47

فیس بکیے چور

ہماری نظر میں چوری صرف یہ کہ کوئی شخص کسی کے گھر میں چھپ کر داخل ہو اور اس کا سامان چُرالے یا بزور طاقت ان کسی سے اس کی رقم یا قیمتی چیز چھین لے. چوری کی قانونی تعریف جو بھی ہو، مگر کسی بھی شخص کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر استعمال کرنا چوری ہی ہوتی ہے.اس حوالے سے فہد ظفر کی ایک بہت ہی خوبصورت تحریر اردو قاصد کے قارئین کے لیے پیش کررہا ہوں.

تحریر: فہد ظفر
سوشل میڈیا پر تحریر اور پوسٹس کی چوریاں عام ہو چکی ہیں لوگ دوسروں کی تحاریر کاپی کر کے اپنی ٹائم لائن یا پیجز پر پیسٹ کرتے ہیں۔ پوسٹس چوری کر کے چپکاتے ہیں اور سب سے زیادہ خطرناک ترین بات یہ ہے کہ وہ اسے گناہ نہیں بلکہ صدقہ جاریہ سمجھتے ہیں، ان کو معلوم ہی نہیں کہ چوری کس بلا کا نام ہے؟ سب سے پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ چوری کہتے کسے ہیں-
چوری (سرقہ) کا لغوی معنی ہے خفیہ طریقے سے کسی اور کی چیز اٹھا لینا۔ اور یہی کام آج لوگ کر رہے ہیں اسی کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو تحریر اور پوسٹس کے چور خفیہ طریقے سے اٹھا کر اپنی ٹائم لائن یا پیج پر چسپاں کر دیتے ہیں اور چوری کرتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے کہ یہ غلط ہے بلکہ کچھ لوگ تو اسے چوری سمجھتے ہی نہیں ہیں وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ دین کی باتیں آگے بڑھانا یہ اچھا کام ہے اور کچھ جہلاء تو ماشاء اللہ اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اپنا نام شریف بھی اس پر کندہ کر کے ولایت کے درجات طے کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد یا تو اپنی جہالت پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے، نام کمانا ہوتا ہے کہ لوگ کہیں ماشاء اللہ بہت متقی اور علم والا ہے یا پھر لوگوں سے واہ واہ ہی وصول کرنا ہوتا ہے۔
آئيے اس مسئلے کو اللہ کے کلام اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ کی حدیث سے سمجھتے ہیں –

فرمان باری تعالی ہے:
ترجمہ: وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارہ میں نہ سمجھیے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
(آل عمران/188)

اس آیت کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فیس بکیے چور پورے پورے کھرے اترتے ہیں ان کا کام ہی یہی ہے دوسروں کی محنت پر خود کریڈٹ لینا- چوری صرف مال و دولت کی ہی چوری نہیں ہے بلکہ اس کی بہت سی اقسام ہیں۔
رسول الله ﷺ نے فرمایا:
چوری کے اعتبار سے بہت برا چور لوگوں میں وہ شخص ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلا وہ اپنی نماز سے کیونکر چوری کرے گا۔ آپ نے فرمایا، جو اپنی نماز کا رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا نہ کرے۔ (رواہ احمد)
نماز ادا کرنا تو ایک اچھا عمل ہے بلکہ تمام عمل سے اچھا عمل ہے، تو بھلا چوری کیونکر ممکن ہے؟ وہ اس لیے کہ جو اصول اور طریقہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا وہ اس اصول اور طریقے کے مطابق نہیں پڑھتا تو وہ چور ہوا، اسی طرح سے ہر چیز کا ایک اصول ہے اگر وہ چیز اصول کے مطابق نہیں ہوئی تو خرابی ہونا لازمی ہے –
اگر آپ کسی کی تحریر، پوسٹ یا گرافکس اٹھا رہے ہیں تو اس کے بھی اصول ہیں کہ:
1- اس بندے سے آپ پوچھ لیں جس کی پوسٹ یا تحریر آپ اٹھا رہے ہیں-
2- نہ پوچھنے کی صورت میں ایمانداری سے آپ آخر میں اس کا نام ضرور لکھیں-
3- یا اگر کسی کتاب سے کسی کی تحریر لے رہے ہیں تو اس کتاب کا حوالہ ضرور دیں-
4- جہاں سے آپ کاپی پیسٹ کر رہے ہیں اس کا لنک بھی ضرور دیں-
ایک بات ذہن میں رکھیں کہ چوری چوری ہوتی ہے چاہے وہ کسی بھی چیز کی ہو- ان لوگوں کا ذکر کر دینا بھی ضروری ہے جو ان جیسے چوروں کے ہم خیال ہوتے ہیں یعنی اگر ان چوروں کو کوئی نصیحت کرتا ہے تو انہیں بہت برا لگتا ہے دراصل یہ انہیں کی ایک کیٹگری ہے جو چوری کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں- ایسے لوگ یا تو اسے چوری نہیں سمجھتے یا پھر ایسے گناہ کو گناہ نہیں سمجھتے یا پھر بہت حقیر سمجھتے ہیں ان کی مثال ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث سے دیتے ہیں- نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
گناہوں کو چھوٹا نہ سمجھو، ایک قوم چھوٹی چھوٹی لکڑیاں جمع کر کے آگ جلاتی ہے پھر اپنی روٹیاں پکاتی ہے گناہوں کو چھوٹا سمجھنا، اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے۔ (مسند احمد)

امام ابن القیم فرماتے ہیں ’’یہ مسئلہ اہم ترین ہے لوگ کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں۔ خوف کھاتے ہیں۔ لیکن صغیرہ گناہوں میں لاپرواہی کرتے ہیں۔ ان سے پرہیز نہیں کرتے۔ آہستہ آہستہ ان صغیرہ گناہوں کا جم غفیر اکھٹا ہو جاتا ہے پھر کبیرہ گناہوں میں سے بھی خوف کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے‘‘۔ (مدارج السالکین)
آخر میں نصیحت اور تنبیہ ان چوروں کے لیے جو اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں اس کی کئی ایک وجوہات ہیں- ان میں سے ایک یہ ہے کہ دوسروں کی پوسٹس اور تحاریر پر اپنا نام لکھ کر خود کی تعریفیں بٹورنا ہوتی ہیں جس سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ یہ کام اللہ کے لیے نہیں ہے بلکہ لوگوں کو دکھاوے کے لیے ہے اوپر سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہمارا مقصد تبلیغ و اصلاح ہوتا ہے جب مقصد تبلیغ اور اصلاح ہے تو پھر دوسروں کی پوسٹس اور تحریر پر اپنا نام چسپاں کرنا چہ معنی؟ اگر آپ اللہ کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں تو، یا تو اصول مدنظر رکھ کر کریں اور اگر صاحب تحریر یا مصنف یا پوسٹ بنانے والے کا نام لکھنا آپ کی شان میں کمی کرتا ہے تو صرف قرآنی آیات اور صحیح احادیث کاپی پیسٹ کرنے پر ہی اکتفاء کریں۔ یہ ریا اور دکھاوا اس قدر خطرناک گناہ ہے کہ الامان والحفيظ۔
جان لیجیے! چوری کی پوسٹ سے نام کمانا ریاکاری ہے۔ اسے شرک اصغر کہا گیا ہے اور اس بخار میں مبتلا لوگوں کے لیے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس چیز کے بارے میں مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف ہے وہ شرک اصغر ہے۔‘‘صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! شرک اصغر کیا ہے؟ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دکھاوا! بیشک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے:
جائو ان لوگوں کے پاس جن کو دکھانے کے لئے تم لوگ دنیا میں عمل کرتے تھے، پھر دیکھو کیا تم ان کے پاس سے کوئی بدلہ پاتے ہو۔‘‘
(مسند احمد)

اس لیے اپنی سوچوں کو بدلیے اور نیتوں کو خالص کیجیے۔ متکبر بن کر ڈھٹائی اختیار نہ کیجیے اب اگر ان سب دلائل کے باوجود ایسے لوگوں کو سمجھ میں نہ آئے تو سمجھ لیجیے کہ اس کے دل میں کبر اور گھمنڈ ہے جس کے متعلق ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
وہ شخص دوزخ میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو گا اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہو گا۔ (مسلم)
اس طرح کے کام دراصل جھوٹی عزت کے لئے ہی کیا جاتا ہے جس کے متعلق فرمان الٰہی ہے:
جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو اس کی (جھوٹی) عزت(کی آرزو کا تکبر) اسے گناہ پر جما دیتا ہے۔ پس اسے جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔ (البقرہ/206)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں