آئے دن سویڈن ،فرانس اور بلجیم کے کچھ بڑے شہروں میں جرائم کی خبریں آتی رہتی ہیں جن میں قتل، ڈاکے، پولیس، فائربرگیڈاور امبولینس پر پتھراو وغیرہ وغیرہ ۔اور اکثر یہ واقعات ان علاقوں میں پیش آتے ہیں جن علاقوں میں غیر ملکی رہائش پزیر ہیں ۔ یہ وہ بھٹکے ہوے یورپین نوجوان ہیں جن کے والدین مڈل ایسٹ، آفریقہ، ترکی سے آے ہیں اور کافی عرصہ سے یورپ میں مقیم ہیں۔ ان جرائم پیشہ نوجوانوں کا معاشرے سے اعتماد اٹھ چکا ہے ۔ اس معاشرے سے اعتماد اٹھ گیا ہے جس میں تعلیم مفت ہے، علاج مفت ہے، سر پر چھت ہے ، جسم میں پر بہترین کپڑے ہیں اور گھر میں فریج کھانے پینے کی چیزوں سے بھری ہوئ ہیں خواہ والدین کے پاس ملازمت ہے یا نہیں ہے مگر ریاست ااپنی زمہداری نبھا رہی ہے مگر ان نوجوانوں کو ریاست پر اعتماد نہیں ہے ۔
میرا تعلق محکمہ تعلیم کے ساتھ ہونے کی وجہ سے والدین اور طالبعلموں سے روز کا واسطہ ہے ۔ ایک دفعہ ایک طالبعم کے سکول میں غلط رویہ کی وجہ سے اس کے والد کو فون کرنا پڑا اور اس کو سکول میں بلایا اور اس طالبعلم کا والد جب سکول آیا تو میں اسکو جانتا تھا وہ امام مسجد تھا جس کو میں کئی بار مل چکا تھا۔ اسکو مسجد میں خطبہ دیتے سنا تھا۔ لوگوں کو سیدھے رستے پر چلنے کی تبلیغ کرتےسنا تھا ، میں کئی بار اسکے پیچھے نماز قائم کی تھی۔ اس کو دیکھ کر میرے ذہن میں کئی سوالات گردش کرنا شروع ہوگئے کس طرح ہوسکتا ہے کہ جو آدمی مسجد میں دوسروں کو سیدھا رستہ دکھاتا ہو اسکا اپنا بچہ اتنا بداخلاق ہو۔ بحرحال جب لڑکے کے والد کے سامنے مسلہ پیش کیا تو وہ بھی فرمانے لگے کہ اس معا شرے کا قصور ہے
امام مسجد صاحب سے لمبی بحث مباحثہ کے بعد جب بات نہ بنی تو مجھ سے نہ رہاگیا اور کہنا پڑا کہ آپ مسجد میں لوگوں کو تبلیغ کے بجاے اپنے بچوں کو وقت دیں اور معاشرے کو بعد میں قصووار ٹھہرانا ۔امام صاحب نے میرا آخری جملہ بہت ناپسند کیا ۔
اس مسلے پر ایک دوست سے بات ہوئ تو انہوں نے بہت اچھی بات کی کہ کافی لوگ جو دوسرے ملکوں سے آے ہیں ان میں دو قسم کےلوگ ہیں ۔ایک وہ لوگ ہیں جوکہ دن رات کام کرتے ہیں اور کبھی چھٹی نہیں کرتے اور انکو یہ نہیں معلوم کہ ان کے بچے کہاں اور کیا کر رہے ہیں۔
دوسرے وہ کہ جو کبھی کام نہیں کرتے دن رات فارغ رہتے ہیں اور ان لوگوں میں بھی بہت سے مسائل ہیں جن کوئ خاص پرواہ نہیں کہ انکے بچے کہاں اور کیا کررہے ہیں۔
وجوہات جو بھی ہوں یہ حالات ہماری آنے والی نسلوں کے لیے کسی صورت میں خوش آئند نہیں ہیں۔ جن ملکوں میں ہم آباد ہیں ان ملکوں نے ہم کو شہریت کے ساتھ ساتھ سارے انسانی حقوق دیے ہیں اور ہم جس ملک میں آباد ہوں اس سے پیار کرنا چاہیے۔ اور اپنے بچوں کو بھی یہی تعلیم دینی چاہیے کہ اس ملک کی عزت کریں جس نے آپلوگوں کو عزت دی ۔
قابل غور بات۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ میں سویڈن میں آباد ہوں اس لیے سویڈن کی بات کروں گا کہ سویڈن میں ہم پاکستانیوں کے بچے خوش قسمتی سے ان جرائم پیشہ نوجوانوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماشاء اللہ سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں روز بروز ترقی کر رہے ہیں۔ اپنے مزہب اور کلچر کو بھی نہیں بھولے۔
پاکستانی اکثر محنتی اور ذمہدار لوگ ہیں اور یہی وجہ کہ ہم اپنے بچوں کو بھی یہی خوبیاں منتقل کر رہے ھیں ۔ اللہ ہم سب کے بچوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کی حفاظت فرماے آمین۔ تحریر۔ ملک ایوب خان۔ سٹاکہولم سویڈن