۱۵ دسمبر ۲۰۱۴ کی صبح ۴ بجے میں کراچی ایئرپورٹ پہ اپنے اقربا کے ساتھ فلائٹ کا انتظار کر رہا تھا۔ کوئی اڑھائی ماہ پاکستان میں گذار کر سویڈن واپس آ رہا تھا۔ تقریباّّ ۸ بجے، ۲ گھنٹے تاخیر کے ساتھ، ٹرکش ایئر لائن کا طیارہ ہوا میں بلند ہوا اور ۷ گھنٹے کے بعد طیارہ کمال اتا ترک ایئرپورٹ پہ لینڈ ہو گیا۔ دیگر مسافروں کے ساتھ میں بھی لاونج میں آکر بیٹھ گیا اور سوچ رہا تھا کہ ۴ گھنٹے انتظار کے بعد سٹاکھولم کے لئے ابھی مزید ۴ گھنٹے کی فلائٹ ہے۔ گذشتہ رات چونکہ سو نہیں پایا اس لئے تھکاوٹ سے برا حال ہو رہا تھا۔ لاونج میں صوفے پڑے ہوئے تھے لہٰذا اسی سے ٹیک لگا کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔
مسافر اپنی اپنی سوچ میں گم آ جا رہے تھے۔ ہر ایک مسافر یہی سوچ رہا تھا کہ شاید وہ تن تنہا ہے۔ سوچوں میں گم معلوم نہیں کب نیند غالب آگئی اور میں سو گیا۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر سو رہا تھا۔ اچانک ایک تیز قسم کی نسوانی چیخ میرے کانوں کے ساتھ ٹکرائی۔ میں عالم خواب تھا لہٰذا یہ ہی سوچا کہ خواب دیکھ رہاہوں مگر اس کے بہت زیادہ شور و غوغا بلند ہو گیا اور میں بھی نیند سے بیدار ہو گیا۔ اپنے چار سو نظر ڈوڑائی سب خاموشی کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ سوچا کہ شاید کوئی بھیانک قسم کا خواب تھا۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ کچھ پاکستانی خواتین روتی اور بین کرتی ہوئی لاونج کی طرف آ رہی تھیں۔ ساتھ میں کچھ مرد بھی تھے جو خواتین کو دلاسہ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ سب لوگ پریشانی اور حیرانگی سے ان خواتیں کو دیکھ رہے تھے جو بلند آواز میں رو رہی تھیں۔ خواتین کے رونے سے یہ لگ رہا تھا کہ کوئی غیر معمولی حادثہ رونما ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اپنا رو رو کر برا حال کر رہی ہیں۔ کچھ دیر تک میں بھی بے حسی کے عالم میں بیٹھا رہا۔ آخر کار حمت کر کے ایک مرد سے پوچھا کہ بھائی کیا ہوا ہے؟ اس نے سنی ان سنی کر دی اور آگے نکل گیا۔
میری فلائٹ میں تقریباّّ ابھی دو گھنٹے باقی تھے لہٰذا سوچا کہ آہستہ آہستہ گیٹ کی طرف جاوں۔ اسی کشمش میں گیٹ پہ پنہچا اور بورڈنگ لاونج میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ میرے عزیز کا ایس ایم ایس ملا جس کو پڑھ کر زمین پاوں تلے سے نکلنا شروع ہوگئی۔ پیغام کو بار بار پڑھا۔ آخر کار اس اندوہ ناک واقع کی مجھے سمجھ آگئی۔ بھائی امید ہے آپ استمبول پنہچ چکے ہوں گے۔ آج پشاور میں آرمی پبلک سکول میں ایک سو پچاس بچوں کو نہایت بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے۔
یہ پیغام پڑھنے کے بعد مجھے ان خواتین کا رونا سمجھ میں آنے لگا۔
سٹاکھولم پنہچنے پر سب سے پہلے میں نے گھر پہ اپنے پہچنے کی اطلاع دی اور اس حادثہ کی تفصیلات دریافت کیں۔ جب میرا کزن مجھے تفصیلات بتا رہا تھا مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہوں۔ شام کی پریس میں یہ خبر شائع ہو چکی تھی اور سویڈش ٹی وی اس واقع کو نشر کر رہا تھا۔ ایئر پورٹ سے میں نہ جانے کیسے گھر پنہچا۔
نیند کوسوں دور تھی۔ آنکھوں کے سامنے اد کھلی کلیاں روندی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ کچھ تازہ پھولوں کی پتیاں خاک پہ پڑی تھیں اور کچھ ہوا میں اڑ رہیں تھیں۔ اللہ و اکبر۔
قارئین کرام ! یہ سانحہ تین سال قبل پیش آیا تھا۔ ماوں کی گودیں اجڑ گئیں۔ بہنوں کے بھائی اور بھائیوں کی بہنیں مر گئیں۔ والدین کے بڑھاپے کے سہارے ختم ہو گئے۔ تمناوں ، عارضووں اور خواہشات کے گلے دبا دئے گئے۔ پشاور کے ہر گھر میں قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ ہر گھر سے آہ و بکا کی آواز آ رہی تھی۔ کوئی سینہ پیٹ رہا تھا تو کوئی اپنا منہ پیٹ رہا تھا۔ کچھ دیوار سے سر ٹکرا رہے تھے۔ پورے پشاور میں صف ماتم بچھ گئی۔
یہ کارنامہ اس نام نہاد قوت کا تھا جو اپنے آپ کو طالبان کہلواتے ہیں۔ اسلام کے نام پر پورے پشاور کو ماتم کدہ بنا دیا۔
یوں تو طالبان اور اس کے سہولت کاروں نے پورے پاکستان میں دہشت گردی کی ہے لیکن یہ روح فرسا واقع درندگی کی زندہ مثال ہے۔
مولوی عزیز عرف مولوی برقعہ، ملک اسحاق، جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے نمائندوں نے ٹی وی پہ اس واقع کا سرعام دفاع کیا ہے۔ ایک سنگدل اور بے ضمیر انسان ہی ایسی درندگی کا دفاع کر سکتا ہے۔ اور نا اہل نواز شریف کی حکومت میں اتنی جرات پیدا نہ ہوئی کہ مجرمان کو پکڑ سکیں۔ شاید ن لیگ بھی شرک کار ہو۔
پاکستان کیا بلکہ ہر انسان یہ سوال کر رہا ہے کہ یہ اسلام کی کون سی خدمت ہے؟ کیا اسلام قتل عام کا نام ہے؟ اسلام سے محبت اب نفرت میں تبدیل ہونا شروع ہو چکی ہے۔ اگر یورپ کے لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں تو وہ حق بجانب ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اسلام سے دور ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی کا شاید ایجنڈہ بھی یہ ہی ہوگا۔
پاکستان کی حکومت نے بھی اس پیرائے میں کوئی قابل تعریف قدم نہیں اٹھایا۔ پاکستانی فوج محاذ پہ ایسی قوتوں کے ساتھ نبرد آزما ہے مگر یہ بھی اس مسئلہ کا حل نہیں۔
پاکستانی حکومت کو چاھئے کہ افغانی مھاجروں کے انخلا کا فوری انتظام کرے اور افغانی بارڈر پہ سیکورٹی کو سخت کرے۔ جرنل ضیا اور فوج کے گھناونے جرائم پہ پردہ ڈالنے کے بجائے اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ پاکستانی افواج کی افغانستان میں دخل اندازی نے یہ سب گل کھلائے ہیں۔ نہ مسجد نہ امام بارگاہ اور نہ چرچ محفوظ۔۔
سیاسی جماعتوں کو بھی چاھئے کہ ایسی تمام کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے پاک کریں۔ جماعت اسلامی کو بھی عقل کے ناخن اختیار کرنے چاھئیں۔ جماعت نے پاکستان میں سیاست کرنی ہے کسی اور ملک میں نہیں۔
صدر ٹرمپ کے حالیہ فیصلہ کا شاید ان نام نہاد مذھبی قوتوں پر کوئی اثر نہ ہوا ہو۔ اب بزدلوں کی طرح چھپو نہیں۔ قبلہ اول پہ قبضہ پہ کبھی کسی نے کوئی بیان نہیں دیا۔ اب جائیں جنگ کریں وہاں۔ یا پاکستان میں معصوم بچوں کو قتل کرنا بہادری سمجھتے ہو؟ بے حیائی اور بے شرمی کی انتہا ہے۔
حکومت وقت کو اب عملی اقدام کرنے ہوں گے تا کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ پاکستان کے ہر قبرستان اور ہر قبر پہ یہ کتبہ لکھا ہوگا کہ طالبان کھا گئے آسماں کیسے کیسے
54