مُقدمہ:
یہ مضمون حالیہ دِنوں گاؤں (گنجی روندو) کے سفر کے بعد لکھا گیا اور تجزیہ کے طور پر نتیجہ اخذ کیا گیا کہ شہری اور دیہاتی زندگی کا تال میل انسانی نفسیات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ ہم دیہاتی ہیں جو کہ ہماری اصل بُنیاد بھی ہے، اس نہج پر کہ ہمارا دل کرتا ہے کہ شہر کے ہنگاموں سے کہیں دور چلے جائیں اور کچھ دنوں کےلئے دُنیا و مافیہا سے بے گانہ ہوکر تھوڑا سا سکون حاصل کرلیں۔ لیکن جب ہم وہاں جاتے ہیں تو سکون ملنے کے باوجود ہم بوریت کا شکار ہوتے ہیں۔ چند ہی دنوں میں دل اُکتا سا جاتا ہے اور فی الفور دوبارہ شہر کی طرف جانے کا دل کرتا ہے۔ دوسری مرتبہ ہم شہری بننے کی خواہش دل میں لئے مختلف شہروں کی طرف رختِ سفر باندھتے ہیں اور ہماری یہ خواہش بہت ساری توقعات، ضروریات اور تمناؤں پر مشتمل ہوتی ہے۔ زبردست سہولیات کی فراہمی اور ضروریات کی تکمیل بھی ہمارے دل میں موجود اُس کسک کو ختم نہیں کرپاتی جو غیر محسوس طریقے سے ہمارے دل میں قائم و دائم ہے۔ میرا نُقطہ نظر ہے کہ یہ سارا اِشتیاق اُس وقت تک برقرار رہتا ہے جب ہم شہر سے نکلتے ہیں اور گاؤں پہنچنے تک کا عرصہ طے کرلیتے ہیں۔ یعنی سارا بھرم اُس راستے کا فاصلہ طے کرنے تک رہتا ہے جیسے ہی یہ فاصلہ ختم ہوجاتا ہے، وہ شوق اور جذبہ بھی ماند پڑ جاتا ہے۔
تفصیلی بحث:
چکا چوند زندگی سے جیسے ہی آپ دیہاتی زندگی کی طرف رُخ کریں گے، مظاہرِ قدرت تو وہی کے وہی رہیں گے لیکن طرزِ زندگی اور رہن سہن کا کافی فرق نظر آئے گا۔ مدنیّت کا تعلق بھی دراصل انہی دو واضح فرق کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ ہم مُشاہدہ کرسکتے ہیں کہ شہری زندگی میں ہنگامہ خیز عنصر ہوتا ہے۔ شہر میں موجود محلے، گلیاں اور سڑکیں پُرہجوم زندگی کا پتہ دیتی ہیں۔ ایک گلی کا اِختتام دوسری گلی کے آغاز پر ہوتا ہے جبکہ ایک سڑک جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے دوسری سڑک کا آغاز ہونا یقینی ہے۔ یہ مدنیّت کی ترقی یافتہ شکل کی نمایاں ترین مثال ہے۔
تاریخِ انسانیت کا یہ پہلو اِنتہائی کمال کا رہا ہے کہ سطحی طرزِ عمل سے شروع ہونے والا نقطہ زندگی لمحوں اور مرحلوں سے گزرتے گزرتے آج کے زمانہ تک پہنچا۔ پھر جیسا کہ آج کی مدنیّت کے قریبی شاہد ہم ہیں تو یقینی بات ہے کہ ہم دونوں پہلو سے گزر رہے ہیں۔ ایک طرف ہم شہری زندگی کے پرتو ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ شہری زندگی کے تمام طور طریقے اپنائیں۔ دوسری طرف فی نفسہ ہم دیہاتی ہیں تو اُس زندگی کے تمام پہلو ہمیں ازبر ہیں۔ زندگی کی یہ دونوں پہلو (کہ ایک مدنیّت کا اعلیٰ مدار ہے اور دوسرا قدرِ کم ہے) ہمیں اس بات کےلئے تیار کرتے ہیں کہ ہم اپنی شخصی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کریں۔ خاص طور پر وہ لوگ کہ جن کی شروعات دیہاتی زندگی سے ہوتی ہے وہ اِن دونوں ادوار کے قریبی نشان ہوتے ہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ دُنیا کے نصف سے زائد لوگ کسی نہ کسی حوالے سے دیہاتی شناخت رکھتے ہیں۔ یعنی وہ شہری زندگی سے آشنا ہونے سے قبل دیہاتی زندگی کے نشیب و فراز سے گزر چُکے ہیں۔ خود پاکستان کی مدنیّت کی طرف نظر دوڑائیے کہ یہاں کی آبادی میں دیہاتی رنگ اَغلب ہے۔ جیسا کہ سروے میں بھی بتایا گیا ہے کہ یہ مُلک قریب 70 فیصد آبادی دیہاتی مدنیّت میں پہناں رکھتا ہے۔ آج کے پاکستان میں جہاں چند گنے چُنے شہر مدنیّت کے اعلیٰ مدار کی حیثیت سے معرفت رکھتے ہیں وہی بہت سارے قریے، آبادیاں اور قصبے شہری مدنیّت کی طرف رواں دواں ہیں۔ ہر بدلتے دنوں کے ساتھ اور ہر نئی رُت کے پسِ پردہ مدنیّت کی نُدرت میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ صنعتی ترقی کے بعد بہت ساری نئی ایجادات ہوئیں اور انسانی رہن سہن میں بدلاؤ سا آگیا۔ وہ مدنیّت کہ جس کا یک رُخی پہلو تھا اب ثنویت میں ڈھل گیا ہے اور مزید پیش رفت کی گنجائش ہر وقت رہتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ جہاں کہیں انسان کو سہولیات میسر آئیں اُس جانب رُخ کرنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔ خاص طور پر علوم و فنون کا حصول جس قدر شہروں میں آسان اَمر بنتا ہے لامحالہ اِس نوع کی ضرورت دیہاتوں میں پوری ہونا ممکن نہیں ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں ہجرت جیسا عمل کہ جس میں انسان اپنے گھر، ماحول اور معاشرہ سے بحالتِ مجبوری بے دخل ہوتا ہے، وہ بھی مدنیّت کی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہوسکتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ ہر ہجرت کرنے والا انسان قبل ازیں اپنے وطن میں شہری مدنیّت سے نا آشنا ہوتا ہے اور ہجرت کے بعد وہ نئی مدنیّت کا حامل بن گیا۔ بعض اوقات اچھی خاصی شہری مدنیّت کے حامل افراد بھی اپنا بنا بنایا شہر بھی چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہم مثال پیش کرسکتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد مہاجرین کی جو کھیپ پاکستان آئی وہ مدنی اعتبار سے کافی پختہ اور مُربّی کی سی حیثیت رکھتی تھی۔ کیا اِس بات سے اِنکار کی گنجائش موجود ہے کہ مہاجرین کی آمد سے قبل ہمارے ہاں (خاص طور پر کراچی اور میرپور خاص) مدنیّت کو عروج حاصل تھا؟ کہیں کہیں شملہ، سکردو اور شگر کو بھی شاملِ موضوع کئے جاسکتے ہیں۔ وہ لوگ جو تینوں جگہوں (سکردو، شملہ اور شگر) کی مدنیّت کے شاہد رہے آج اُن کا رہن سہن اور طرزِ زندگی اُن لوگوں سے زیادہ تہذہب و تمدن سے آراستہ ہے جنہوں نے ایک ہی جگہ کو اپنا وطن برقرار رکھا۔ بات ہورہی تھی ہجرت کا عنصر بھی مدنیّت کو بڑھاوا دینے اور اُس کے تغیر میں بڑا محرک ثابت ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کے ہر اِنسان کا مقصد سہل زندگی کا حصول اور کمانے کے آسان طریقے دریافت کرنا ہے اور اِس کےلئے دیہاتی زندگی سے زیادہ شہری زندگی کارگر ثابت ہوتی ہے۔
یہ تو تھا ایک پہلو کہ جس کی وضاحت سے ہم نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ دیہاتی اور شہری زندگی میں تال میل انسانی نفسیات کا وہ لاینحل مسئلہ ہے کہ اگر انسان بعض اوقات دیہات زندگی کو پسند کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ دیہات میں سہولیات کی فراوانی ہے۔ بلکہ وہ اس لئے اُس زندگی کی طرف ملتفت ہوتا ہے کہ وہ پیدائشی طور پر دیہاتی ہوتا ہے اور کبھی کبھی سُکون کی تلاش میں دوبارہ دیہی مدنیّت کو اپنانے کےلئے مجبور ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس شہری مدنیّت کو اپنانے کا عمل خالصتاً ضرورت کےلئے فروغ دیا جاتا ہے۔
دوسرے پہلو کے ذریعے ہم یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ دُنیا بدلتی رہی۔ لوگوں میں شعور کا فروغ بے پناہ ہوا۔ یہاں تک کہ تسخیرِ کائنات کے کئی عُقدے کھل گئے۔ لیکن اِس کے باوجود دیہی مدنیّت سے انکار کسی بھی لحاظ سے صحت مند نہیں ہے۔ ہم نے اپنے کسی کلام میں بھی ذکر کیا تھا کہ یورپ بھی کسی زمانے میں دیہات ہی تھا۔ آج اُن کی شہری مدنیّت کو خاص تفوق حاصل ہے تو اس کے پسِ پردہ علوم و فنون پر مکمل دسترس ہے۔ اُنہوں نے شعور کی منزل پالی اس لئے وہ دیہات پر مبنی زندگی کو شہری زندگی میں بدلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اُنہوں نے اپنے طرزِ زندگی میں بدلاؤ ضرور لایا ہے لیکن محنت اور لگن کو کبھی بھی نظرانداز کرنے جیسے عمل کے مرتکب نہیں ہوئے۔ اُن کے ہاں محنت اور کام انجام دینے کے دوران عار محسوس کرنا خود ایک عار سمجھا جاتا ہے۔ وہ معمولی سا معمولی کام بھی جوش و جذبہ اور لگن کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے یورپ میں اگر کوئی دیہی شہرت کا وجود ہے بھی تو وہ ہمارے ہاں کی شہری مدنیّت سے کئی گُنا بہتر ہے۔
سوال یہ ہے کہ!
کیا شہری مدنیّت کے حصول کےلئے دیہی مدنیّت کی نفی کرنا لازم ہے؟ کہاں لکھا ہے کہ انسان پڑھا لکھا ہو تو وہ کام کاج، زراعت، کھیتی باڑی اور مال مویشیوں کی دیکھ بھال سے بری الذمہ ہوجاتا ہے؟ شاید ہم نے کچھ اُصول بنالئے ہیں اور اُن اصول کی روشنی میں فیصلہ بھی کر بیٹھے ہیں کہ دیہی مدنیّت سے منہ چُرانا اور کام کاج سے ہاتھ اُٹھانا ہی شہری مدنیّت کی اعلیٰ پہچان ہے۔ ہم نے اپنی دیہی مدنیّت کو یکسر نظر انداز کرکے شہری مدنیّت کی تلاش کسی اور کے آنگن میں کی ہے۔ یقین نہیں آتا ہے تو گذشتہ 15 اور 20 سالوں کے دوران گنجی سے شہری مدنیّت کی طرف ہجرت کرنے والے افراد کی فہرست پر نظر دوڑائیے سب کچھ واضح ہوجائے گا۔ جس قصبہ سے ہماری زندگی کا آغاز ہوا اُس کی ہیئت کو بدلنے کے بجائے یہاں سے رفو چکر ہونے میں ہی ہم نے عافیت جانی۔ اب جبکہ ہم کچھ دنوں کےلئے گاؤں واپس آتے ہیں تو پھر ہمارا دل کیسے لگے؟ بوریت کیونکر پیدا نہ ہو؟ ہماری عالی ذات اب سہولیات اور آسائشوں کی عادی جو ہوگئی ہے، وہ کبھی بھی کم پر قناعت نہیں کرے گی۔ نتیجتاً چند دن گاؤں میں قیام کرکے فوراً بھاگ جانا ہمارا وطیرہ بن گیا ہے۔ آئیں عہد کریں کہ ہماری ذات جو کہ شہری و دیہی مدنیّت سے آشنا ہوچُکی ہے اُس کو کسی ایک پہلو میں مقید کرنے کے بجائے آزاد رکھیں اور دونوں ہی طرزِ زندگی سے مستفیض ہونے کے اُصول و نظریات وضع کریں۔
(مورخہ:٢٦اکتوبر٢٠١٩ء، بوقت:٢بجے شب، بمقام: گنجی روندو)
56