63

کوڑا کرکٹ کے مسائل، ہمیں معاشرتی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے

دہائیوں سے کراچی شہر بہت سے سانحات کی وجہ سے متاثر ہے۔ بڑھتی شہری آبادی اور طرز زندگی میں تبدیلیاں کی وجہ سے فضلہ کی مقدار میں اضافہ بھی اب شہر کے ماحول کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شہر میں روزانہ 14 ہزار ٹن کچراپیدا ہوتا ہےجس میں سے صرف 3 ہزار ٹن کچرا ہی اُٹھایا جاتا ہے۔باقی کچرا عروس البلاد کہلائے جانے والے کراچی شہر میں جگہ جگہ پڑا ملتا ہے، جو بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سندھ حکومت نے اس مسئلہ سے نمٹنے کیلئے کچرا اٹھانے کیلئے چینی کمپنی سے معاہدہ کرلیا ہے اور چین میں مشینری بھی تیار کر لی گئی ہے جو شہر سے کچرا اٹھانے کا کام کرے گی۔ان ٹرکوں پر ”آئیں ہاتھ ملائیں، صاف اور صحتمند سندھ کیلئے ” لکھا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ری سائیکل ہونے والے کچرے کو کار آمد بنائے اور اس سے ایندھن کا مسئلہ بھی حل کرے ۔ اکثر ہم فضلہ سے توانائی پیدا کرنے کے دعوے سنتے ہیں لیکن یہ عوام میں شعور بیدار کیے بغیر کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کے عام شہریوں کو اس تعلق سے تعلیم دینے کا انتظام بھی اس مہم کا حصہ بنائے۔ فضلہ کو الگ کرنے کے لئے دو کوڑے دان کا استعمال کا طریقہ مہنگی ٹکنالوجی سے کسی حد تک نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

1950 میں، جرمنی میں 50ہزار لینڈفلس(کچرا کنڈیاں) تھیں جو اب صرف 300 رہ گئی ہیں اور جہاں بغیر چھانٹاہوا کچرا قابلِ قبول نہیں۔ان کے اعلی درجے کی ویسٹ مینجمنٹ پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ 50ہزار کچرا کنڈیاں 70 بھٹیوں، 60 حیاتیاتی اور میکانی فضلہ پروسیسنگ فیکٹریوں اور نامیاتی فضلہ سے ھاد کی پیداوار کرنے والے 800 یونٹس میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
سویڈن میں 1975 میں صرف 38 فی صد گھریلو فضلہ ریسائیکل کیا جارہا تھا لیکن 70 کی دہائی میں فضلہ کو ٹھکانے لگانے کے سخت قانون کا نتیجہ ہے کہ آج سیڈن اپنے 99 فی صد فضلہ کو ریسائیکل کررہا ہے ۔ سویڈن کا 1 فی صد سے بھی کم گھریلو فضلہ لینڈ فلس(کچرا کنڈی) پر ختم ہوتا ہے۔ہر سال سویڈش قوم 4.4 میلئن ٹن گھریلو فضلہ پیدا کرتی ہے جس میں 2.2 میلئن کو توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
اس عمل کی شروعات شہریوں کے دیئے گئے نظام سے ہوتی ہے۔ سویڈن دنیا کے ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں کوڑا کرکٹ کو گھروں سے ہی الگ الگ جمع کیا جاتا ہے تاکہ دوبارہ استعمال میں آسانی رہے-

پڑوسی ملک اس مہم میں اپنے تمام میڈیا گروپس ، معروف شخصیات اور فنکاروں کا سہارا لے کر ہر ایک پلیٹ فارم کے استعمال سے لوگوں تک اس کی آگاہی ممکن بنا رہا ہے۔

مہنگی مشینری کے ساتھ ساتھ ہماری حکومت کو چاہیئے کہ لوگوں میں فضلہ کی تقسیم کے اس نظام کو بھی متعارف کرائے اور سیڈن، جرمنی جیسے ممالک جو دنیا کے لیے مثال ہیں ان کے تجربات سے فائدہ اُٹھائے ۔ آج ہمارا اُٹھایا ہوا ایک سہی قدم ایک بہترین پالیسی ہمارے نسلوں کوآلودگی سے پاک اور روشن پاکستان دے سکتی ہے۔

تحریر: محمد شہزاد انصاری
تصاریر: نوید عباس میمن
حوالاجات: https://goo.gl/YCWuFg

https://goo.gl/DGfm9r

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں