ ملکوں اور ریاستوں میں تعلقات کی بُنیاد باہمی احترام و آداب پر رکھی جاتی ہے۔ ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سے وزیراعظم نے وہی کیا جو انہیں کرناچاہیئے تھا۔ یہ انصافیوں کا نقطہ نظر تھا ایک طرح سے معترضین کےلئے “کرارا” جواب تھا۔ ویسے بھی انصافیوں کے پاس بات کرنے اور بات منوانے کےلئے20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کافی ہے۔
سعودی شہزادہ کی آمد سے قبل سوشل میڈیا کے “شہزادوں” کو “سبق” سکھانے اور “مہذب” بنانے کی حکمت عملی وضع ہوئی۔ جبکہ “سزا” دینے کے حکم نامے کو عملی جامہ پہنانے کےلئے بعض گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ ایک متنازعہ نوٹیفیکشن کا اجراء ہوا، جس میں ایک فرقے کو تارگٹ کرکے بتایا گیا کہ یہ فرقہ سعودی شہزادے کی آمد کو سماجیانہ فورم(سوشل میڈیا) میں لے جاکر سبوتاژ کرسکتا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے اس حرکت کا نوٹس لیا لیکن مُلکی تاریخ میں ایک فرقہ کو باضابطہ “پروپیگنڈہ مشنری” کی صف میں شامل کرکے اچھی روش ظاہر نہیں کی گئی۔ خود عمران خان حکومت کےلئے یہ ایک بدنُما داغ بن گیا۔
محمد بن سلمان کے مخالفین کے نزدیک یہ وہی شہزادہ ہے کہ جس کی سربراہی میں آج بھی یمن پر حملے جاری و ساری ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی تو ہے جو یمن کے معصوم بچوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہے اور قحط سالی کے موجب بننے والے ہی دراصل یمن کی بربادی کے پوشیدہ دشمن ہیں۔بہرحال پاکستانی حکومتی اہلکاروں کے مطابق یمن کی بربادی اور قحط سالی پر پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ وہ یمن کے عوام کے ساتھ ہے۔ جبکہ ایک دیرینہ دوست اور کاروباری پارٹنر کی حیثیت سے سعودی عربیہ کا مقام ہمیشہ اونچا رہے گا اور باہمی تعلقات میں کوئی بھی خلیج سدِ راہ نہیں ہوسکتی۔
اس مرتبہ سعودی بادشاہتی اہلکار کا یہ دور ایک ایسے وقت میں ہوا جب ہندوستان اور ایران پر دہشتگردانہ حملے ہوئے اور ان حملوں میں قریب قریب 70 افراد، 46 ہندوستان میں اور 30 کے قریب افراد ایران میں اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ دونوں ممالک میں ہوئے خود کش حملوں میں کسی قدر مماثلت بھی تھی۔ دونوں ہی حملے فوجی جوانوں پر ہوئے اور دونوں ہی خود کش تھے۔
دو دہشتگردانہ واقعات اور سعودی شہزادہ کے دورے نے سیاسی حرارت بلکہ انسانی حرارت کو کافی گرمادیا ہے۔ ایسی صورت حال میں الزامات کی گفتگو کی بجائے ہوشمند فیصلے دور رس نتائج دے سکتے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اگر اِن معاملات کو سطحی نقطہ نظر سے دیکھنے اور پھر حتمی فیصلہ کیا جائے، گہرائی کے ساتھ اور دور اندیشی کا عمل ملحوظِ خاطر ہو۔ ہم ہر بات کو مفروضات سے اور خیالی تصورات و تجزیوں سے ثابت کرتے ہیں کہ فلاں واقعہ کا اصل محرک یہ(خود ساختہ مفروضہ)تھا درانحانکہ ایسا ہونا ممکن بھی ہوسکتا ہے اور اس کے برخلاف بھی۔ان تین واقعات کو ہی لے لیجئے کہ بڑے بڑے لکھنے والے سازشوں کی ایسی ایسی تھیوری پیش کرتے ہیں کہ فی الواقعہ ایسا ہوا بھی نہ ہو تو ایسا ہونا یقینی اور حتمی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے دو اہم پڑوسیوں کو بھاری بھر کم جانی نقصان اُٹھانا پڑا اور لکھنے والے کہہ گئے کہ ان واقعات میں بہت بڑی سازش رچائی گئی ہے۔ سازشوں کے تانے بانے سعودی شہزاد محمد بن سلمان کے دورے سے جوڑا گیا اور نتیجتاً ایران اور پاکستان کے تعلقات میں سردمہری کی صورتحال دُر آئی۔ ایران کی طرف سے باقاعدہ کہا گیا کہ اُن پر حملے کرنے والے غیر ریاستی عناصر ہیں اور وہ پاکستان میں چھپے بیٹھے ہیں۔ جبکہ تلخ اور تُند لہجے میں پیغام بھی دیا گیا۔ اس مرحلے میں دونوں ملکوں کو صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا۔ الزام تراشیاں کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان شروع سے ہی مضبوط اور دیرینہ تعلقات ریے ہیں۔ ان تعلقات میں سرد مہری اور خطرناک صورت حال آڑے نہیں آنی چاہیئے۔ دونوں ممالک مسلم اُمہ کےلئے رہنماء ہیں۔ اگر خدا نخواستہ دونوں کے درمیان کوئی ان بن ہوئی تو مسلمانوں کےلئے نیک شگون نہیں ہے۔ پاکستان کے تعلقات تمام مسلمان ملکوں سے مساویانہ ہیں۔ کسی ایک مسلم ملک کی طرف جھکاؤ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کےلئے سعودی عرب بھی اہم ہے اور ایران بھی۔ ایک ملک کو نظرانداز کرکے دوسرے کو فوقیت دینا پاکستان کےلئے ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا سعودی شہزادہ جاچکے ہیں اب خوابِ غفلت اورسحر سے باہر نکالنا ہوگا اور پوری ہوشیاری کے ساتھ معاملے کو باہمی افہام و تفہیم کی طرف لے جانا ہوگا۔
دوسری جانب ہمارے قریب میں موجود ایک بہت بڑی آبادی کے حامل پڑوسی ملک بھارت کو زعم ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی بھی نوعیت کی جارحیت کرسکتا ہے۔ اس بات کو عملی جامہ پہنانے کےلئے انہوں نے راجستھان میں جنگی مشقیں بھی کیں ہیں۔ جبکہ روزانہ ترچھی اور تڑھی آنکھ سے بلکہ میلی آنکھ سے پاکستان کو دھکمانے اور راہ راستے پر لانے کے خواب بھی متواتر دیکھتا ہے۔ اپنی فلموں کی طرح روز پاکستان کو فتح کرکے دم لیتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے پلوامہ حملے کی بھرپور مذمت کے باوجود ڈرانا دھمکانا غرور ہی ہوسکتا ہے، عقلمندی نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کی فوج ایک پیشہ ورانہ سپاہ ہے۔ یونہی دھمکیوں سے زیر کرنے کا ہندوستانی خواب شاید کبھی تعبیر کی شکل اختیار نہیں کرے گا۔ باہمی بات چیت ہی ملکوں میں احترام کا عنصر پیدا کرتی ہے اور دہشت گردی کی بیخ کنی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ہندوستان اور پاکستان دونوں کو مل کر دہشتگردی اور دہشتگردوں کو ختم کرنا ہوگا۔
نوٹ: مندرجہ بالا گفتگو مکمل طور پر تجزیہ اور ذاتی رائے ہے۔ اس میں کسی کےلئے عناد نہیں ہے اور نہ کسی پر تنقید کی گئی ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں نے اظہارِ رائے کا “حق” استعمال کیا ہے۔ شکریہ