وہ بس میں بیٹھا، کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوا اپنی ہی سوچ میں گم تھا کہ کنڈیکٹر کی پاٹ دار آواز اس کے کانوں میں آئی! آگے بڑھو صاحب آگے بڑھو! بس میں پہلے ہی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور وہ مزید سواری کی کوشش کررہا تھا. صمد نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کے کنڈیکٹر کو دیکھا اور پھر ددوبارہ منہ کھڑکی کی طرف کرکے اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑانا شروع کردیئے. اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ دفتر میں پیش آنے والی اس عجیب صورتحال کو کس طرح سلجھائے.
معاملہ کچھ یوں تھا کہ اس میں ایک عجیب عادت تھی کہ وہ لوگوں کی اُن حرکات کو دھیان میں رکھتا تھا جن پر عام طور پر لوگ غور نہیں کرتے. عموماً لوگ سامنے والے کے کپڑوں، بالوں اور آنکھوں کی رنگت وغیرہ پر نظر رکھتے ہیں لیکن صمد یہ دیکھتا تھا کہ سامنے والا شخص بات کرنے کے دوران اپنے ہاتھوں کو کیسے رکھتا ہے، کتنی بار منہ کے قریب لے جاتا ہے اور کتنی مرتبہ کان یا ناک کھجاتا ہے وغیرہ وغیرہ. اس کے گھر والے بھی اُس کی اس عادت کا اکثر مذاق اڑایا کرتے تھے. مگر یہاں معاملہ دوسرا تھااور کافی سنجیدہ بھی کیونکہ بات اس کمپنی کے مالک کی تھی جہاں وہ نوکری کرتا تھا.
یہ ایک نامی گرامی ٹریڈنگ کمپنی تھی جس میں کام کرتے ہوئے اسے چار ماہ ہی ہوئے تھے. شروع میں وہ دفتر کے ماحول اور اپنے کام سے کافی مطمئن تھا. مسئلہ اس وقت سے شروع ہوا جب اس نے دو ماہ پہلے کمپنی کے مالک سہیل ملک کی ایک ایسی خفیہ عادت کو دیکھ لیا جس کے بارے میں وہ کسی کو بتاتا تو کوئی اس کا یقین نہیں کرتا.
یہ دو ماہ پہلے کی بات تھی کہ ایک دن سہیل ملک اس کے برابر میں بیٹھے اسد علی کے پاس آئے اور کسی مسئلے پر دونوں بات کرنے لگے. صمد اپنے کام میں مشغول تھا. اس نے غیر ارادی طور پر ایک نظر دونوں پر ڈالی اور اسی لمحے اس نے دیکھا کہ سہیل ملک نے اسد علی کی میز پر رکھا ان کا پارکر قلم اٹھا کر اُس وقت اپنی جیب میں رکھ لیا جب اسد علی اسکرین پر کچھ دیکھنے کے لیے پیچھے مڑا. صمد کو لگا کہ شاید بے دھیانی میں سہیل ملک نے ایسا کیا مگر چند دن ہی گزرے تھے کہ اس نے اسی طرح کی ایک اور کاروائی نفیس صدیقی کی میز پر رکھی اُن کی عقیق کی انگوٹھی کے ساتھ دیکھی جو انہوں نے وضو کرنے کے لیے اتار کر رکھی تھی اور پہننا بھول گئے تھے. صمد کو حیرانی تو بہت ہوئی مگر اس نے پھر بھی کسی منفی سوچ کو اپنے ذہن میں جگہ نہیں دی. لیکن جب ایک دن میٹنگ ہال میں سہیل ملک نے برابر میں بیٹھے رحیم انصاری کے فون کو بہت صفائی سے اٹھا لیا تو اس دن اسے یقین ہوگیا کہ یہ دوسروں کی چیزیں اٹھا لینا کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک بری عادت ہے. اسے یاد آیا کہ اس نے ایک دفعہ انٹرنیٹ پر ایک آرٹیکل پڑھا تھا کہ بلا ضرورت چیزیں چرا لینا ایک بیماری ہے. جسے طبی زبان میں جنون سرقہ( کلپٹومینیا) کہا جاتا ہے. یہ بیماری کسی کے لیے مخصوص نہیں اس کا شکار امیر غریب کوئی بھی ہوسکتا ہے. دنیا کی چند مشہور شخصیات بھی اس میں شامل ہیں جنھیں خفیہ کیمروں کی نگاہ سے دیکھے جانے پر چیزیں چرانے کی عادت کا اعتراف کرنا پڑا. یقیناً سہیل ملک بھی اس بیماری کا شکار ہیں ورنہ اتنے دولت مند آدمی کو معمولی چیزیں چرانے کی کیا ضرورت ہے.
حقیقت جان لینے کے بعد کچھ اپنی متجسس فطرت کی وجہ سے صمد نے سہیل ملک پر نظریں رکھنا شروع کردیں. وہ جب بھی سامنے آتے صمد اپنے موبائل کیمرے سے خفیہ ویڈیو بنا لیتا. اگر اس میں چوری کی کاروائی ہوتی تو وہ محفوظ کرلیتا ورنہ مٹا دیتا. ابھی پچھلے ہفتے ہی اس نے کمپنی کے سالانہ ڈنر کے موقع پر سہیل ملک کی ایک کاروائی کی ویڈیو بنائی تھی جو شہر کے ایک مشہور ہوٹل میں دیا گیا تھا. اس ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا تھا کہ سہیل ملک نے ہوٹل والوں کے چاندی کے دو چمچے اور کمپنی کے ایک منیجر شفیق رحمان کا بٹوا کمال ہوشیاری سے اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا تھا.
صمد سوچ رہا تھا کہ سہیل ملک کے جس راز سے وہ واقف ہوگیا ہے دفتر میں کسی اور کو بھی اس کے بارے میں معلوم ہے یا نہیں؟ یہ ذکر تو رہتا تھا کہ دفتر سے چھوٹی موٹی چیزیں غائب ہوتی رہتی ہیں. بعض لوگ اسے چپراسیوں اور صفائی کرنے والے عملے کے کھاتے میں ڈال دیتے تھے اور بعض منچلے مذاق میں دفتر میں کسی پراسرار روح کو اس کا ذمہ دار ٹہرا کر بھول بھال جاتے تھے. لیکن رحیم انصاری کے فون کے غائب ہونے پر کئی سوال اٹھے مگر پھر معاملہ رفع دفع ہوگیا کیونکہ کمپنی کی جانب سے رحیم انصاری کو مہنگا اور نیا فون مل گیا تھا. صمد کو یہ بات کھلتی تھی کہ چیزوں کے غائب ہونے کا شک غریب چپراسیوں اور صفائی کے عملے پر کیا جاتا ہے جب کہ اصل ذمہ دار کوئی اور ہے.
بہت سوچ بچار کے بعد صمد نے کمپنی کے سینیئر کیشیئر ماجد سلیم سے بات کرنے کا فیصلہ کیا جو عمر میں تو صمد سے آٹھ دس سال بڑے تھے مگر ایک ہی علاقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دونوں کی آپس میں اچھی علیک سلیک تھی. چھٹی والے دن صمد دوپہر کو کھانے کے بعد ان کے گھر پہنچا اور انہیں ساری بات بتائی. صمد کی زبانی سہیل ملک کی اس انوکھی عادت کا سن کر ماجد سلیم حیرت زدہ رہ گئے اور اس سے پوچھنے لگے کہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے اس کے پاس؟ صمد نے انہیں ان ویڈیو کے بارے میں بتایا جو اس نے خفیہ طور پر بنائی تھیں. اس نے اپنے فون میں موجود تمام ویڈیو ایک کے بعد ایک انہیں دکھائیں جن میں صاف دکھ رہا تھا کہ سہیل ملک کس طرح چیزیں چرا کر اپنی جیب میں ڈال رہے تھے.
ماجد سلیم نے صمد سے کہا کہ وہ ساری ویڈیو انہیں بھیج دے اور ابھی اس بات کا ذکر کسی اور سے ہرگز نہ کرے. وہ چند دنوں میں اسے بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں کیا کیا جاسکتا ہے. یہ کوئی معمولی بات تو ہے نہیں! کمپنی کے مالک کی بات ہے ، بہت سوچ سمجھ کر کچھ ایسا کرنا پڑے گا جس سے ان کی نوکریوں پر کوئی آنچ نہ آئے کیونکہ آج کل کے زمانے میں مراعات کے ساتھ اچھی نوکری ملنا بہت مشکل ہوگیا ہے.
اگلی صبح دفتر میں صمد کی ماجد سلیم سے ملاقات ہوئی مگر رسمی گفتگو سے زیادہ کوئی بات نہیں ہوسکی. اگلے دو تین روز تو خود صمد کو بھی ان سے بات کرنے کا وقت نہ مل سکا کیونکہ نیا مہینہ شروع ہوتے ہی دفتر میں کام کا زور بڑھ جاتا تھا. ایک روز چھٹی کے وقت جب سب گھر جانے لگے تو صمد نے دیکھا کہ ماجد سلیم ابھی تک کام میں مشغول ہیں . وہ ان کے پاس گیا اور ساتھ چلنے کا پوچھاتو وہ کہنے لگے بہت اہم کام کررہا ہوں آج تھوڑی دیر ہوجائے گی. صمد نے ان سے پوچھا اُس بات کے بارے میں کچھ سوچا؟ انہوں نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ وہ رات میں فون پر اس سے بات کریں گے. پھر صمد سے کہنے لگے کہ اگر تمہیں کوئی زحمت نہ ہو تو ذرا اپنا فون مجھے دینا. گھر میں بتانا ہے کہ دیر سے آؤں گا. میرے فون میں کچھ خرابی ہوگئی ہے کام نہیں کررہا. صمد نے ضرور کیوں نہیں کہہ کر اپنا فون ان کی طرف بڑھا دیا. گھر آکر وہ رات دیر تک ماجد سلیم کے فون کا منتظر رہا مگر پھر مایوس ہوکر سوگیا.
اگلی دن دفتر میں ماجد سلیم کہیں دکھائی نہیں دیئے تو صمد نے ان کے ایک ساتھی سے پوچھا تو پتہ چلا کہ ان کی طبیعت خراب ہے اور انہوں نے چند دنوں کی چھٹی لی ہے. صمد کو حیرت ہوئی کہ کل شام تک تو وہ بالکل ٹھیک تھے. پھر اس نے سوچا شاید دیر تک کام کرتے رہنے سے تھک گئے ہوں گے. گھر آکر اس نے کئی بار انہیں فون ملایا مگر ہر بار فون مصروف ملا.
پھر چند دن کیا! کئی روز گزر گئے ماجد سلیم نہ دفتر آئے نہ ہی کسی سے فون پر رابطہ کیا. دفتر کے کچھ قریبی ساتھیوں نے کمپنی کے مالک سہیل ملک سے ان کے دفتر نہ آنے کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنا استعفیٰ بھجوادیا ہے. صمد ماجد سلیم کو برابر فون کرتا رہا مگر کوئی جواب نہیں ملا. پہلے تو کال مصروف ملتی رہی اور اب کئی دنوں سے فون بند جارہا تھا. تھک ہار کر اس نے فون کرنا چھوڑ دیا.
ایک روز صمد دفتر سے گھر آیا ہی تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی. اس کے بھائی نے بتایا کوئی حفیظ صاحب آئے ہیں جو اس کے لیے ماجد سلیم کا پیغام لائے ہیں. وہ دوڑ کر باہر آیا تو دیکھا ایک تیس بتیس سال کا ایک آدمی ہاتھوں میں ایک خوبصورت سا پیکٹ اور تازہ پھولوں کا گلدستہ لیے کھڑا تھا. سلام دعا کے بعد حفیظ نامی اس آدمی نے پیکٹ اور گلدستہ صمد کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ اس کے لیے ہے ماجد سلیم صاحب کی طرف سے. صمد نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے دونوں چیزیں اس سے لےلیں اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا کہ وہ خود کہاں ہیں؟ ان کی طرف خیریت ہے؟ حفیظ نے اسے بتایا کہ ماجد سلیم بمعہ اہل و عیال، چند روز ہوئے کراچی چھوڑ کر کسی اور شہر چلے گئے ہیں. کہاں ؟ یہ اسے بھی نہیں معلوم. انہوں نے اسے صمد تک یہ سامان پہنچانے کا کہا تھا تو وہ اس لیے حاضر ہوا تھا.
حفیظ کو رخصت کرکے صمد نے اپنے کمرے میں آکر گلدستہ ایک طرف رکھا اور پیکٹ کو کھولنے لگا. پیکٹ کے اندر ایک بالکل نیا آئی فون رکھا ہوا تھا. ساتھ ہی ایک پرچی بھی لگی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا…. میرے کرم فرما صمد کے لیے! فون میں تمہارے سوالوں کا جواب موجود ہے… ماجد سلیم.
صمد کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا اسرار ہے. اس نے جلدی سے فون نکالا اور اسے چالُو کیا تو میسیج میں اس کے لیے ماجد سلیم کی آواز میں صوتی پیغام موجود تھا. اس نے اسے کھولا تو ماجد سلیم کی آواز سنائی دی….. صمد! مجھے پتہ ہے کہ تم حیرت زدہ ہوگے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ تو میرے دوست یہ ایک چھوٹا سا نذرآنہ ہے تمہاری اس کرم فرمائی کا جو انجانے میں تم نے میرے ساتھ کی… پریشان ہونے کی ضرورت نہیں. بات یہ ہے کہ تم نے جب سہیل ملک کا راز مجھے بتایا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے جو مجھے تمہارے ذریعے سے مل رہا ہے. سو میں نے وہ تمام ویڈیو، جو تم نے بنائیں تھیں، سہیل ملک کو بھیج دیں کہ اگر اسے اپنی عزت عزیز ہے تو پچاس لاکھ روپے دے کر اسے بچالے ورنہ زمانے کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہے گا….. سو عقل مندی کا تقاضہ یہی تھا کہ اس نے میری بات مان لی. بدلے میں، میں نے وہ ساری ویڈیو اس کے سامنے مٹا دیں بلکہ اپنا فون ہی اسے دے دیا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری…. آخر پچاس لاکھ کا معاملہ تھا کوئی معمولی رقم تو تھی نہیں… ہاں تمہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ تمہارے پاس جو ویڈیو تھیں وہ میں نے اس دن مٹا دی تھیں جس دن میں دیر تک دفتر میں رکا رہا تھا اور تم سے گھر فون کرنے کے لیے تمہارا فون مانگا تھا…. تمہیں یاد ہوگا. خیر تمہاری نوکری پر کوئی آنچ نہیں آئے گی کیونکہ سہیل ملک کو یہ نہیں پتہ کہ یہ سارا کارنامہ تمہارا ہے…….تو دوست تم اپنی نوکری جاری رکھو.
