پاکستانی پکوان کی بات ہو اور نِہاری کا ذکر نہ ہو ایسا تو ممکن ہی نہیں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کو اس کے بارے میں علم نہ ہو اور جن لوگوں کو نہیں معلوم تو ہم انہیں نِہاری کے بارے میں بتاتے ہیں .
لفظ نِہاری دراصل عربی کے لفظ نِہار سے لیا گیا ہے جس کے معنی دن کے ہیں تاریخ یہ بتاتی ہے کہ 18 ویں صدی عیسوی میں مغل جب ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ اپنے باورچی بھی لائے کیوں کہ دہلی کے موسم میں خنکی اور ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ تھا جس کی وجہ سے سپاہیوں میں نزلے اور زکام کی شکایات بڑھ گئی اور طبیبوں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ لوگ قدرتی مسالوں سے تیار پکوان کو نِہار منہ (صبح سویرے) استعمال کریں اور اس طرح نِہاری کی دریافت ہوئی.
اپنے نام کی طرح نِہاری کھانے کا اصل مزہ اور وقت صبح سویرے کا ہے مگر بدلتے موسموں اور رسموں رواج کی طرح کھانے کے اوقات بھی بدلتے گئے صبح سویرے سے دوپہر ،شام سے رات اور بل آخر کسی بھی وقت تک بات چلی گئی. نِہاری دراصل ہلکی آنچ پر کافی دیر تک بکرے یا گائے کی ران کے گوشت اور نلی والی ہڈی سے بنائی جاتی ہے لیکن دورے حاضر میں مرغی کے گوشت سے بھی تیار کرنے کا رواج بڑھتا جارہا ہے .
جب سونٹھ ( سوکھی ہوئی ادرک )، سونف ،لال مرچ ،پسے ہوے گرم مصالے اور زیرے کے ساتھ پکتی ہے تو اس کی خوشبو پورے محلے میں اپنا اثر کرتی ہے .بہت سے پرانے باورچیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچ جانے والی نہاری کو اگر دوسرے دن کی نئی میں ملا دیا جائے تو مزہ اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے اس بچ جانے والے حصے کو تار کہا جاتا ہے.
ویسے تو نہاری کھانے کا اپنا اپنا انداز اور طریقہ ہے لیکن گرم گرم نان (خمیری روٹی ) ،ہرا دھنیہ ،ہری مرچ اور لمبی کٹی ہوئی ادرک کی بات ہی کچھ اور ہے .