بڑھتی جارہی ہے۔ گذشتہ برسوں میں موبائل فونز،آئی پیڈز،ایم پی تھری پلیئرزاور ٹیلی ویژن جیسے آلات کے استعمال میں بے تحاشا اضافہ ہواہے ۔اِس نوع کی اکثرڈیوائسز کو تفریح کے حصول کاذریعہ سمجھاجاتاہے لیکن ان آلات سے مستفید ہونے والوں کو شاید اندازہ نہیں کہ ان کیلئے تفریح کاسامان فراہم کرنے والی ڈیوائسز ماحول، معاشرہ روزمرہ زندگی کیلئے کس قدر خطرناک ثابت ہورہی ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ 2030ء تک دنیا بھر میں یہ برقیاتی آلات موجودہ تعداد سے تین گنازائد 1700ٹیراواٹ بجلی فی گھنٹہ استعمال کررہے ہوں گے۔آئی ای اے کی رپورٹ کے مطابق کنزیومرالیکٹرانکس سب سے زیادہ تیزی سے اُبھرتاہواوہ شعبہ ہے جس میں توانائی کے استعمال کو کنٹرول کرنے کیلئے سرکاری قواعدوضوابط نہ ہونے کے برابرہیں، خاص کر پاکستان میں ان برقیاتی آلات کے نظام کیلئے کوئی قانون ہی وضع نہیں ہواہے اور اگر کوئی قانون موجود ہے تو اِس پر عملدرآمد کیلئے حکومت کی طرف سے نظام موجود نہیں۔آنے والے دنوں میں برقیاتی آلات کی تعداد میں اضافے کی موجودہ شرح برقراررہی تو دنیاکوصرف ان برقیاتی آلات کی بجلی کابل دوسوارب ڈالرتک پہنچ جائے گا۔آئندہ برسوں میں ان ہینڈ ہیلڈ ڈیوائسز کی تعداد میں اضافے کے زیادہ ذمہ دار ترقی پذیر ممالک ہوں گے جہاں معاشی ترقی کی شرح تیزی سے بلند ہورہی ہے۔پاکستان اِن چند ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے جہاں عوام جدید الیکٹرونک آلات سے آشنائی حاصل کررہے ہیں۔ یہ 2000ء کی بات ہے جب ہر کوئی موبائل فون سے واقف نہیں تھا۔ معدودے چند افراد ہی اِس الیکٹرونک آلہ سے استفادہ کرتے تھے تاہم آئندہ چند سالوں میں دُنیا اتنی بدل گئی کہ اب تقریباً ہر شخص کے پاس موبائل فون نظرآتاہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر شخص کے پاس موبائل فون کا ہونا کسی ملک کی ترقی کی دلیل ہے؟مشرف دور کے حکمران بڑے فخر سے بیان کرتے تھے کہ ملک میں ترقی ہورہی ہے اور اِس کی مثال وہ موبائل کی بڑھتی ہوئی شرح کو پیش کرتے تھے۔ قطعِ نظر اس کے کہ ملک میں آج موبائل کی بڑھتی ہوئی شرح ترقیاتی کاموں میں کتنی معاون ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ جہاں موبائل فون کے ذریعے عوام کو سہولیات مل رہی ہیں، وہی دوسری جانب موبائل فون کے ذریعے سائبر کرائمز میں بھی اضافہ ہوا ہے اور انسان کی نجی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ مختلف قسم کے بے ہودہ پیغامات، مذہبی و سیاسی شخصیات کی کردارکشی اور مزاح کی صورت میں کسی کی ذات کو تنقید بنانااورشاعری کوخاص طورپر مشہور شاعر “احمدفراز “کو کسی بھی اختراع شدہ شعر میں کھینچ لانا ہرشخص کامحبوب مشغلہ بن چکاہے۔ حد تو یہ ہے کہ اخلاق سے عاری تصاویر اور فحش قسم کی فلمیں ایک دوسرے کو ارسال کردی جاتی ہیں ، بعض دفعہ یہ فحش قسم کی فلمیں اور تصاویر خواتین کو بھی موصول ہوتی ہیں جسے نہ صرف خواتین کا اخلاقی استحقاق مجروح ہوتاہے بلکہ چھوٹے بچے بھی اس لعنت سے بچ نہیں پاتے۔
آئین و قانون کے تحت سائبر دہشتگردی اُسے کہتے ہیں جس میں کوئی شخص، گروہ یاتنظیم کمپیوٹر، کمپیوٹرنیٹ ورک یابرقی آلات جیسے موبائل فون، انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے دہشتگردانہ سرگرمیاں انجام دے۔ یاکوئی ایسی رسائی جسے اُس شخص کودہشتگردانہ سرگرمیاں انجام دینے میں آسانی ہو یاجان بوجھ کر کوئی ایساعمل انجام دے جو جرم یارنجیدگی کے زمرے میں آتاہواُسے سائبردہشت گردی کہتے ہیں۔لہٰذا پاکستانی آئین کی دفعہ 8 کے تحت جوشخص غلط طریقے سے برقی نظام یا برقی ایجادات کوبطور وسیلہ بناکراپنے لئے فائدہ حاصل کرے یاکسی ایسے شخص کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرے یاکسی شخص کو دھوکہ دینے کاپکاارادہ کرے تو ایساشخص سزاکامستوجب ہوگا۔اور اُس شخص کی کم سے کم سزا 7سال ہوگی جبکہ اُس کی سزا میں اضافہ بھی ہوسکتاہے۔ جرمانہ اورسزادونوں کاسامنابھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اِس شق میں واضح طورپر بیان کیاگیا ہے کہ نجی زندگی میں مداخلت ایک جرم ہے اوریہ مداخلت کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے۔ زیرتبصرہ شق کی رو سے اگر یہ مداخلت برقی آلات کے ذریعے ہو تو اُس شخص کی سزاکم سے کم 7سال قراردی گئی ہے ۔لہٰذاآئین و قانون کے تحت حکومت پاکستان نے سیاسی قیادت اور نجی زندگی کے خلاف موبائل فون کے ایس ایم ایس اور ای میلز کے ذریعے پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کافیصلہ کیاہے اور اِس ضمن میں ایف آئی اے کو سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی کاحکم دے دیاگیاہے۔ ذرائع کے مطابق بدنینی پر مبنی غیر شائستہ حقائق کے منافی اور قیاس آرائیوں پر مبنی ایس ایم ایس اور ای میل پیغامات پھیلانے والوں کو ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت 14سال قید اور جائیداد ضبطی کی سزا ہوسکتی ہے۔ جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اگر سائبر کرائم ایکٹ کی خلاف وزری کامرتکب پایاگیا تو اس کو پاکستان ڈی پورٹ کردیاجائے گا۔ بیان کے مطابق ایف آئی اے نے اس حوالے سے بہت سے کام مکمل کررکھے ہیں۔ بہت جلد ان عناصرکے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ بیان کے مطابق بیرون ملک اس مقصد کیلئے استعمال ہونے والے ای میلزایڈریسز اور ویب سائٹس کی نشاندہی کیلئے انٹرپول سے بھی رابطہ کرلیاگیاہے۔سیکورٹی فورسز کے خلاف انٹرنیٹ پر مذموم پروپیگنڈا کرنے والی بعض تنظیموں کے خلاف بھی شروع کی گئی ہے جو پاکستانی قانون کے دائرہ اختیارسے باہر ہیں۔
تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ پروپیگنڈاایس ایم ایس نے اسٹاک مارکیٹ کو کروڑوں کانقصان پہنچایا ہے جبکہ پاک فوج کے خلاف ایس ایم ایس کوموثرہتھیار کے طورپر استعمال کیاجارہاہے ۔اس سلسلے میں گذشتہ دنوں کشمیر سے ایک شخص کو گرفتار کیاگیا جو ایس ایم ایس کے ذریعے پاک فوج کی کردار کشی کررہاتھا۔اِس وقت پوری دنیا پروپیگنڈاافواہوں کی زد میں ہے خاص طور پر موبائل فون کوسائبرکرائمزکیلئے زیادہ استعمال کیاجارہاہے۔
دُنیا کے کئی ممالک میں سائبر کرائمز کے حوالے سے موثرقانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ اِس کے سدباب کیلئے مضبوط اقدامات کئے گئے ہیں جبکہ ناشائستہ اور بے ہودہ ایس ایم ایس اور ای میلز کے خلاف پھرپور تحقیقات شروع کردی گئیں ہیں۔ جبکہ پاکستان میں حکومت کی جانب سے ایف آئی اے کو اِس طرح کی خبروں اورپیغامات کی نگرانی و چیکنگ اور سائبرکرائمز ایکٹ کے تحت ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت دیدی گئی ہے۔معتبر ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ بعض ویب سائٹس باقاعدہ طورپر سائبرکرائم میں ملوث پائی گئیں ہیں اورایک منظم طریقے سے اعلیٰ ملکی سیاسی و مذہبی شخصیات کے خلاف کئے جانے والے بے ہودہ اور غیرشائستہ میسجزانہی ویب سائٹس سے آپریٹ کیاجاتاہے جبکہ یہ ویب سائٹس براہ راست بیرون ملک سے آپریٹ ہوتی ہیں۔دوسری جانب حکومت کی طرف سے سائبرکرائم کیخلاف بھرپور کارروائی کے فیصلے کے بعد انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنیوں کی نگرانی روازنہ کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں ایک خصوصی سینٹربھی قائم کردیاگیاہے جہاں لوگ بدنیتی پر مبنی غیر شائستہ ای میلز اورٹیکسٹ میسجزکے خلاف رپورٹ کرسکتے ہیں اور اس حوالے سے 48گھنٹوں کے اندر اندرکارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ حکومت کے خلاف ایس ایم ایس یالطائف اتناسنگین جرم نہیں کہ 14سال کی قیدہو۔تنقید اور اسکینڈل میں بڑافرق ہے،سیاسی لوگ تنقید سے کبھی نہیں گھبراتے لیکن اخلاق سے گری باتیں چاہے وہ کسی شکل میں بھی ہوں وہ قابل سزاجرم ہے۔اوراس بارے میں کسی قسم کاسمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا۔اُن کاکہناتھا کہ ایس ایم ایس کے خلاف مہم سے صرف ذاتی مخالفین کو نشانہ بنایاجائے گا ۔حکومت نے بڑے مسائل اور چیلنجزکو نظراندازکرکے ایک نئی مہم شروع کردی ہے جس کی وجہ سے سکیورٹی ادارے عوام کوتحفظ فراہم کرنے کی بجائے دوسرے کاموں میں مصروف ہوجائیں گے۔کہاجاتاہے کہ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے اس کی پالیسی کے خلاف جو ای میلز چلتی ہیں ان کی وجہ سے حکومت کے بہت سے راز ،خفیہ اقدامات بھی بے نقاب ہوجاتے ہیں جنہیں حکومت اپنی ناکامی اور بدنامی تصور کرتی ہے۔متعددبیرونی ممالک سے بھی لوگ ای میلز کرتے ہیں اس طرح مختلف اداروں اور افراد کے درمیان جدید سائنسی بنیادوں پرقائم ہونے والے روابطہ کو اپنے خلاف پروپیگنڈہ مہم کانام دے کر یہ کارروائی دراصل اپنی ناکامیوں پرپردہ ڈ النے کی ایک ایسی کوشش ہے جسے نہ صرف ملک کے عوامی حلقوں میں بلکہ عالمی سطح پر بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھاجائے گا اور اس تاثرکو تقویت ملے گی کہ حکومت عوامی حلقوں اور مختلف اداروں کے درمیان روابطہ کو اپنے خلاف پروپیگنڈہ مہم کا نام دے کر کارروائی کرناچاہتی ہے اس طرح ایک اور محاذ کھل جائے گا۔
49