57

مذہب نہیں تو۔۔۔۔پھر مُتبادل کیا ہو؟

(کراچی کے معتدل موسم سے۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ریاض رضیؔ)

زندگی کے نشیب و فراز کی صحیح سمت کی نشاندہی کیسے ہو۔ عصری دُنیا کا یہ سب سے بڑا چیلنج اور اہم مسئلہ ہے۔ بات اگر مذہب کی ہو تو پھر معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے اور ایک ایسی گُھتی میں اُلجھ جاتا ہے جس کو سُلجھانا میرے جیسے ایک طالب علم کےلئے آسان اَمر نہیں ہوتا۔ خصوصاً آج کے دور میں جہاں مذہب کو وبالِ جان سمجھ کر خشمگین نگاہ سے دیکھا جاتا ہو اور ہر ہر مطلب کی تشریح و تعبیر ایسے طلب کرتے ہوں کہ گویا کمپیوٹر جیسی تیزی کے ساتھ اُن کو جواب مل جائے۔ وہاں سوالات ہوں گے، تشریحات و وضاحتیں طلب ہوں گی اور اِک اِک مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی انتھک کوششیں اس قدر جارحانہ ہوں گی کہ بالآخر جواب نہ ملنے کی صورت میں دھرلے سے کہہ دیا جائے گا کہ:
(1) “مذہب انسان کےلئے افیون ہے۔”
(2) “مذہب کے پاس فلاں مسئلہ کا حل موجود نہیں ہے۔”
(3) “مذہب انسان کو مجبور بناتا ہے یا مظلوم بناتا ہے۔”
(4) “مذہب غریبوں اور لاچاروں سے شروع ہوا اور انہی پر ہی ختم ہوتا ہے۔”

یہ چند نظریات ہیں کہ جو ہمارے سماج میں گردش کرتے ہیں۔ ایک طرح سے اس قسم کے سوالات کا پیدا ہونا فطری اور بالغ نظری بھی ہے۔ ذہن ہے تبھی تو سوال ہوگا۔ فکری آبیاری ہورہی ہے اس لئے تو اشکالات ہوں گے اور جوابات بھی اُسی طبقہ خاص سے طلب ہوں گے جو کسی بھی سماج میں مذہب کا رکھوالا بنتا ہے۔مولوی، مولانا، پادری، پنڈت، ربی وغیرہ وغیرہ اوّلین نشانے پہ رکھنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ حضرات اپنے اپنے مذاہب کے کرتا دھرتا ہیں۔ ان سے جواب طلب کیا جانا ایک فطری عمل ہے۔ اس میں غصہ کرنے یا کفر کے فتوی جھاڑنے یا اِلحاد کی طرف نسبت دینے کی بظاہر کوئی توجیہہ نظر نہیں آتی۔ یہ تو تاریخ کا حصہ ہے کہ مذہب کے ذمہ داروں میں ہمیشہ غریبوں اور لاچاروں کی لمبی فہرست رہی ہے۔ خود ہمارے عظیم پیغمبر حضرت محمدﷺ کی شروعاتی تبلیغ سے مُتاثر ہونے والوں میں یا تو انتہائی غریب تھے یا غلام اور مجبور افراد تھے۔ بلال حبشیؓ، صہیب رومیؓ، زید بن حارثہؓ جیسے اصحابِ باوفا اس جیتی جاگتی حقیقت کی زندہ مثال ہیں۔ علاوہ ازیں حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ابوسفیان سے مذہبِ اسلام سے متعلق کئے گئے سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی پوچھا تھا کہ:
“اِس(اسلام) کے ماننے والوں میں زیادہ تر کون لوگ ہیں؟ امیریا غریب۔ابوسفیان نے جواب دیا تھا زیادہ تر غریب اور لاچار افراد نے اسلام قبول کیا ہے۔”
لہٰذا مذہب کی طرف غریب اور لاچار افراد کا اِلتفات اس بات کی علامت نہیں ہے کہ وہ مذہب عقلی اور فطری طور پر متروک ہے اور وہ انسانیت کےلئے مشعلِ راہ نہیں بن سکتا۔ کیا مذہب خاص طور پر مذہبِ اسلام کی حقانیت اور نرم گوئی کی یہ مثال نمایاں نہیں ہے کہ عرب کا وہ خطرناک معاشرہ کہ جس میں ایک غریب اور لاچار فرد کےلئے پناہ کی کوئی سبیل نہ تھی وہاں اسلام اُن کےلئے ایک نجات دہندہ کے طور پر آیا اور اُن کے دُکھوں کا مداوا بن گیا۔ اُس زمانے کے انسان کے عظیم تر مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ یہی تھا کہ وہ اپنی انسانیت کو کس سمت لے جاکر شناخت دے سکتا ہے۔ اسلام دعویدار بن کر آیا اور واقعی میں پوری طرح اُن کو شناخت دی۔ فرش سے اُٹھاکر عرش تک پہنچا دیا۔ رنگ اور ذات کی مکمل نفی کرتے ہوئے ایک کو بلال حبشیؓ سے بلالِؓ موذن بنادیا اور دوسرے کو سلمانِ فارسیؓ سے سلمانِ محمدیؓ بنادیا۔ یہ مذہب کا وہ روشن پہلو ہے جس پر تنقید کے بجائے توصیف کا اظہار کیا جانا چاہیئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی مذہب کو اگر بہت جلد اور زیادہ پذیرائی ملتی ہے تو لوگوں کی مخالفتیں خود بخود عُود کر آتی ہیں۔ پھر مدِ مقابل میں شخصیات و نظریات اور مذاہب و مسالک کھڑے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان مخالفتوں کا نشانہ بننے والے افراد مظلوم ہوں گے۔ وہ کوئی طاقت ور اور مافوقُ الفطرت مخلوق تو ہیں نہیں کہ تمام تر مخالفتوں کی بیخ کُنی کرسکیں لہٰذا مظلوم ہونا کسی بھی مذہب کی کمزوری یا بے بضعتی نہیں ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ کسی بھی مذہب کے مظلومین زیادہ ہوں۔ بس! افکار و نظریات اور تعلیمات میں چاشنی ہونی چاہیئے۔ مظلومیت کبھی بھی کسی مذہب کے منطقی اور عقلی ہونے کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ بلکہ میرا تو یہ ماننا ہے کہ مظلومیت کا اظہار وہاں ہوتا ہے جہاں حق کےلئے لڑنے مرنے کا جذبہ ہوتا ہے جبکہ ظالم ہمیشہ حق غصب کرنے کے فراق میں ہوتا ہے جس کی حمایت کوئی بھی جہاندیدہ انسان نہیں کرسکتا۔
مندرجہ بالا سوالات کا پیدا ہونا کسی بھی طرح سے حیرت و استعجاب کا مقام نہیں ہے۔ ہمارے زمانے کا انسان دماغی طور پر بلوغت کی اِنتہاء کو چُھو رہا ہے۔ ایک وہ انسان تھا کہ جس کو اپنے روز مرہ کے اُمور حل نہیں ہوتے تھے۔ چہ جائیکہ وہ مذہب کی باریکیوں اور تسخیرِ کائنات جیسے اُمور پر توجہ دیتا۔ ایک آج کا انسان ہے کہ ہمیشہ سوالی بن جاتا ہے۔ اور جواب بھی ایسے طلب کرے گا جیسے حضرت “گوگل” سوال کرتے ہی جواب پھینک ہے۔ حضرت “گوگل” کی قریبی خاصیت یہ ہے کہ آپ کوئی سا بھی لفظ لکھ دیں فی الفور جواب موصول ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم لفظ “بروق” جیسا کہ ہمارے ہاں اس لفظ کا مطلب بلند و بالا علاقوں میں رہائش پذیر افراد کےلئے استعمال کیا جاتا ہے، سرچ کریں تو ہمیں اس کا معنی عام مستعمل مفہوم کے ساتھ تو نہیں ملے گا البتہ عربی زبان میں اس کا معنی “کڑکنے والی بجلی” کے طور پر ظاہر ہوگا۔ یہ حضرت گوگل کی طرف سے فی الفور عطاء کردہ جواب ہے جس سے مطمئن ہونا شاید ایک جدید ذہن کےلئے مشکل اَمر نہیں ہے۔ حضرت”گوگل” مخبری اور چغل خوری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ پیٹ کا بھی بہت ہلکا ہوتا ہے۔ اِدھر کی بورڈ پر اُنگلی کیا رکھی اُدھر جواب دینے میں ذرا اسی بھی دیری نہیں کرتا۔ اگر مجھے خوف نہ ہوتا تو میں یقیناً حضرت گوگل کو حضرت انسان کی ایک صنف سے تشبیہ دیتا اور ایک نظریہ اخذ کرتا کہ پیٹ کا ہلکا پن اور مخبری کی صفت حضرت گوگل کو حضرت انسان کی فلاں صنف سے ورثہ میں ملی ہیں۔(معذرت)یہ تو حضرت گوگل کی خاصیت تھی کہ وہ جواب دینے میں تامل نہیں کرتا اور فی الفور جواب دینا اُس کی انفرادی خاصیت ہے۔اب یہی تقاضا ہم مذہب کے رکھوالوں سے کریں اور وہ جواب دینے میں تھوڑی سی بھول چوک کا اظہار کریں یا آئیں بائیں شائیں کی سی صورتحال پیدا ہو تو فوراً حتمی رائے مذہب کے خلاف قائم ہوتی ہے اور جھٹ سے کہہ دیا جاتا ہے کہ “مذہب کے پاس حل موجود نہیں ہے۔ ہو نہو کہ زبانی کلامی باتوں کے ذریعے لوگوں کو بیوقوف بنانا عام رواج بن چُکا ہے” ممکن ہے کہ اس رائے میں کسی قدر حقیقت بھی ہو۔ کیونکہ جو لوگ مذہب کے رکھوالے ہیں اگر اُن کی طرف سے کمزوری ظاہر ہوگئی تو لا محالہ انگلیاں مذہب کی طرف اُٹھیں گی۔ مذہب تو خاموش “مدِ مقابل” ہے۔ نہ وہ براہ راست ہم سے گفتگو کرنے کا مجاز ہے اور نہ ہی ہمارے کسی سوال کا جواب دے سکتا ہے۔ ایسے میں کسی مذہب اور اُس کی تعلیمات کو دوش دینا عقل و انصاف پر مبنی ہے؟ یہ سوال یقیناً غور طلب ہے۔ لہٰذا اس گفتگو کے محاصل کے طور پر میں بھی ایک سوال رکھوں گا کہ:
اگر مذہب جدید زندگی کا دُرست اِنتخاب نہیں ہے تو مُتبادل کیا ہو؟
(1) سائنس؟ کہ جس میں ایک نظریہ کسی زمانے میں ایمانیات کا درجہ حاصل کرتا ہے اور کسی اور زمانے میں بکواس اور لاحاصل قرار پاتا ہے۔ ایک مشہور سائنسدان نے اپنے اوائلِ عمر میں کہا تھا کہ خدا ہے لیکن مرتے مرتے کہہ گیا کہ خدا نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ سائنس خدا اور مذہب کا مُنکر واقع ہو۔ بہت سارے سائنسدان خدا اور مذہب کے معتقد رہے ہیں۔
(2) اِلحاد؟ کہ جس میں نہ خالق و مالک موجود ہے اور نہ ہی عبادات و اعتقادات کا تصور ہے۔ آخر ہم کیسے تسلیم کرلیں کہ اتنی بڑی کائنات خود بخود معرضِ وجود میں آئی۔ جس کو چلانے والا کوئی بھی نہیں۔ ہم اپنی دُنیا کا کیوں نہیں مشاہدہ کرتے کہ جب ایک معمولی سی معمولی چیز بھی خود بخود نہیں بن سکتی تو اتنی بڑی کائنات خود ہی بن گئی؟ کوئی تو ہوگا کہ جس نے ہم سب کو بنایا۔
(3) مذہب؟ کہ جس کی تعلیمات ہر آن خالقِ کائنات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ جو ہمیشہ سے انسانیت کی نجات کا دعویدار واقع ہوا ہے۔ مذہب سمجھتا ہے کہ انسان باالفعل اور باالقوة دونوں صورتوں میں مذہب کا پابند ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں مذہب اور خالقیت کی فرمانبرداری سے خالی نہیں۔ یہ باتیں مذہبی تعلیمات پر مبنی کتابیں بتاتی ہیں۔ خاص طور پر قرآن مجید میں خدا کے وجود اور اُس کی اطاعت کے واضح احکامات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام کا ایک مطلب سرِ تسلیم خم کرنا بھی ہے۔ جب ہم نے مذہب کے سامنے سرِ تسلیم خم کرلیا تو پھر معترض بننے کے بجائے اطاعت گزار بن جائیں تو بہتر نہیں ہوگا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں